Actions

اسلام

From IQBAL

Revision as of 09:56, 17 June 2018 by Tahmina (talk | contribs)

(۱)’’ دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ (پانچواںخطبہ) (۲)’’یورپی ترقی کا ایک بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی کلچر کے اثرات موجود نہیں‘‘ (ایضاً) (۳)’’یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے‘‘ (ایضاً) (۴)’’ میں قطعی طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں کہ فلسفہ یونان نے اسلامی ثقافت کی حدود کو متعین کیا ہے‘‘ (ایضاً) (۵)’’یہ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا احیا ایک حقیقت ہے‘‘ (ایضاً) (۶)’’اسلامی نظام میں ریاست کے تصور کو دیگر تمام تصورات پر حاوی خیال کرنا سخت غلطی ہے‘‘ (ایضاً) (۷) ’’اسلام میں روحانی زندگی اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ ۔ (ایضاً) (۸)’’عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات،حریت اور استحکام ہے۔اسلام کے زاویہ نگاہ سے ریاست ان مثالی اُصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے۔گویا کہ مساوات،حریت اور استحکام کو محضوص انسانی تنظیم میں متشکل کرنے کی یہ آرزو ہے‘‘ (ایضاً) )۹)جس طرح محض انگریزی ریاضیات،جرمن فلکیات اور فرانسیسی علم کیمیا کاو جود نہیں ہوتا اسی طرح ترکی،عربی، ایرانی ا ور ہندوستانی اسلام کا بھی کوئی و جود نہیں ہوتا‘‘ (ایضاً) (۱۰)’’ فی الحال ہر ایک مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائی میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنی نگاہ اپنی ذات پرمرتکز کردینی چاہیے یہاں تک کہ وہ اس قدر طاقت ور ہوجائیں کہ جمہوری سلطنتوں کے زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘ (ایضاً) (۱۱) ’’اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشائیت پر منحصر ہے بلکہ یہ تو ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو صرف تعارف کی سہولت کے لیے تسلیم کرتی ہے۔ یہ اپنے ارکان کے سماجی اُفق کو محدود نہیں کرتی‘‘ (ایضاً) (۱۲)’’ اسلام کی روح اتنی وسیع ہے کہ یہ عملی طور پر بے پایاں ہے۔الحاد پرستانہ تصورات کے علاوہ اس نے گردوپیش کی قوموں کے قابل جذب نظریات کو اپنے اندر جذب کرکے اور اُنھیں اپنے مخصوص رنگ میں رنگ کر ترقی دی ہے‘‘ (ایضاً) علامہ اقبالؒ کی رائے میں ختم نبوت کے عقیدے کی رو سے اب انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مسائل حیات کی گرہ کشائی کے لیے مطالعہ تاریخ اور مشاہدہ کائنات سے بھی رہنمائی حاصل کرے۔ جب انسانی ذہن طفولیت کے عالم میں تھا اُس وقت وہ مظاہر فطرت کی تسخیر سے بے خبر تھا۔قدرت کے ان عجیب وغریب اور ہولناک نظاروں کو دیکھ کروہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہوجایا کرتا تھا۔انبیاء کرام ؑ ایسے حالات میں ان حقیقت ناشناس اور مظاہر پرست انسانوں کو غیر اﷲ کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے واحد کا پرستار بنانے کی جدوجہد کرتے رہے۔جب نبی اکرمؐ کی بعثت کا اعلان کیا گیا تو اُنھوں نے انسانوں کو غیر اﷲ کی محکومیت سے چھڑا کر خدا کا معتقد بنایا اور اُنھیں یہ بتایا کہ یہ تمام مظاہر فطرت ہماری خدمت اور تسخیر کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔قرآن حکیم کی اس آیت ’’ وسخر لکم ما فی السمٰوٰت وما فی الاِرض جمیعا‘‘(الجاثیہ ۴۵:۱۳):( خدا نے تمھارے لیے تما م سماوی اور ارضی اشیاء مسخر کردی ہیں) کے مصداق ہمیں تسخیر آفاق کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تسخیر کائنات عمیق مطالعہ و مشاہدہ کے بغیر ناممکن تھی اس لیے انسان کو تفکر وتدبر سے کام لینے کا درس دیاگیا ۔یونانی حکما خصوصاً سقراط اور افلاطون نے ظاہری عالم کی بجائے باطنی دنیا کو لائق مطالعہ قرار دیا تھا۔اسلام نے آکر ہمیں بتایا کہ انفس(باطنی دنیا) اور آفاق(خارجی دنیا) دونوں کا مطالعہ یکساں طور پر ضروری ہے۔ اس امرِ قرآنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفکر اسلام علامہ اقبال ؒنے بجا کہا ہے کہ’’اسلام کا ظہور استقرائی عقل کاظہور ہے‘‘ یورپی سائنس اور یورپی ترقی کے ایک اہم منبع یعنی اسلامی ثقافت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے کہ عربی ثقافت نے ہی موجودہ یورپی ترقی کو جنم دیا ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ کی ظاہری ترقی اور سائنسی پیش رفت دراصل عرب مسلمانوں خصوصاً ہسپانوی مسلمانوں کی مرہوں منت ہیں کیونکہ یورپ میں علم و حکمت کی روشنی پھیلانے والے مغربی مصنفین نے ہسپانیہ کے مسلمان حکما سے تربیت حاصل کی تھی۔اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں یورپی مصنفین نے کئی صدیوں تک بخل اور بددیانتی سے کام لیا تھا۔بعد ازان چند مغربی مفکرین خصوصاً بریفالٹ وغیرہ اس امر کا ببانگِ دہل اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے۔علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم ونثر میں اس کو اچھی طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ درج ذیل اشعار اس بات کے شاہد ہیں۔ حکمت ِ اشیا فرنگی زاد است اصلِ اُوجز لذّت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از دستِ ما افتادہ است چوں عرب اندر ارو پا پر کشاد علم و حکمت رابنا دیگر نہاد

دانہ   آں  صحرا   نشنیاں  کاشتند      حاصلش    افرنگیاں     برداشتند
ایں  پری  از  شیشئہ اسلاف ماست       باز صید ش کن کہ اُو  ازقاف ماست 
لیکن   از   تہذیب   لا  د ینی گریز      زاں  کہ  اُو با  اہل حق  دارد ستیز

(کلیات اقبال ، فارسی ص ۸۸۰) وہ اپنی نظم’’مسجد قرطبہ‘‘میں اسپین کے مسلمانوں کی مختلف صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کی علمی اور فکری خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:۔ ؎ آہ! وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار حامل’’خلق عظیم‘‘ صاحب صدق ویقین

جنکی نگاہوں نے کی تربیت   شرق ومغرب    ظلمت یورپ  میں تھی جن کی خرد راہ بیں

(بال جبریل،کلیات ،ص ۳۹۰) فلسفہ یونان نے اگرچہ مسلم تصوف اور مسلم ادیبات پر کافی گہرے اثرات ڈالے ہیں مگر سائنسی نقطہ نظر سے اسلامی ثقافت پر اس کی گہری چھاپ نہیں۔اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات نے باطن اور خارج دونوں کو انسانی زندگی کے لیے اہم قرار دیا تھا جبکہ فلسفہ یونان نے زیادہ تر باطن پر توجہ مرکوز کی تھی۔ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سائنسی ترقی کی بنیاد باطن کا مطالعہ نہیں بلکہ خارجی مظاہر کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ ہے۔کیا یہ درست نہیں کہ سائنس کا دارومدار محسوسات اور خارجی مظاہر پر ہوتا ہے؟ قرآن حکیم کی بے شمار آیات میں کائنات کے خارجی پہلو کے مطالعہ اور مشاہدہ پر بار بار زور دیاگیا ہے تاکہ ہم خدا کی صفت تخلیق پر غور و خوض کرکے اس کی کبریائی اور اس کے وجود پر ایمان لاسکیں۔ انسانی نگاہوں میں یہ تاب کہاں کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ سکیں؟ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ کائنات کی خارجی نشانیاں بھی اس کی عظمت و ہستی پر دلالت کرتی ہیں۔اس لحاظ سے قرآن نے مسلمانوں کو مطالعہ کائنات کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے تجرباتی علوم کی بنیاد ڈالی۔ان حقائق کی رو سے علامہ اقبالؒ نے یہ کہا:’’یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے اور فلسفہ یونان نے اسلامی ثقافت کی حدود کو متعین نہیں کیا‘‘۔ تاریخ اسلام کے بے لاگ اور گہرے مطالعہ سے ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ صحیح قسم کا اسلام وہی ہے جس کی تصدیق قرآن حکیم اور اُسوہ رسولؐ سے ہو۔اگر کوئی نظریہ قرآنی تعلیمات اور ارشادات نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا تو وہ ہرگز درست قرار نہیں دیا جاسکتا خواہ اس کا پیش کرنے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ مغربی تہذیب وتمدن کے غلبہ کے سبب مسلمانوں میں بھی ایسے نظریات کو فروع دیا گیا جو قرآن اور اُسوہ رسولؐ کے بالکل خلاف تھے مثلاًقوم پرستی،وطینت، لادین سیاست اور مغربی طرز کی جمہوریت وغیرہ۔علامہ اقبال ؒکے افکار ونظریات کا تارو پود چونکہ اسلامی تعلیمات سے تیار ہوا تھا اور اُنکی ذہنی تربیت میں قرآن نے خاص کردار ادا کیا تھا اس لیے وہ غیر قرآنی اور غیر اسلامی نظریات کو قبول نہ کرسکے۔نہ صرف یہ بلکہ اُنھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ غیر اسلامی تصورات کی دھجیاں بکھیر دیں۔بعض لوگ ریاست اور حکومت کے تصور کو اسلام کے دیگر تمام تصورات پر ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔اسی طرح لادین سیاست کے علم بردار دین و سیاست کی جدائی کا بڑی شدت سے پروپیگنڈا کرتے ہوئے مذہب کو ایک پرائیویٹ معاملہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ یہ دوئی پرست روحانی دنیا اور مادی دنیا کی تفریق کی بھی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔اسلام کا عظیم مبلغ اور قرآنی تعلیمات کا شارح ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ مذہب پر سیاست کی برتری، لادینیت، مذہب وسیاست کی ثنویت،مادہ وروح کی تفریق اور دنیا ودین کی تمیز کی ہمیشہ واضح الفاظ میں مذمت کرتے رہے۔مندرجہ ذیل چند اشعار یہاں بطور مثال پیش کرنے کی سعی کی جاتی ہے:۔

  جلال بادشاہی   ہو کہ  جمہو ری  تماشا  ہو    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
  پھرسیاست چھوڑ کر داخل  حصارِ دیں میں ہو    ملک  و  دولت ہے  فقط  حفظ  حرم کا اک ثمر

(بانگ درا، کلیات اقبال ص ۲۶۵)

        ہوئی دین ودولت میں جس دم جدائی      ہوس کی  امیری،ہوس کی وزیری 
        دوئی  ملک   و  دیں کے لیے  نامراد ی      دوئی چشم   تہذیب کی نابصیری
        یہ  اعجاز  ہے  ایک  صحرا نشین  کا       بشیری  ہے  آئینہ دار  نذیری     

( بال جبریل،کلیات اقبال ص ۴۱۰) علامہ اقبالؒ کی رائے میں عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات اور استحکام میں ہے۔اسلامی تعلیمات کی رُو سے دین زندگی کا مکمل دستور ہے اور باقی اُمور مثلاً معاشیات،سیاسیات اور عمرانیات وغیرہ اس کے اہم اجزا ہیں۔ دین چونکہ زندگی کے تمام شعبہ جات پر حاوی ہے اس لیے وہ کسی طرح بھی سیاست اور حکومت کے نظام کے ماتحت نہیں ہوسکتا۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں ریاست اسلام کے تین زرّیں اُصولوں اُخوت، مساوات اور حریت کو عملی شکل دینے والے نظام کا دودسرا نام ہے۔ان اساسی تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے جغرافیائی خطے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی سیاسی طرز حکومت خلا میں قائم نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے جغرافیائی اہمیت کے باوجود اسلام اپنے آپ کو کسی خاص خطہ زمین اور خاص قوم تک محدود نہیں رکھتا۔بقول علامہ اقبالؒ:

   ؎رہے گاراوی ونیل وفرات میںکب تک      ترا  سفینہ  کہ  ہے  بحر بیکراں کے لیے

(بال جبریل، کلیات اقبال) دنیاکی تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی،ارتقا پذیر اور انقلابی دین ہے۔ خدا کا آخری اور سچا دین ہونے کی حیثیت سے یہ ابد تک انسانوں کی دنیوی اور دینی فلاح و سعادت کا باعث بنتا رہے گا۔ یہ دین جہاں بھی گیا وہاں کے لوگوں کی ظاہری اور باطنی زندگیوں میں حیرت انگیز انقلاب برپاہوگیا۔فطری اور جاندار مذہب ہونے کے طور پر اس نے ہمیشہ مفتوح قوموں کے افراد کو اپنے خاص رنگ میں تبدیل کرنے کے علاوہ ان کی اچھی قدروں کو بھی اپنے اندر جذب کرکے اپنی عالمگیری کا ثبوت بہم پہنچایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات نو مسلموں اور مفتوح لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود اپنے بعض تہذیبی اُصولوں اور رسومات کو نہیں چھوڑا تھا تاہم وہ اسلام کے گہرے رنگ کو اختیار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اخذ وجذب کی یہ صلاحیت اسلام کی وسعت پذیری اور توانائی کی نمایاں صفت ہے۔بعض مقامی اثرات قبول کرنے کے باوجود اسلام دین حق ہی رہا۔علامہ اقبالؒ بجاکہتے ہیں کہ جس طرح علوم وفنون، قومیت اور وطینت کی چھاپ نہیں رکھتے اسی طرح حقیقی اسلام ایک ہی ہے اور ہم اسے عربی، ترکی اور ہندوستانی اسلام نہیں کہہ سکتے۔مسلمان کااوڑھنا بچھونا اسلام ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس ضمن میں کیا خوب کہا ہے:۔

           ع  :اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے۔   ( بانگ درا،کلیات اقبال)
اسلام دنیا میں انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آیا تھا۔جب تک مسلمان دل وجان سے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے رہے، وہ دنیا میں حکمران اور غالب رہے لیکن جونہی انھوں نے اس کے حیات پرور اور حریت ساز اُصولوں سے رو گردانی کی وہ ذلیل وخوار ہوگئے اور دوسری قوموں کے چنگل میں برح طرح پھنس گئے۔موجودہ دور میں مغربی قوموں نے علمی تحقیق، ذوق جستجو،عمل پرستی،ہمت آزمائی اور مہم جوئی کے جذبات کے تحت سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی میدان میں بہت زیادہ ترقی کرکے مشرقی ملکوں خاص طور پر مسلمان ممالک کو اقتصادی، سیاسی،عسکری اور ذہنی طور پر اپنا دست نگر بنادیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو اپنا مفتوح بناکر اُنھوں نے ملت اسلامیہ کی مرکزیت کو پارہ پارہ کیا اور اُنھیں مختلف گروہوں اور متحارب قوموں میں تقسیم کردیا ہے۔ اسلام سے دوری، اپنوں کی سادہ لوحی اور غداری اور غیروں کی حکمت عملی نے اُن کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان ممالک کی اس زبوں حالی اور پس ماندگی پر علامہ اقبالؒ خون کے آنسو  بہانے کے علاوہ اُن کی پریشان نظری کا علاج بھی تلاش کرتے رہے۔نباض ملت ہونے کی حیثیت سے اُنھوں نے محکوم اور درماندہ ملت کے مختلف امراض کی تشخیص بھی کی اور نسخہ شافی بھی تجویزکیا۔پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور اتحادیوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اُن کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی۔سیاسی قوت سے محروم ہونے کے علاوہ خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں آزادی کے حصول کے بعد مسلمان ممالک کو مرکزیت کی طرف آنے میں کافی دیر لگ سکتی ہے اس لیے اُنھوں نے ہنگامی طور پر اُنھیں’’اپنی اپنی ذات پر اپنی نگاہ مرتکز‘‘کرنے کی تلقین کی تاکہ وہ بعد میں ’’طاقتور‘‘ ہوکر جمہوری سلطنتوں کے زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘۔خلافت کے خاتمے کے بعد یہی ایک عملی شکل باقی رہ گئی تھی۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں ملت ا سلامیہ کے قیام کاایک اہم مقصد آفاقی بنیادوں پر انسانیت کی تشکیل اور ایک ایسے عالمگیر نظام حکومت کی تاسیس ہے جو نسلی، لساِنی، جغرافیائی،لونی اور قبائلی گروہ بندیوں سے بے نیاز ہو۔اسی لیے وہ اسلام کے بارے میں یہ درست کہتے ہیں کہ اسلام ایک’’ عالمگیر مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو صرف سہولت کیلیے تسلیم کرتی ہے‘‘ وہ اس عظیم تنظیم کے افراد کو عالمی قیادت سنبھالنے کا مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں:۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا
    لیا  جائے  گا  تجھ  سے کام دنیا کی امامت کا    
			(بانگ ِدرا)