Actions

جلال وجمال

From IQBAL

(۱)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ جلال کے بغیر بصیرت اخلاقی بلندی پیدا کرتی ہے لیکن وہ پائیدار کلچر کو جنم نہیں دے سکتی۔اس کے برعکس جمال کے بغیر جلال تباہ کن اور انسانیت سوز ثابت ہوتا ہے۔بنی نوع انسان کی روحانی ترقی کے لیے دونوں کا امتزاج ناگزیر ہے‘‘۔ (تیسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ ایک ایسے نابغہ انسان تھے جن کی ذات میں قدرت نے بہت سی خوبیاں پیدا کردی تھیں۔ شعر وفلسفہ کے علاوہ اُنھیں تاریخ‘ عمرانیات اور اسلامی تعلیمات کا بھی گہرا ادراک حاصل تھا۔قوموں کے عروج و زوال کے اسباب ونتائج سے بھی اُنھیں گہری دلچسپی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنی نظم ونثر میں ان کی عظمت فکر وعمل کے بارے میں کافی غور وخوص کیا ہوا تھا۔ مندجہ بالا قول میں اُنھوں نے جمال وجلال کے باہمی ربط اور پائیدار کلچر کے سلسلے میں اُن کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔جمال کا عام مطلب حسن ہے۔حسن صرف ظاہری پہلو ہی نہیں رکھتا بلکہ یہ انسانی ذات کی باطنی زیبائی کا بھی عکاس ہوتا ہے ۔اسی لیے ہم حسنِ صورت کے ساتھ ساتھ حسنِ سیرت کی افادیت کے بھی قائل ہوتے ہیں۔یہاں’’جمال‘‘ سے مراد حسنِ سیرت اور اخلاقی صفات ہیں جن کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔’’جلال‘‘ سے عام طور پر عظمت اور رعب داب مراد لی جاتی ہے۔ وسیع معنوں میں اسے طاقت‘سیاسی اقتدار اور اجتماعی دبدبہ کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے جمال انسانی شخصیت کا باطنی حسن قرار پاتا ہے اور جلا ل سیاسی غلبہ ودبدبہ کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ جہاں تک لفظ’’کلچر‘‘ کے مفہوم کا تعلق ہے اس میں بنیادی نظریۂ حیات اور اس کے خارجی مظاہر واعمال شامل ہوتے ہیں۔’’تہذیب‘‘ انسان کی باطنی شائستگی کی مظہر ہے اور’’تمدن‘‘ ہماری خارجی زندگی کا عکاس ہوتا ہے لیکن کلچر باطنی اور خارجی دونوں پہلوئوں کی ترجمانی کرتا ہے۔

جمال اخلاقی بلندیوں اور بصیرت پید اکرنے کا موثر طریقہ ہے مگر طاقت واقتدار کے بغیر اخلاقی نظام اور زندگی کی اعلیٰ قدروں کی نہ تو تبلیغ واشاعت ہوسکتی ہے اور نہ ہی اُنھیں نافذ وغالب کیا جاسکتا ہے۔ پائیدار کلچر کی تشکیل واستحکام کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں اور اخلاق کے عمدہ اُصولوں کو عملی شکل بھی دی جائے وگرنہ وہ مجرد خوبصورت افکار وخیالات ہی رہیں گے۔کلچر محض اساسی تصور حیات ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنی نشو ونما کے لیے ساز گار ماحول اور عملی تنفیذکا بھی محتاج ہوتا ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے اسے’’جلال‘‘ کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جلالی صفات کو جمالی صفات سے ہم آہنگ نہ کیا جائے تو سیاسی غلبہ تباہ کن اور انسانیت سوز ثابت ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کے اندرصرف غلبہ وحکومت کرنے کی زبردست خواہش پیدا ہو اور اس خواہش پر اخلاقی پابندیاں عائد نہ کی جائیں تو وہ خواہش بے لگام ہوکر انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک بن جاتی ہے۔کیاسکندر اعظم‘ہلاکو خاں‘چنگیز خاں‘نیرو اور موجودہ دور میں دو عالمگیر جنگوں نے اس امر کی حقیقت کو بے نقاب نہیں کردیا کہ مذہب واخلاق سے عاری اقتدار انسانی قدروں کی زبردست پامالی اور ہمہ گیر تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔طاقت بذات خودبری نہیں مگر ا سکا غلط استعمال اُسے برا بنادیتا ہے۔اگر طاقت وحکومت کو اعلیٰ انسانی صفات‘ مذہبی اقدار اور اخلاقی بلندیوں کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ نیکی کی غماز ہوجاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم’’قوت ودین‘‘ میںحکومت اور غلبہ اقتدار کے اچھے اور برے پہلوئوں کے چہرے سے یوں پردہ ہٹایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:۔

اسکندر وچنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں سو بار ہوئی حضرتِ انساںکی قبا چاک تاریخِ اُمم کا یہ پیام ازلی ہے ’صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک اس سیلِ سبک سیرو ز میں گیر کے آگے عقل و نظر وعلم وہنر ہیں خس وخاشاک

لادیں ہو تو ہے زہرِہلاہل سے بھی بڑھ کر     ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

( ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص ۴۹۱) جلال وجمال کی بحث کے ضمن میں جرمنی کے مشہور ومعروف فلسفی نطثے(۱۹۰۰۔۱۸۴۴) کے سپرمین اور اقبالؒ کے مردِ مومن کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔نطثے اپنے دور کے انسانوں سے بے زار ہوکر فوق البشر(Superman) کی آمد کا منتظر رہا اور اس کی صفات کو بیان کرتا رہا۔اس کا سپرمین محض جلال کا مظہر ہے اور اس میں جمالی صفات مفقود ہیں جبکہ علامہ اقبالؒ کا بندئہ مومن جلالی صفات کا بھی حامل ہے اور جمالی محاسن کا بھی آئینہ دار ہے۔علامہ اقبالؒ کسی طرح بھی مذہب واخلاق سے عاری اور اندھی طاقت کے حامی نہیں تھے۔وہ پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں یوں رقم طراز ہیں: "I believe in the power of the spirit, not brute force." (Letter to Dr. Nicholson,24th january 1921) علامہ اقبالؒ کی رائے میں ایک مردِمومن اور سچے مسلمان کی زندگی جمال وجلال کی صفات کی مظہر ہونی چاہیے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے دل ودماغ میں پاکیزہ جذبات وخیالات پیدا کرکے اُنھیں پاکیزہ سوسائٹی کے بنانے پر بھی اُبھارتا ہے کیونکہ اسلامی نظریہ حیات محض تبلیغ ہی نہیں بلکہ یہ عملی تنفیذ بھی ہے۔ فکر وعمل کی یہ ہم آہنگی اور جلال وجمال کی یہ یک رنگی اسلامی نظام حکومت اور اسلامی معاشرت کی نمایاں ترین صفت ہے۔ وہ مسلمان کی زندگی میں یہ حسین امتزاج دیکھنے کے شدید آرزو مند تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے مترشیخ ہوتا ہے۔وہ فرماتے ہیں:۔

ہر لحظہ ہے مومن کی  نئی  شان  نئی آن     گفتار   میں‘  کردار   میں   اﷲ  کی   برُہان

قہاّری و غفاّری و قدّوسی وجبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

 جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم     دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

(ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص ۵۲۲) ؎ مومناں را تیغ باقرآں بس است (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۷۴۵)

 خدا تعالیٰ نے انسانوں کی دنیوی اور دینی فلاح وترقی اور مثالی ہدایت کے لیے محض قرآن ہی نازل نہیں کیابلکہ اس کو عملی شکل دینے کے لیے جہاد کا بھی حکم دیا ہے اور’’حدید‘‘(لوہے یعنی شمشیر) کو بھی نازل فرمایا ہے۔اسلام راہبانہ مذہب نہیں بلکہ یہ ایک جامع‘ عالمگیر‘انسانیت ساز اور انقلابی نظام فکر وعمل اور دین ہے۔