Sadaye Ghaib
From IQBAL
صدائے غیب
کژدُم، نے نصیبِ دام و دَد
ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگِ ابَد
بانگِ اسرافیل اُن کو زندہ کر سکتی نہیں
رُوح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسَد
مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی رُوح کی منزل ہے آغوشِ لَحد
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظامِ ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرارِ وجود
زلزلے سے کوہ و دَر اُڑتے ہیں مانندِ سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود