Actions

ثقافت

From IQBAL

Revision as of 01:02, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے‘‘ (بریفالٹ) (پانچواںخطبہ) (۲)’’ میں قطعی طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں کہ فلسفہ یونان نے اسلامی ثقافت کی حدود کومتعین کیا ہے‘‘ ( ایضاً)

 ثقافت سے متعلق علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا الفاظ سے دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔یورپی سائنس پر عربی ثقافت کے اثرات کے اثبات اور اسلامی ثقافت پر فلسفہ یونان کے حدود ساز اثر سے انکار کا تذکرہ۔مغرب کے اکثر متعصب حکما اور مستشرقین اوّل تو یورپی سائنس پر اسلامی ثقافت کے اثرات کا اعتراف نہیں کرتے اور اگر وہ ایسا کربھی لیں تو وہ اسلامی ثقافت کو فلسفہ یونان کی مرہون منت قرار دینے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس اخفائے حقیقت سے اُن کا مقصد اسلامی تعلیمات کی اہمیت وافادیت کو کم کرنا اور مسلمانوں کواُنکے اسلاف کے عملی کمالات سے بے خبر کرکے اُن کو احساس کمتری میں مبتلاکرنا ہے۔ چند حقیقت پسند مغربی حکماء نے چارو وناچار زمانہ قدیم کے ممتاز مسلمان حکما اور فلاسفہ کی عظیم علمی خدمات اور فکری عظمت کا اعتراف کیا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بریفالٹ کی مشہور زمانہ تصنیف’’ تشکیل انسانیت‘‘ کے متعدد اقتباسات اس امر کی گواہی میں پیش کئے ہیں کہ عربی ثقافت نے یورپ کی سائنس کی ابتدائی ترقی میں نمایاں حصہ لیا تھا۔اس ضمن میں اس مغربی دانشور کے یہ اقتباسات دلچسپی سے خالی نہ ہوں گے:۔

(1)"Roger Bacon was no more than one of the apostles of Muslim science and method to Christian Europe------" (2)"Science is the most momentous contribution of Arab civilization to the modern world". (3)"It was not science only which brought Europe back to life. Other and manifold in influences from the civilization of Islam communicated its first glow to European life" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam ;p.130) اس طرح بریفالٹ اپنے نتائج فکر ی کویوں بیان کرتا ہے:’’یورپی سائنس کافی حد تک عربوں کی شرمندہ احسان ہے‘‘۔ علامہ اقبالؒ اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ یونانی افکار نے اسلامی ادیبات خصوصاً تصوف کو کافی متاثر کرکے اس میں غیر اسلامی عناصر شامل کردئیے ہیں مگر وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ فلسفہ یونان نے صحیح قسم کی اسلامی ثقافت کی حدود کو متعین کیا تھا۔اُن کا استدلال مختصراً یہاں درج کیا جاتا ہے۔ (۱) اسلامی ثقافت کی رُوح حرکت ہے اس لیے یہ یونانی جامد تصور کائنات کی ضد ہے۔ (۲) اسلامی ثقافت عالم محسوسات کو غیر حقیقی اور غیر مفید قرار نہیں دیتی ہے۔ (۳) اسلامی ثقافت نے یونانی فلسفے کے علی الرغم تجرباتی علوم کو جنم دیا تھا۔ یونانی مفکرین خصوصاً ارسطو‘ افلاطون اور سقراط ’’جامد تصور کائنات‘‘ کے حامی تھے۔قرآنی تعلیم کی رو سے یہ کائنات ہر لمحہ تغیر پذیر ہے۔ یہ تغیر پذیری اس کے ارتقائے مسلسل کا سبب بنتی ہے۔تاریخ فلسفہ سے آگاہی رکھنے والے اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ افلاطون’’اعیان ثابتہ‘‘ کا زبردست علم بردار ہونے کی حیثیت سے اس ظاہری کائنات کے حسّی علم کو واہمہ خیال کرتا تھا۔اس کے برعکس قرآنی نظریہ اس عالم محسوسات کو حقیقی اور مفید قرار دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ: ’’ رّبنا ما خلقت ھذا باطلاً ‘‘ (آلِ عمران ۳:۱۹۱)(اے ہمارے پروردگار!تو نے اس دنیا کو باطل پیدا نہیں کیا)۔ علامہ اقبالؒ افلاطون کے اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

راہب دیرینہ  افلاطوں حکیم       از گر   وہِ  گوسفندانِ  قدیم

آنچناں افسون نامحسوس خودر اعتبار از دست وچشم و گو ش برُد

 منکرِ   ہنگامہ موجود  گشت         خالقِ  اعیان  نامشہود گشت

(اسرار خودی‘کلیات اقبال‘ص۳۳۔۳۲) قدیم یونانی فلسفے میں مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت کی بجائے انسان کی باطنی دنیا کو لائق توجہ کہا گیا تھا۔ اسلام باطن کی دنیا کے علاوہ ظاہری علم کے مطالعہ پر بھی زور دیتا ہے۔اس تائید کا اثر یہ ہوا کہ مسلمان حکما نے مشاہدہ کائنات کے ذریعے تجرباتی علوم کی بنیاد ڈالی جس کا تذکرہ بریفالٹ نے بھی کیا ہے۔ان اُمور کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت علامہ اقبالؒ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یورپ کی موجودہ ترقی میں ہمارے اسلاف کا بھی نمایاں کردار ہے۔ وہ فرماتے ہیں:۔ عصرِ حاضر زا وئہ ایاّم تست مستئی اُو از مئے گلفام تست

شا رح  اسرارِ  او   تو بودئہ       اوّلین  معمار   اُو  تو  بودئہ

( پس چہ باید کرد…کلیات اقبال ص۸۳۸)