Actions

جفا کشی

From IQBAL

Revision as of 00:00, 20 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ قرآنی نقطہ نظر سے صحیح قسم کی مردانگی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مشکلات و مصائب کو صب...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ قرآنی نقطہ نظر سے صحیح قسم کی مردانگی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مشکلات و مصائب کو صبر وسکون کے ساتھ برداشت کرلیں‘‘۔ (تیسرا خطبہ)

زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں کہ انسان کو کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ اعلیٰ قسم کی زندگی اعلیٰ مقاصد کے حصول پر مبنی ہونے کے سبب جفاکشی اور جفا طلبی کا دوسرا نام ہے۔خدا تعالیٰ نے انسان کو دیگرتمام مخلوقات پر ترجیح دے کر اُسے روئے زمین پر اپنانائب بنایا ہے۔جس قدر انسان کا مرتبہ ومقام عظیم ہوگا اسی قدر اسے زیادہ سے زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا ہوگا۔بقول شاعر:۔

؎بجلی کی زد میں آتے ہیں پہلے وہی طیور جو اس چمن سرا میں بلند آشیاں ہوئے

علامہ اقبالؒ بھی حیات جادواں کے حصول کا راز خطرات مول لینے میں مخفی پاتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اس مصرع میں کہتے ہیں:

؎ اگر خواہی حیات اندر خطرزی قرآن حکیم نے انسان کی تخلیق کا ایک مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ تمام موانعات اور مصائب کا مقابلہ کرتا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے:’’ لقد خلقنا الاِ انسان فی کبد‘‘(البلد۹۰:۴)( تحقیق ہم نے انسان کو جفاکشی کے لیے پیدا کیا ہے)۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ذات کی نشو ونما سختیوں سے متصادم ہونے میں ہے۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ بلند ہمت انسان ہمیشہ اپنی مخفی صلاحیتوں کا امتحان لیاکرتا ہے۔اس راہ میں اسے لازمی طور پر متوقع اور غیر متوقع خطرات اور تکالیف سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔شاعر مشرق صحیح قسم کی مردانگی کا یہی معیار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: آز ما ید صاحب قلب سلیم زورِ خود را از مہمات عظیم

مرد خود دارے کہ باشد    پختہ کار       بامزاج  خود   بساز د  رو زگار

گرنسا زد بامزاج اُو جہاں می شود جنگ آزما با آسماں گردش اّیام را د رہم کند چرخ نیلی فام را بر ہم زند

می  کند  از  قوت  خود  آشکار       روزِ گارِ  نو  کہ  باشد ساز گار

( اسرار خودی،کلیات اقبال، ص ۴۹) قرآن پاک میںکہا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے اپنی امانت کو آسمانوں‘زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو اُنھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ اُسے اُٹھانے سے گھبرا گئے۔ایسے حالات میں انسان نے اس بارِ امانت کو اُٹھالیا۔ حافظ شیرازیؔ کے الفاظ میں:

 ؎  آسماں بارِ امانت نتو انست کشید     قرعہ فال بنام منِ دیوانہ زدند
اس امانت الہٰی کی اصل نوعیت کے بارے میں مختلف مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔مسلمان مفکرین اور صوفیا نے اس سے کئی مفاہیم اخذ کئے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اس بارِ امانت سے مراد ’’انسانی شخصیت ‘‘ہے جیسا کہ وہ اپنی معرکہ آرا فلسفیانہ تصنیف میں کہتے ہیں:

"The Quran represents man as having accepted at his peril the trustof personality which the heavens,the earth, and the moun- -tains refused to bear" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.88) اُنھوں نے جس قرآنی آیت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے۔سورۃ احزاب میں ہے:’’اَّنا عرضنا الاما نتہ علی السٰمٰوتِ والارضِ والجبالِ فابین ان یحملنھا واشفقن منھاِ وحملھا الاِ نسانُ انّہ کان ظلوماً جھوُلاً ‘‘ )الاحزاب ۳۳:۷۲)(بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں‘ زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اُنھوں نے اُسے اُٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اُسے اُٹھا لیا۔بے شک وہ بڑا ہی ظالم اور نادان ہے(۔

  اقبالؒ کے خیال میںخدا تعالیٰ انائے مطلق ہے اور اس خدائی خودی سے باقی خودیوں(اّنائوں) کا ظہور ہوا ہے۔مختلف مخلوقات میں مختلف مدارجِ خودی پائے جاتے ہیں۔ انسان  کی ذات میں پہنچ کر یہ خودی باقی تمام مخلوقات سے بالا تر ہوجاتی ہے۔ اس لیے انسانی شخصیت کی نشو نما اور تکمیل کے لیے نا ساز گار ماحول میں رہ کر گوناگوں مشکلات کا صبر وسکون سے مقابلہ کرنا اشد ضروری ہے۔ اُن کی رائے میں یہ جفاطلبی انسانی خودی کے استحکام کامتحان لینے کے مترادف ہے۔اس امر کے پیش نظر وہ دنیا کو’’ میدانِ جنگ‘‘ تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جب تک نہ  زندگی کے حقائق  پہ ہو نظر     تیرا   زجاج  ہو  نہ سکے گا  حریفِ سنگ
یہ زوِر دست وضربتِ کاری کا ہے مقام      میدانِ جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ
خونِ  دل  وجگر سے  ہے سرمایۂ حیات      فطرت ’لہو ترنگ‘ ہے غافل نہ’جل ترنگ‘

(ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص ۴۷۲)