Actions

Iblees apnay musheeroun se

From IQBAL

Revision as of 09:40, 25 May 2018 by 198.178.123.50 (talk)

اِبلیس

(اپنے مُشیروں سے)

ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو

کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق

مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو

کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو

کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے

توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!

دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک

مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے

مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!

جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں

جانتا ہُوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں

الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر

حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں

موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے

نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف

مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!

چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں

ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے

یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات

ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات

ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے

ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟

آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے

یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟

ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم

اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں

یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟

تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے

تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات

خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر

جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے