Actions

تہذیبی اور ثقافتی رجحانات و عوامل

From IQBAL

یورپ کی استعماری طاقتوں ، خصوصاً برطانیہ نے نہایت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے بہت پہلے سے‘ علمی ، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر بھی مسلمانو ں کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کردی تھیں۔ انیسویں صدی میں انھوں نے قاہرہ، بیروت ، دمشق ، استامبول اور کئی دوسرے مقامات پر ایسے تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے جنھیں مسلمانوں کے اندر مغربی تہذیب اور نظریات کے نفوذ کا ذریعہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عرب قومیّت اور تورانی قومیّت کی عصبیت کو ہو ا دی ۔ چنانچہ عربوں کی قوم پرستی اور ترکوں کی قومی تحریک کا (جسے نوجوان ترکوںYoung Turks کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے ) آغاز کرنے والے بیشتر لوگ یہودی اور عیسائی تھے۔ عرب قوم پرستی کی تحریک پانچ عیسائی نوجوانو ں نے شروع کی تھی جو بیروت کے پروٹسٹنٹ کالج کے تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے بطورِ خاص مسلمانوں کو بھی اپنی تحریک میں شامل کیا تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے اندر نفوذ کرنے میں کامیابی ہو۔ ان مقامی عیسائیوں کو بیرونی مشنریوں کا تعاون حاصل تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں عرب قوم پرستی کے زہریلے اثرات نے اپنا رنگ دکھایا اور عربوں کے اندر ترکوں کے خلاف نفرت و بغاوت کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ دوسری طرف تورانی قوم پرستی کے فروغ کے لیے ترکی میں ’’ انجمن اتحاد و ترقی‘‘ (Committee of Union and Progress)قائم کی گئی ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی شامل تھے۔ بظاہر اس کا مقصد سلطنت کو انتشار سے بچانا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا تھا مگر اس تحریک نے عثمانی خلافت کے اسلامی تشخص کو بہت نقصان پہنچایا کیونکہ انجمن کی بنیاد لادینیت پر تھی اور اس کے افکار کا سرچشمہ یورپ تھا۔ معروف یورپی مصنّف لنگزاسکی (Lenczowski)اعتراف کرتا ہے:The Young Turks drew its inspiration from the West.اس سے ترک قوم پرستی کو لادینی بنیادوں پر فروغ حاصل ہوا۔ ۱۹۰۸ء میں انجمن برسر اقتدار آئی۔ اگلے برس سلطان عبدالحمید ثانی کو معزول کر کے سلطان کے اختیارات محدود کر دیے گئے۔ مزید برآں نوجوان ترکوں نے سلطان کی مخالفت کے باوجود حسین کو شریف مکّہ مقرر کیا جس نے بعد میں ترکوں سے غداری کرکے انگریزوں کے سامراجی عزائم کا ساتھ دیا۔’’ نوجوان ترک‘‘ اپنے بلند بانگ اور انقلابی دعووں میں پورے نہ اترسکے۔ البتہ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی کے داخلی انتشار سے بیرونی دشمنوں نے فائدہ اٹھایا ۔ کئی اہم علاقے ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے اور بعض حصوں پر اس کی گرفت کمزور پڑ گئی۔دولتِ عثمانیہکے مصنّف محمد عزیر لکھتے ہیں :’’انجمن کے ممبروں میں ترکوں کے علاوہ عیسائیوں اور یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ‘‘ چنانچہ انجمن پر عیسائی اوریہودی پوری طرح حاوی تھے۔ ان کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوان ترکوں نے ۱۹۱۳ء میں جو وزارت بنائی‘ اس میں تین یہودی نژاد وزیر بھی شامل تھے۔ ۱۹۰۲ء میں سلطان عبدالحمید (م: ۱۰ فروری ۱۹۱۸ئ) نے سلطنتِ عثمانیہ (میں شامل فلسطین) کے اندر یہودی آباد کاری کی پرکشش درخواست کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا:’’ ڈاکٹر ہرتسل کو بتا دو کہ وہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی تمام کوششیں ختم کر دے۔ جب تک عثمانی سلطنت کا ایک غیور فرد بھی زندہ ہے‘ اسے فلسطین نہیں مل سکتا۔‘‘ ۱۹۱۴ء میں ان تین وزیروں نے ایک قانون پاس کر وادیاکہ یہودیوں کو فلسطین میں جایداد بنانے کی اجازت مل گئی۔ ۱۹۲۴ء میں چھے سو سالہ قدیم عثمانی سلطنت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان ہوا۔ نئے ’’جمہوریہ ترکی‘‘ کی بنیاد ترکی قومیّت اور لادینیت ( سیکولر ازم) پر رکھی گئی۔ خلافت کے خاتمے کے ایک ماہ بعد شرعی عدالتوں کو ختم کردیا گیا اور پھر بتدریج ایسے اقدامات کیے گئے جن کا مقصد ترکی کا رشتہ ایشیائی، عربی اور اسلامی روایات سے ختم کرنا تھا۔ مثلاً عربی میں اذان کی ممانعت، عربی کے بجاے لاطینی رسم الخط کا اجرا، جمعہ کے بجاے اتوار کی تعطیل، ہجری کے بجاے عیسوی سنہ کا رواج،مردوں کے لیے ترکی ٹوپی پہننے اور عورتوں کے لیے پردہ کرنے پر قانونی پابندی۔ اسی پر بس نہیں‘ ترکی زبان سے عربی الفاظ خارج کرنے کی مہم چلائی گئی۔ نئے انقرہ کی تعمیرات میں ایک مسجد بھی نہیں بنائی گئی۔ اس طرح کے تمام اقدامات کا مقصد مذہب اور مشرقی روایات سے رشتہ منقطع کرکے‘ ترکی کو ایک جدید لادینی اور مغرب زدہ (Westernised)قوم میں تبدیل کرنا تھا۔ باباے اردو مولوی عبدالحق اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عجیب بات یہ ہے کہ اس عہد کے مسلمانوں میںاصلاح کے جتنے مد ّعی پیدا ہوئے‘ انھوں نے یہی کیا۔ مصطفی کمال پاشا اتاترک نے تو انتہا کردی۔ مغرب کی تقلید میں رہنا سہنا، کھانا پینا، لباس ، ناچ رنگ، شراب خوری اور دوسری خرافات کو اپنا شعار بنا لیا۔ یہاں تک کہ مدارس سے مذہبی تعلیم خارج کر دی اور اپنی زبان کا قدیم رسم الخط بھی بدل کر رومن کر دیا۔ ترکی اخبار نویسوں کا وفد دلی آیا تھا‘ وہ باربار بڑے فخر سے اپنے آپ کو یورپین نیشن کہتا تھا۔ دلی کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ جمعہ کے روز جامع مسجد میں تشریف لائیں‘ لیکن انھوں نے یہ درخواست قبول نہ فرمائی۔ خاص کوشش سے ان کے پروگرام میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑ ھ کا معائنہ بھی رکھا گیا مگر وہاں تشریف نہیں لے گئے اور ہندو یونی ورسٹی بنارس کو ( جو ان کے پروگرام میں نہیں تھی) اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ امان اللہ خان [شاہِ افغانستان] کو اصلاح کی سوجھی تو اس نے بھی اصلاح لباس ہی سے شروع کی۔ لوگوں کو اور خاص کر مولویوں کو جبراً کوٹ، پتلون اور ہیٹ پہننے کا حکم دیا۔ حکم کی خلاف ورزی پر سزادی جاتی تھی‘‘۔ ( چند ہم عصر: ص ۲۷۶) ترکی میں تو انجمن اتحاد و ترقی نے یہ ’’ خدمت‘‘ انجام دی ، ادھر عربوں کی بغاوت میں بھی قوم پرستی ہی کی تحریک کام کررہی تھی۔ عرب دانش ورمیر شکیب ارسلان کے نزدیک عربوں کی بغاوت کا سب سے اہم سبب تورانی سیاست تھی، جس پر انجمن اتحاد و ترقی انقلاب کے بعد چلنا چاہتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی پالیسی کے باعث عربوں اور ترکوں کے درمیان منافرت کی خلیج وسیع ہوتی گئی ۔عرب قوم پرستی کے مہلک نتائج یوں ظاہر ہوئے کہ: ۱۔ عرب دنیا کے غیر عرب‘ مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہو گئے۔ ۲۔ استعماری طاقتوں نے جنگِ عظیم کے بعد ممالک عربیہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ان کی متحدہ قو ّت کو کمزور کر دیا۔ ۳۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے عرب نیشنلزم کی تحریک کو ایک منظم منصوبے کے تحت اور سائنٹی فک بنیادوں پر استوار کیا۔ استعماری طاقتوں نے لبنان میں عیسائیوں کو ایک مصنوعی اکثریت فراہم کر دی اور برطانیہ یہودیوں کو اپنی نگرانی میں فلسطین میں جمع کر کے ان کی آباد کاری کرانے لگا۔ بیروت عربوں پر ثقافتی یلغار کا مرکز قرار پایا۔ ۱۸۶۶ء میں وہاںامریکی یونی ورسٹی قائم کی گئی تھی اور جیسا کہ بعد کی تاریخ سے ثابت ہو تا ہے ، عربوں کے اندر لا دینیت، سوشلزم اور اباحیت کی تحریکوں کوبیروت ہی سے فکری غذا فراہم ہوتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ عرب قوم پرستی کی وجہ سے ہوا مگر افسوس کہ عرب اس عبرت ناک صورتِ حال سے کوئی سبق سیکھنے کے بجاے آج بھی انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ یہودیوں سے ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد بھی، وہ اسلامی اور دینی بنیادوں پر متحد ہونے کے بجاے شامیوں،کویتیوں، عراقیوں، مصریوں ، اردنیوں اور لبنانیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

ایران میں پہلوی خاندان کے بانی رضاشاہ پہلوی نے اصلاح و ترقی کے نام پر مذہبی شعائر کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی۔ بعض مصنّفین اسے ’’ ایرانی اتاترک‘‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ رضا شاہ بھی لادینیت کا علمبردار تھا۔مولوی عبدالحق نے اس کی جابرانہ پالیسیوں کا ذکر ایک جگہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’رضاشاہ پہلوی شاہِ ایران [اتاترک] سے بھی دو قدم آگے بڑ ھ گئے۔ انھوں نے لباس کے بارے میں اسی قسم کی سختیاں کیں[جس طرح اتاترک نے کی تھیں] اور پردے کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ بے پردگی کو جبراً رائج کیا۔ مشہدکے علما نے اس سے اختلاف کیا تو وہاں کے مینا ر پر مشین گنیں چڑھا دی گئیں اور صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی کہ اگر اتنے عرصے میں حکم کی تعمیل نہ کی تو شہر کو اڑا دیا جائے گا‘ مجبور ہو کر سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس کے بعد گورنر نے ایک بڑا جلسہ برپا کیا اور تمام حکام اور شرفا کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سمیت حاضر ہوں۔ ایک صاحب تنہا آئے کیونکہ ان کی بیوی نے بھرے جلسے میں بے پردہ جانا گوارا نہ کیا۔ انھیں حکم دیا گیا کہ جاؤ بیوی کو ساتھ لے کر آؤ۔ وہ گئے اور اس نیک بخت کو ساتھ لے کر آئے۔ اس کی یہ سزاتجویز کی گئی کہ وہ تمام حاضرینِ جلسہ سے فرداً فرداً ہاتھ ملائے‘‘۔ (چند ہم عصر: ص ۲۷۶۔ ۲۷۷)

مشرق وسطیٰ سے دور‘ ہندستان میں ذہنی و تہذیبی رجحانات کے پس منظر میں کچھ اور عوامل کام کررہے تھے۔ ہندستانی مسلمان، مغلوں کے زوال اور انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے ذہنی لحاظ سے بہت پس ماندہ تھے۔ 

بھارت کے معروف دانش ور اور سابق وائس چانسلر علی گڑ ھ مسلم یونی ورسٹی ، سیدحامد نے ۱۹۴۱ء میں علی گڑ ھ سے ایم اے انگریزی کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس وقت میں علی گڑھ میں داخل ہوا، یہ تصو ّرذہنوں پر چھایا ہوا تھا کہ انگریز ہمارے آقا ہیں اور ہم ان کی رعایا ہیں… اگر کوئی طالب علم انگریز وں کے خلاف رجحانات رکھتا تو اسے اچھوت سمجھا جاتا اور لوگ اس کا کمرا بچا کے گزرتے تھے۔ ( ملاقاتیں: ص ۱۷) انگریزوں نے سیاسی غلبے کے ساتھ ہندستانیوں خصوصاً مسلمانوں کو ذہنی ، تہذیبی ، تعلیمی اور مذہبی لحاظ سے بھی غلام بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا، چنانچہ ایک طرف مسیحی مشنریوں کی آمد اور دوسری طرف مغربی علوم و عقلیات کی چکا چوند نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر ڈگمگا دیا۔ سہارے کے لیے مختلف تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کیے گئے، مثلاً: دارالعلوم دیوبند،ندوہ اور علی گڑھ، مگر یہ سب دور جدید کے چیلنج کا کما حقہ‘جواب نہیں دے سکے۔ سر سید تحریک سے جدید علم الکلام کی بنیاد ضرورپڑی ،مگر یہ اسلام بہت معذرت خواہانہ (Apologetic) قسم کا تھا۔ سرسیّد تحریک، قابل ِ قدر تعلیمی خدمات کے باوجود‘ یورپی استیلا اور سائنسی و عقلی فکر کے سامنے معذرت خواہانہ اسلام پیش کرتی تھی جو عصر جدید کے مسائل کا سامنا کرکے ان کا حل تلاش کرنے کے بجاے ان سے آنکھیں چراتا تھا۔ سر سیّد نے اسلام کے بعض مبادیات کے بارے میں عذرپیش کیے اور اسلامی مابعد الطبیعیّات کی جو تاویلات کیں ، اس کے اثرات مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کی شکل میں سامنے آئے۔ علی گڑ ھ تحریک نے مسلمانوں کو لکھنا پڑ ھتا تو سکھا دیا مگر اس تعلیم کے ذریعے ان میں اسلام کی انقلابی روح پیدا نہ ہو سکی۔ بلکہ متعلّمین علی گڑ ھ میں الحادی رجحانات کی ایسی ہوا چلی کہ یونی ورسٹی میں مذہب مخالف اور انٹی گاڈ(Anti God) انجمنیں بننے لگیں۔خود سرسیّد آخر عمر میں اپنی تحریک کے نتائج سے مایوسی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ ہندو، مسلمانوں کو اس بے جان حالت میں بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آریہ سماج جیسی تحریکیں اس حد تک چلی گئیں کہ ہندستان میں رہنے کا حق صرف ہندوؤں کو ہے۔ آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصّب کی ایسی فتنہ انگیز فضا پیدا کر دی کہ ہند، مسلم تہذیب وتمدن کے تمام نقوش محو کر دینے کے درپے ہوگئے۔ ۱۹۰۶ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے فرقہ پرست جماعت ’’ ہندو مہا سبھا ‘‘ قائم کی۔ غرض مسلمان ایک طرف ہندوؤں کے تعصّب اور دشمنی کا شکار تھے ، دوسری طرف انگریز بھی انھیں کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ وہ خود کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے سے قاصر تھے کیونکہ غلامی نے ان کے اندر موجود بچی کھچی اسلامی انقلابی روح ختم کر دی تھی: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر مسلمانانِ ہند کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی دانش مند، مستقل مزاج اور مخلص قیادت سے محروم تھے جو توازنِ فکر و عقل کے ساتھ حالات کا گہرا مطالعہ کرتی اور پھر اپنی بصیرت کی بنا پر ان کے لیے کوئی سود مند راہِ عمل تجویز کرتی۔ کچھ عرصے کے بعد جو بری بھلی قیادت سامنے آئی وہ قوم پرستی کے سراب کا شکار ہو کر رہ گئی۔