Actions

Difference between revisions of "Iblees apnay musheeroun se"

From IQBAL

(Created page with "اِبلیس (اپنے مُشیروں سے) ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ ت...")
 
Line 4: Line 4:
  
 
ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو
 
ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو
 +
 
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو
 
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو
 +
 
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
 
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
 +
 
مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو
 
مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو
 +
 
کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
 
کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
 +
 
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو
 
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو
 +
 
کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
 
کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!
+
 
 +
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و  
 +
سبو!
 +
 
 
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
 
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
 +
 
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
 
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
 +
 
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد
 
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد
 +
 
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو
 
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے
+
 
 +
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت  
 +
سے ہے
 +
 
 
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
 
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
 +
 
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
 
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
 +
 
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو
 
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو
 +
 
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے
 
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے
 +
 
مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!
 
مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!
  
 
جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں
 
جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں
 +
 
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں
 
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں
جانتا ہُوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
+
 
 +
جانتا ہُوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات  
 +
میں
 +
 
 
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
 
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
+
 
 +
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ  
 +
خوف
 +
 
 
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
 
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
 +
 
الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر
 
الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر
 +
 
حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
 
حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
 +
 
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
 
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
 +
 
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
 
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
 +
 
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
 
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
 +
 
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
 
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
 +
 
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
 
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
 +
 
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!
 
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!
 +
 
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب
 
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
+
 
 +
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ  
 +
یقیں
 +
 
 
ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے
 
ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے
 +
 
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
 
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
  
 
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
 
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
 +
 
ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات
 
ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات
 +
 
ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
 
ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟
+
 
 +
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ  
 +
ذات؟
 +
 
 
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
 
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
 +
 
یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟
 
یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟
 +
 
ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
 
ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
 +
 
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
 
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
 +
 
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
 
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
 +
 
یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟
 
یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟
 +
 
تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے
 
تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے
 +
 
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
 
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
 +
 
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
 
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
 +
 
چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
 
چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
 +
 
ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر
 
ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر
 +
 
جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
 
جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
 +
 
ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں
 
ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں
 +
 
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
 
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
 +
 
مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے
 
مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے
 +
 
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
 
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے

Revision as of 09:34, 25 May 2018

اِبلیس

(اپنے مُشیروں سے)

ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو

کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق

مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو

کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو

کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے

توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!

دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک

مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے

مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!

جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں

جانتا ہُوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں

الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر

حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں

موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے

نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف

مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!

چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں

ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے

یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات

ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات

ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے

ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟

آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے

یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟

ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم

اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں

یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟

تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے

تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات

خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر

جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے