Actions

Zamiya

From IQBAL

Revision as of 23:33, 11 June 2018 by Ghanwa (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> ==ضمیمہ== علامہ اقبال کی طرف سے غلام رسول خاں کے لکھے ہوئے خطوط ٭٭٭ ۸؍ نومبر ۱۹۳۷ء محترم ج...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

ضمیمہ

علامہ اقبال کی طرف سے غلام رسول خاں کے لکھے ہوئے خطوط ٭٭٭ ۸؍ نومبر ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب آپ نے یکم نومبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر سر محمد ابال کو جو خط بھیجا تھا اس کے پیش نظر انہوںنے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ آپ کو اطلاع دے دوں کہ: (۱)… لکھنو میں آپ نے سر سکندر کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ صوبے بھر میں شدید اختلافات کا سرچشمہ بنا ہوا ہے۔ سرسکندر نے واپس آتے ہوئے ایک بیان شائع کر دیا تھا کہ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے سابقہ صورت حال ہنوز قائم اور بحال ہے۔ البتہ اس میں صرف ایک ترمیم کر دی گئی ہے کہ یونینسٹ پارٹی کے ان مسلم ارکان کو جو مسلم لیگ کے ممبر نہیں ہیں مشورہ دیا جائے گا کہ اگر وہ پسند کریں تو لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اس کے علاوہ یہ شرط بھی لگا دی گئی ہے کہ آئندہ ضمنی انتخابا ت میں جو مسلم امیدوار لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوں گے انہیں یہ عہد کرناہو گا کہ کامیاب ہونے کے بعد وہ یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو جائیں گے اور اس کے عوض انتخابات کی جنگ میں انہیں یونینسٹ پارٹی کی بھی امدا د حاصل ہو گی۔ سرسکندر کی جماعت کے بعض دیگر ارکان نے بھی اس قسم کے بیان شائع کیے ہیں کہ سکندر جناح پیکٹ کی رو سے پنجاب مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ یونینسٹ پارٹی کے قبضہ میں چلا جائے گا۔ سر چھوٹو رام نے اپنے دستخط سے ایک بیان اخبارات کو دیا ہے کہ جس میں انہوںنے یہ بھی لکھا ہے کہ آئندہ لیگ پارلیمنٹری بورڈ پر یونینسٹ پارٹی کا قبضہ ہو جائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی کوئی آزادانہ حیثیت باقی نہیں رہے گی اور وہ یونینسٹ پارٹی کا ایک ماتحت ادارہ بن کر رہ جائے گا۔ یونینسٹ پارٹی کے ارکان کی ان تصریحات سے مسلمانان پنجاب میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا ہو گیا ہے او روہ سخت حیران ہیں کہ ایسا معاہدہ کس طرح کیا گیا ہے کہ جس کے تحت لیگ کی حیثیت کالعدم ہو گئی ہے ۔ اور وہ یونینسٹ پارٹی کی ایک ماتحت جماعت بنا دی گئی ہے۔ حالانکہ عوام کی نگاہیں میں یونیسٹ پارٹی بدترین رجعت پسندوں کا ایک گروہ ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر میں نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے سیکرٹری کی حیثیت سے اور ڈاکٹر سر محمد اقبال کے مشورے سے ایک بیان شائع کیا ہے جس مکا مقصد پنجاب مسلم لیگ کے متعلق جدید غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔ چنانچہ میں نے محض سکندر جناح پیکٹ کی اہم شقوں کو نقل کر دیا اور دہرایا کہ اس معاہدے کی رو سے جو مسلم لیگ پارٹی معرض وجود میں آئے گی وہ آل انڈیا مسلم لیگ مسلم لیگ مرکزی پارلیمنٹری بورڈ اور مسلم لیگ پراونشل پارلیمنٹری بورڈ کے قواعد و ضوابط کے تحت ہو گی۔ اسی ضمن میں ملک برکت علی ایم ایل اے نے بھی ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انہوںنے معاہدے کی شرائط کو نقل کر کے واضح کر دیا ہے کہ مجلس قانون ساز کے اندر صرف مسلم لیگ پارٹی کو یہ حق حاصل ہو گا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے بنیادی اصول اور لائحہ عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے گروہ سے مل کر کولیشن بنائے یا کسی کولیشن کو قائم رکھے ان ہر دو بیانات کی نقول ارسال خدمت ہیں۔ مسلمان عوام پر ان بیانات کا خو ش گوار اثر ہوا ہے لیکن یونیسٹ پارٹی کے مقتدر ارکان ان بیانات کی اشاعت سے برہم ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ٹربیون نے ان بیانات پر جو تبصرہ کیا ہے وہ بھی ارسال خدمت ہے۔ (۲)… ۲۲ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے سر سکندر کی خدمت میںرکنیت کے نوے فارم بھیجے اوریہ درخواست کی کہ اسمبلی کی یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ممبروں سے ان پر دستخط کرا لیے جائیں۔ کیونکہ ان ایام میں وائسرائے کی آمد کے سلسلے میں تمام ارکان لاہور میں موجود تھے۔ مگر اس وقت تک ایک فارم پر بھی دستخط نہیں ہوئے اور نہ کوئی فارم ہمیں واپس بھیجا یا ہے ۔ سچ پوچھیے تو خود میں نے اسمبلی کے بعض مسلم ارکان سے ان فارموں پر دستخط کر نے کو کہا تھا۔ ان میں سے بعض نے بڑی مسرت سے میری درخواست کو شرف قبولیت بھی بخشا لیکن سر سکندر حیات نے اسمبلی ک ارکان کو پیغام بھیج دیا کہ ان فارموں پر دستخط نہ کیے جائیں… یہ ہے ہماری موجودہ پوزیشن! سرسکندر اور ان کے بعض دوست یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ موجودہ یونینسٹ پارٹی کے قبضہ میں آ گئی ہے اور سکندر جناح پیکٹ کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں لیگ کا واحد نمائندہ مسلم لیگ بلاک کے وجود میں آنے کے بغیر ہی وزارتی پارٹی میں شامل ہو جائے گا۔ لہٰذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سکندر جناح پیکٹ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شہرت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو لیگ کے مسلمانان پنجاب کی تمام ہمدردی ختم ہو جائے گی۔ میںیہ بھی واضح کر دوں کہ اگر ہم یہ بیانات شائع نہ کرتے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے وقار کو سخت ٹھوکر لگتی ۔ (۳)… آپ کو یہ سن کر دلی مسرت ہو گی کہ پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا ایک وفد (جس میںخان بہادر ملک زمان مہدی‘ ملک برکت علی‘ مسٹر عاشق حسین بٹالوی اور راقم الحروف کے علاوہ بعض دیگر ارکان بھی شامل ہیں) پنجاب کا دورہ کر کے مختلف مقامات پر بڑے بڑے جلسوں میں تقریریں کر رہاہے۔ ان مقامات پر مسلمان عوام نے آل انڈیا مسل لیگ اور پنجاب پراونشل مسلم لیگ سے جس خلوص اور عقیدت کا مظاہرہ کیا ہے وہ واقعی حیرت انگیز ہے ۔ ہماری کوششوں سے اس وقت تک ۳۴ شاخیں قائم ہو چکی ہیں اورمزید شاخیں قائم ہو رہی ہیں مگر چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ قریب ہے۔ اس لیے ہم اپنا ورہ ملتوی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ واضح کر دینا بھی مناسب ہے کہ سرسکندر کی پارٹی کے ایک رکن نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ (۴)… میر مقبول محمود نے ملک برکت علی کو سکندر جناح پیکٹ کی نقل مہیا نہیں کی۔ اس یلے اس کے متعلق آپ کو تار دیا گیا تھا ۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بھی سر سکندر حیات کو پیغام بھیجا تھا کہ معاہدہ مذکورہ کی ایک نقل بھیج دیں۔ سرسکندر نے نقل بھیج دی ہے مگر میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ نقل اصل کے مطابق ہے یا نہیں‘ کیونکہ میر مقبول محمود نے مجھے بتایا ہے کہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۷ء کی رات گیارہ بجے جبکہ معاہدے کی تمام شرائط آپ کے کمرے میں طے ہو چکی تھیں سر سکندر حیات نے بعض ترمیمیںپیش کیں اور بالآخر وہ معاہدہ مرتب ہوا جس کی نقل ڈاکتڑ سر محمد اقبال کو بہم پہنچائی گئی۔ چونکہ ہمیں ان ترمیموں کا کوئی علم نہیں اس لیے میری درخواست ہے کہ آپ اس معاہدہ کی نقل جو کہ آپ کے پاس موجود ہے ایک نقل ہمیں ارسال فرما دیجیے۔ کیونکہ جب ملک برکت علی نے میر مقبول محمود سے یہ نقل مانگی تھی تو انہوںنے جواب دیا تھا کہ مطلوبہ نقل آپ کو بھیج دی گئی ہے۔ (۵)… اب میں ان امور کی طرف آتا ہوں جن کے متعلق آپ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مشورہ طلب کیا ہے۔ (الف) … فروری ۱۹۳۸ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس خصوصی لاہور میں منعقد کرانے کے متعلق جہاں تک سر سکندر حیات کی دعوت کا تعلق ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس وقت تک کوئی تجویز پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں جب تک کہ اس قسم کا واضح اور غیر مبہم سمجھوتہ نہ ہو جائے۔ کہ سر سکندر حیات کی پارٹی کے مسلمان ارکان کسی مزید تاخیر کے بغیر مسلم لیگ کے حلف نامے اور قرطاس رکنیت پر دستخط کردیں اور اعلان کریں کہ اسمبلی کے اندر بھی ان کی جماعت مسلم لیگ پارٹی کہلائے گی۔ جہاں تک صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتاہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سر سکندر حیات خان کی طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اس پوزیشن کو قبول کرنے سے بچ جائیں۔ (ب)… جہاں تک آرگنائزنگ کمیٹی کی تشکیل کا سوال ہے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پراونشل مسلم لیگ اس وقت موجودہے۔ اور ہم ہر ضلع ہر تحصیل اوراکثر دیہات میں لیگ کی مقامی شاخیں قائم کر رہے ہیں۔ اس لیے پنجاب میں کسی آرگنائزنگ کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ (ج)… جہاں تک مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا تعلق ہے ہماری یہ تجویز ہے کہ پنجاب کو پانچ نشستیں دی جائیں ڈاکٹر سر محمد اقبال کی درخواست ہے کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ مجلس عاملہ کے جلسوں میںشریک ہو سکیں۔ اس لیے ان کی جگہ ملک زمان مہدی ڈپٹی پریذیڈنٹ پنجا ب پراونشل مسلم لیگ کو لے لیا جائے۔ ملک برکت علی ورکنگ کمیٹی میں بدستور شامل رہیں اور مسٹر غلام رسول خان بیرسٹر ایٹ لاء کام نام بھی شامل کر لیا جائے۔ جہاں تک سر سکندر اور میاں احمد یار دولتانہ کا تعلق ہے اس مسئلہ کے حل کا انحصار بیشتران کے اس فیصلہ پر ہے کہ وہ لیگ ٹکٹ پر دستخط کر دیں اور کسی مزید تاخیر کے بغیر اسمبلی کے اندر مسلم لیگ پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیں۔ اور کسی مزید تاخری کے بغیر اسمبلی کے اندر مسلم لیگ پارٹی کے قیا م کا اعلان کر دیں اگر وہ اس معاہدے پر عمل کریں تو یہ خیال رکھا جائے کہ ان کی نیابت کسی صورت میں موجودہ مسلم لیگ پارٹی کی نیابت سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ آ پ کامخلص غلام رسول (برائے ڈاکٹر سر محمد اقبال) ۱؎ ۱؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ اقبال کے آخری دو سال۔ کراچی ۱۹۶۱ء ص ۵۱۳۔۵۱۹۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۳۸ء محترم جناح صاحب آپ کی گشتی چٹھی نمبر ۵۶۶ مورخہ ۱۲ فروری ۱۹۳۸ء کے جواب میں ڈاکٹر سر محمد اقبا ل نے مجھے یہ تحریر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (۱)… مذکورہ بالا چٹھی میں آپ نے جو ہدایات دی ہیں انہیںعملی جامہ پہنانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ (۲)… جہاں تک لیگ کے اجلاس خصوصی کا سوال ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یہ اجلاس لیگ کے نئے آئین کے مطابق کر رہے ہیں۔ مگر آپ کو اس امر کا پورا احساس ہوگا کہ اس خالص اجلاس میںجو مسئلہ زیر بحث آئے گا کہ وہ بے حد اہم ہے اور تمام مسلمانان ہند پر بالعموم اور مسلمانان پنجاب پر بالخصوص اثر انداز ہو گا۔ یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کھلے اجلاس میں اہل بصیرت مسلمانوں کی بڑی سے بڑی اکثریت ا س پر بحث کرے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی روسے پنجاب سے ۳۶۰ سے زیادہ مسلمان اس اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ یہ تمام ممبروہاں پہنچ جائیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کے احساسات بھی پنجاب کے مسلمانوں کے احساساات کی طرح شدت سے مجروح ہوئے ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر لیگ سول نافرمانی کا فیصلہ کرے تومناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلہ کا انحصار ان لوگوں پر رکھا جائے جن پر اس تحریک کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ آئین جدید کی رو سے یہ امر ممکن نہیںاس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ خاص اجلاس پرانے آئین ہی کے ماتحت ۳۱ مارچ ۱۹۳۸ء سے پہلے منعقد کر لیا جائے۔ کیونکہ پرانے آئین کی رو سے ہر مسلان ایک روپیہ ادا کر کے بحث میں حصہ لے سکتا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ۳۱ مارچ بہت قریب ہے تو پھر ہماری یہ تجویز ہے کہ آپ نئے آئین کے نفاذ کو خاص اجلاس تک ملتوی کر دیں اور یہ اجلاس ۳۱ مارچ کے بعد مناسب تاریخوں میں منعقد کر لیاجائے۔ اگر یہ دونوں چیزیں آپ کو منظور نہ ہوں تو پھر ہماری درخواست ہے کہ آپ خاص اجلاس کی بجائے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک خاص کانفرنس منعقد کریں جس میں ہر بالغ مسلمان کو شامل ہونے کی اجازت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کانفرنس بھی لیگ کے زیر اہتمام اور آپ ہی کے زیر صدارت منعقد ہو گی۔ آپ کا مخلص غلام رسول آنریری سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ (برائے ڈاکٹر سر محمد اقبال) ۱؎ ۱؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ۔ کتاب مذکور ص ۶۰۸۔۶۰۹