Actions

دورِ حاضر

From IQBAL

Revision as of 01:02, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ یہ امر ہمارے لیے بہت زیادہ اطمینان کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتیں اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظریہ اجماع کے امکانات اور قدر وقیمت مرتسم کررہے ہیں‘‘

(چھٹا خطبہ)

(۲)’’آجکل بنی نوع انسان کو تین چیزوں کی ضرورت ہے…کائنات کی روحانی تعبیر‘فرد کی روحانی آزادی اور روحانی بنیاد پر انسانی سوسائٹی کو ارتقا پذیر بنانے والے اساسی اور عالمگیر اُصول‘‘ (ایضاً) (۳)’’ دورجدید کا انسان اپنے فلسفہ تنقید اور سائنسی مہارت کے باوجود اپنے آپ کو عجیب وغریب مخمصے میں پاتا ہے۔اُس کے فلسفہ فطرت نے اُسے قدرت کی طاقتوں پر بے نظیر تسلط عطا کیا ہے۔ لیکن اِن تمام علوم نے اُسے اپنے مستقبل سے نااُمید کردیاہے‘‘ ( ایضاً) (۴)’’ اپنی ذہنی سرگرمیوں کے نتائج سے کلیتہً متاثر ہوکر عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے یعنی اس کا باطن زندہ نہیں رہا…بے رحم انانیت اور نہ ختم ہونے والی ہوس زرِ آہستہ آہستہ اُس کے تمام اعلیٰ مقاصد کا قلع قلمع کرکے اُسے زندگی سے بیزار کررہی ہیں‘‘ ( ایضاً) (۵)’’ قدیم قسم کا تصوف‘قومیت اورلا دین اشتراکیت مایوس انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں‘‘ ( ایضاً)

  اجماع کا نظریہ اسلامی آئین کا تیسرا بڑامنبع ہے۔قرآن وحدیث نبویؐ کے بعد مسائل کے حل کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اقبالؒ اس کی قدر ومنزلت سے بخوبی آگاہ ہونے کے سبب اس امر کے خواہش مند تھے کہ مسلمان دنیا میں رونما ہونے والے نئے نئے حالات اور سائنسی ترقی اور جدید سیاسی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گوناگوں مسائل کو اجتماعی مشوروں سے حل کریں۔رسول کریم ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’میری اُمت کبھی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوگی‘‘ علاوہ ازیں قرآن حکیم نے بھی باہمی مشاورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان اپنے اُمور کا فیصلہ باہمی مشورے سے کیاکرتے ہیں۔ یہ قرآنی ارشاد ملاخطہ ہو’’وامر ھم شُوریٰ بینھم‘‘(الشوریٰ ۴۲:۳۸) (اور اُن کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں)۔باہمی مشاورت کی اہمیت وافادیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ خود شارع اعظم  ﷺ کو جماعت مومنین سے مشورہ کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا:’’ و شاوِر ھم فیِ الامر‘‘(آل عمران ۳:۱۵۹)(اور آپؐ مسلمانوں سے معاملات میں مشورہ کریں)۔جب باہمی مشورے پر رسول کریمؐ خود بھی عمل پیرا تھے تو بعد میں آنے والے مسلمان اس حکم سے کیسے مستثنیٰ قراد دئیے جاسکتے ہیں؟ یہ باہمی مشاورت صرف انہی معاملات میں ہوسکتی ہے جن کی قرآن وحدیث میں وضاحت نہ ہو۔قرآن کی حدود(حدود اﷲ) کے اندر رہ کر ہی مسلمانوں کو باہمی مشورے اور اجماع کی اجازت ہے۔ یہ بات مدنظر رہے کہ قرآن نے ہمیں کچھ ابدی اُصول اور قوانین دئیے ہیں‘اُن میں کسی قسم کے ردّ وبدل اوراضافہ کی گنجائش نہیں۔ البتہ جزوی اُمور میں اجماع اور قیاس کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔اسلامی آئین کی یہی لچک اس کی جاذبیت اور قبولیت عامہ کی دلیل ہے۔جب کوئی ضابطہ قوانین بالکل جامد ہوجائے تو وہ زندگی کے متغیر اور نئے حالات کا ساتھ نہ دے کر اپنی اہمیت وقدر کھو بیٹھتا ہے۔اس لیے علامہ اقبال اس بات پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں کہ نئے حالات اور ’’سیاسی تجربات دور جدید کے مسلمانوں کے ذہنوںپر نظریہ اجماع کے امکانات اور قدر وقیمت مرتسم کر رہے ہیں‘‘۔ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور حقائق سے منہ موڑ کر سابقہ روش اور غیر اہم سیاسی نظریات سے چمٹے رہنا دانش مندی اور حقیقت پسندی کی علامت نہیں۔علامہ اقبالؒ نے اسی لیے تو کہا تھا:۔

آئین نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اُڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموںکی زندگی میں (بانگ درا، کلیات اقبال،ص۱۷۴)

علامہ اقبالؒ کی موجودہ زمانے سے بیزاری کی ایک وجہ مادہ پرستی بھی تھی۔وہ اسلامی تصور زندگی کی روشنی میں مادّہ وروح کی ثنویت اور چپقلش کے مخالف تھے کیونکہ اُنکی رائے میں زندگی کی اکائی ناقابل تقسیم ہے۔اسلامی نظریہ توحید کی رُو سے تمام کائنات میں وحدت کا اُصول کارفرما ہے جب ہم خدائے واحد کو اس کائنات کا خالق،رزاق اور مالک خیال کرتے ہیں تو پھر کسی اور ہستی کی حاکمیت کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے؟زندگی بذات خود ایک ایسی وحدت ہے جسے موت بھی ختم نہیں کرسکتی۔کائنات کی مادی تعبیر نے انسانوں کو اس قدر مادہ پرست، زر پرست، خود غرض،اخلاق ناآشنا اور انسان دشمن بنادیا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کے اعلیٰ جذبات‘شرف آدم کے احساس اور اخلاقی حسِ سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔دور حاضر کا انسان اپنے علمی کمالات‘ سائنسی اکتشافات اور تسخیر کائنات کے باوجود قنوطیت‘ خوشگوار مستقبل سے مایوسی‘احساس تنہائی اور قلبی اضطراب اور کئی نفسیاتی امراض کا شکار ہوچکا ہے۔کیا یورپی قوموںکے اکثر افراد دولت کی فرا وانی‘ بلند معیار زندگی اور زندگی کی گوناگوں آسائشات کے ہوتے ہوئے دلی بے سکونی‘ذہنی انتشار‘باہمی تصادم‘ معاشرتی ابتری اور اخلاقی دیوالیہ پن کے شاکی نہیں؟ کیا حد سے بڑھی ہوئی مادہ پرستی سے تنگ آکر وہ منشیات اور دیگر مذاہب کی طرف رجوع نہیں کررہے ہیں؟ کیا مشرقی ممالک بھی اُنکی پیروی کرتے ہوئے انہی الجھنوںکا شکار نہیں ہورہے ہیں؟ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال ؒیہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے:۔

آدمیت زار نالید از فرنگ زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ

 یورپ   از  شمشیر خو د بسمل  فتاد       زیرِ گردوں    رسمِ   لادینی  نہاد
مشکلات حضرت انساں ازوست       آدمیت  ر ا غمِ  پنہاں   ازوست
در نگاہش آدمی آب وگلِ  است       کاروانِ زندگی  بے منزل   است

(پس چہ باید کرد اے اقوام شرق،کلیات اقبال،ص ۸۳۹)

لادینی افکار اور مادیت کے سبب نہ صرف یورپ خود’’بے منزل‘‘ اور اپنی تلوار سے خود گھائل ہوچکا ہے بلکہ اس مادہ پرستانہ اور بے خدا تہذیب وتمدن نے باقی انسانوں کو بھی مختلف مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔اس لیے علامہ اقبالؒ کائنات اور انسانی زندگی کی روحانی تعبیر پر زور دیتے ہوئے ہوئے بجا فرماتے ہیںکہ’’موجودہ زمانے کے لوگوں کو کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کی  روحانی آزادی اور روحانی بنیادوں پر انسانی سوسائٹی کو چلانے کے لیے ان اساسی اور آفاقی اُصولوں کی اشد ضرورت ہے جو انسانی معاشرت کو ارتقا پذیر بناسکیں۔اُنھیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ قومیت،لادین اشتراکیت اور قدیم قسم کی رہبانیت اور نفی ذات پر مبنی تصوف بھی مایوس اور پریشان انسانوں کی روحانی اور ذہنی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتے۔ قرآن حکیم نے آج سے صدیوں پہلے یہ کہا تھا:’’ اَلا بذِ کرِ اﷲِ تطمئن القلوب‘‘ (الرعد ۱۳:۲۸)( آگاہ ہوجائو کہ اﷲ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے)۔ جب دل ودماغ کو خدا ئی ذکر اور خدائی قربُ سے لاتعلق رکھا جائے تو اسکا لازمی نتیجہ بے چینی اور پریشانی کی صورت میں رونما ہوگا۔جب تک خدا ہماری آرزو اور ہماری جستجو نہیں بنے گا اس وقت تک ہماری زندگی سو زوسکون سے آشنا نہیں ہوگی۔بقول  علامہ اقبالؒ:

تجھ سے مری زندگی،سوز و تب ودرد وداغ تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو (بال جبریل،کلیات اقبال،ص ۳۸۴)