Actions

خدا

From IQBAL

(۱)’’عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ذریعے قرآن انسان کے اندر اُس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے‘‘۔ (پہلا خطبہ) (۲)’’ غایتی اور وجودیاتی دلائل ہمیں ہستی مطلق کا قائل نہیں کرتے۔اُنکی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ وہ’’فکر‘‘ کو اشیا پر خارج سے اثر انداز ہونے والی قوت قرار دیتے ہیں۔ اس تصور سے ایک طرف تو ہمیں میکانیت کا احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ خیال اور حقیقت کے درمیان ناقابل عبور خلیج حائل کردیتا ہے۔اس طرح فکر اور وجود کی ثنویت جنم لیتی ہے‘‘۔ ( دوسرا خطبہ) (۳)’’ قرآن حکیم ظاہری اور باطنی تجربات ومشاہدات کو اس حقیقت کاملہ کے نشانات سمجھتا ہے جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی،جو ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘‘۔ (ایضاً) (۴)’’ آئن سٹائن کا سائنسی تصور اگرچہ اشیا کی بناوٹ کو بیان کرتا ہے لیکن وہ اشیا کی ماہیت اور کنہ پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا۔ذاتی طور پر میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہستی مطلق کی نوعیت وماہیت روحانی ہے۔اُس کا یہ نظریہ ہمیں بہت بڑی مشکل سے دوچار کرتا ہے۔وہ مشکل یہ ہے کہ یہ زمانے کو غیر حقیقی بنادیتا ہے‘‘۔ (ایضاً) (۵)’’ فطرت کو ذات ایزدی کے ساتھ وہی تعلق ہے جو کردار کو انسانی ذات کے ساتھ ہے۔ قرآن پاک اسے اپنے خوبصورت لہجے میں’’سنتہ اﷲِ‘‘ (الفتح ۴۸:۲۳)،(خدا کی عادت) کہتا ہے‘‘۔ (ایضاً) (۶)’’ قرآن حکیم کاارشاد ہے’’والیٰ ربک المنتھی‘‘(النجم ۵۳:۱۴) ہمارا یہ نقطہ نگاہ طبیعی سائنس کو نئے روحانی مفہوم سے آشنا کرتا ہے‘‘۔ (ایضاً) (۷)’’ قرآن پاک کی رو سے حقیقت مطلقہ کی بنیاد روحانیت پر ہے اور اس کی ز ندگی دنیوی سرگرمیوں پر مشتمل ہے‘‘ (چھٹا خطبہ) قرآن حکیم کی رُو سے یہ کائنات اِرض وسما خدا تعالیٰ کی حکمت‘ طاقت اور تخلیق کی بے شمار نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔آسمان وزمین کی آفرنیش اور دیگر اشیائے کائنات کی بناوٹ اور خود انسانی تخلیق میں اہل دانش وفکر کے لیے علم وحکمت کے لاتعداد اسرار ورموز پوشیدہ ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تجلیات کی تاب انسانی آنکھوں میں کہاں کہ وہ اُن کا نظارہ کرسکیں؟ لامحالہ ہم خدا کے وجود اور کمالات کی معرفت اس کی پیدا کردہ ظاہری اور خارجی نشانیوں کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔قرآن حکیم کی متعدد آیات میں ہماری توجہ حقیقت مطلقہ کے ظاہری اور خارجی مظاہر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔یہاں صرف دو قرآنی مثالیں پیش کی جاتی ہیں:۔ ’’انّ فی خلق السمٰوات و الارِض واختلاف ا ِلّلیل والنھا رِ والفلک الّتی تجری فیِ البحر بما ینفع النّاس وما انزل اﷲ منِ السّما ئِ من مّا ئِ فاحیا بہِ الارض بعد موتھِا و بث فیھا من کّل دابّہ وّ تصریف الرّ یاحِ والسّحابِ المسخر بین السّمائِ والارضِ لایاتِ لّقوم یعقلون‘‘ (البقرہ ۲۰:۱۶۴) (ترجمہ :بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے،رات اور دن کے بدلنے،سمندر میں لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو( یعنی مال تجارت) لے کر چلنے والے جہازوں، آسمان سے خدا کے بھیجے ہوئے پانی(بارش) جس سے مردہ زمین میں جان پڑتی ہے،زمین میں پھیلے ہوئے طرح طرح کے جانوروں، ہوائوں کے بدلنے اور آسمان اور زمین کے درمیان گھرے ہوئے بادلوں میں سمجھ دار لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں‘‘)۔ ’’من ایٰتہ خلق الّسموات والارضِ واختلاِفُ السنتِکم و الو انکمُ‘‘ (الروم ۳۰:۲۲) (ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمھاری بولیوں اور رنگوں کا مختلف ہونا اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے‘‘)۔

رواں دواں ندیوں، بہتے چشموں، حسین مرغزاروں،آسمانو ںپر تیرتے ہوئے رنگ برنگے بادلوں، انواع واقسام کے پھلوں اور پھولوں اور ارض وسما کی آفرنیش میں ہمارے لیے خدا تعالیٰ کی کبریائی اور وجود کو ثابت کرنے کے لیے دعوت مطالعہ ہے۔خدا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی،وہ اّول بھی اور آخر بھی،اس لیے ان مظاہر فطرت کے گہرے مشاہدے سے ہمیں بہت سے علوم وفنون کا سراغ ملتا ہے۔اس زاویہ نگاہ سے علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے کہ’’عمیق مشاہدہ کے ذریعے قرآن پاک انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہریہ کائنات ہے‘‘اُنھوں نے دوسری ضروری بات یہ بیان کی ہے کہ یہ فطرتی مناظر اور قدرتی اشیاء دراصل خدا کی عادت اور تخلیقی صفت کی آئینہ دار ہیں۔ یہ دنیا خدا کی مختلف صفات کی جلوہ گاہ اور حکمت ومعرفت کا بے بہا خزانہ ہے۔ اُن کی رائے میںجس طرح ہم انسان کے اعمال واطور کو دیکھ کر اُس کی شخصیت کا اندازہ لگایا کرتے ہیں اسی طرح مطالعہ فطرت اور مشاہد ہ کائنات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم کائنات بھی خدا کی فعالیت اور کردار کی ترجمان ہے۔قرآن پاک اسے’’سنتہ اﷲ‘‘(اﷲ کی عادت) قرار دیتا ہے۔ شاعر مشرق کے مندرجہ ذیل اشعار اُن کے تصور کائنات کے چند گوشوں کوبے نقاب کرتے ہیں:

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ کھولی ہیں ذوق ِدید نے آنکھیں تری اگر ہر رہگذر میں نقشِ کف پائے یار دیکھ (بانگِ درا ،کلیات اقبال،ص۹۸)

؎  خاک چمن وا نمود‘ رازِ دل ِ کائنات

بود وبنودِ صفات جلوہ گری ہائے ذات آنچہ توُ دانی حیات آنچہ توُ خوانی ممات ہیچ ندارد ثبات خاک چمن وا نمود، رازِ دلِ کائنات ( پیام مشرق،کلیات اقبال،ص ۲۶۴) خدا تعالیٰ کے وجود کو فلسفیانہ انداز سے تین طرح بیان کیا گیا ہے۔کائناتی طریق، غایتی طریق اور وجویاتی طریق۔ کائناتی طریق یہ ہے کہ ہم کائنات کے مطالعہ ومشاہد ہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت علّت ومعلول کا استدلال ہوتا ہے جس میں ہم معلول سے علّت کی طرف جاتے ہیں اور خدا کو ہر چیز کی آخری علّت فرض کیا جاتا ہے۔خدا پر جاکر یہ سلسلہ ختم کردیا جاتا ہے حالانکہ ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی اُبھر تا ہے کہ خدا کی ہستی کی علّت کیا ہے؟ اس طریق کی خامی یہ ہے کہ یہ خدا پر جاکر ختم ہوتا ہے جبکہ خالص منطقی لحاظ سے اسے آگے بھی جانا چاہیے۔غایتی طریق میں ہم کائنات کی تخلیق کی غرض وغایت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔وجویاتی طریق میں ہم پہلے خدا کا وجود فرض کرلیتے ہیں اور بعد ازاں اسے بنیاد بناکر خدا کے خیال کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں یہ فلسفیانہ انداز ہمیں خدا کی ہستی کا قائل نہیں کرتا کیونکہ اس میں اشیائے کائنات اور فکر کو الگ الگ خیال کیا جاتا ہے۔اس طرح فکر اور مادّے کی دوئی اور میکانیت کا احساس ہوتا ہے۔خدا تو اب بھی اپنی خلاقی صفت کا مظاہرہ کررہا ہے اس لیے کائنات کو ایک مشین کی طرح خیال کرکے خدا کو خارج سے اس پر اثر انداز تصور کرنا درست نہیں۔ یہ تصورغلط ہے کہ خدا اس کارخانہ قدرت کو چلا کر اب آرام کررہا ہے۔خدا کے مقابلے میں کسی اور چیز کا مستقل وجود نہیں کیونکہ مادّہ کوئی ازلی شے نہیں بلکہ یہ عالم ’’امر‘‘ سے عالم’’خلق‘‘ کی طرف سفر کی حیثیت رکھتا ہے۔علامہ اقبالؒ خدا کے وجود اور خودی کے باہمی ربط پر روشنی ڈالتے ہیں: تری نگاہ میں ثابت نہیں خد اکا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

وجود کیا ہے؟فقط جوہر خودی کی نمود     کر اپنی فکر کہ جوہر ہے  بے نمود ترا

(ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص۴۹۶) مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ کی رائے میں کائنات کی بنیاد روحانیت ہے مگر اس کی زندگی دنیوی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔انسان کے دل اور کائنات کے خارج میں ایک ہی ہستی کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کائنات کی ساخت اور نوعیت کے بارے میں مختلف مفکرین کے خیالات کا جائزہ لیا ہے۔نیوٹن(۱۷۲۷۔۔۱۶۴۲) نے آئن سٹائن(۱۹۵۵۔۔۱۸۷۹) سے کافی عرصہ پہلے کائنات کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ یہ خلائے بسیط کے درمیان واقع ہے۔آ ئن سٹائن نے اس مادی تصور کائنات پرضرب کاری لگائی اور نظریہ اضافیت پیش کیا جس کی رُو سے کسی چیز کی نوعیت اور حقیقت دیکھنے والے کی حالت کے مطابق بدل دی جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ چونکہ زمان کو بھی مکان کی طرح حقیقی خیال کرتے ہیں اس لیے وہ آئن سٹائن کے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے مکان کو تو حقیقی ثابت کردیا مگر اس نے زمان کو غیر حقیقی بنادیا تھا۔تاہم وہ اپنی نظم’’ حکیم آئن سٹائن‘‘ میں اس کے نظریہ اضافیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ جلوہ می خواست مانندِ کلیم ناصبور تاضمیر مستینر اوکشود اسرار نور ( پیام مشرق،کلیات اقبال، ص ۳۹۶)