Actions

Zameer E Lala Mai'ay La'al se Huwa Labraiz

From IQBAL

ضمیر لالہ مے لعل سے ہوا لبریز

ضمیر لالہ مے لعل سے ہوا لبریز اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کیا ہے اس نے فقیروں کو وارث پرویز

پرانے ہیں یہ ستارے، فلک بھی فرسودہ جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز

کسے خبر ہے کہ ہنگامہ نشور ہے کیا تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز

نہ چھین لذت آہ سحر گہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز

دل غمیں کے موافق نہیں ہے موسم گل صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگیز

حدیث بے خبراں ہے، تو با زمانہ بساز زمانہ با تو نسازد، تو با زمانہ ستیز