Actions

Gharibi mein hoon mehsood-e-ameeri

From IQBAL

Revision as of 19:18, 25 May 2018 by Ghanwa (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> == غریبی میں ہُوں محسودِ امیری == غریبی میں ہُوں محسودِ امیری کہ غیرت مند ہے میری فقیری...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

غریبی میں ہُوں محسودِ امیری

غریبی میں ہُوں محسودِ امیری

کہ غیرت مند ہے میری فقیری

حذر اُس فقر و درویشی سے، جس نے

مسلماں کو سِکھا دی سر بزیری!

خرد کی تنگ دامانی سے فریاد

تجلّی کی فراوانی سے فریاد

گوارا ہے اسے نظّارۀ غیر

نِگہ کی نا مسلمانی سے فریاد!

کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے

تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون

نِدا مسجد کی دیواروں سے آئی

فرنگی بُت کدے میں کھو گیا کون؟

کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد

کہ ہے مردِ مسلماں کا لہُو سرد

بُتوں کو میری لادینی مبارک

کہ ہے آج آتشِ ’اَللہ ھُو، سرد

حدیثِ بندۀ مومن دل آویز

جِگر پُرخوں، نفَس روشن، نِگہ تیز

میَسّر ہو کسے دیدار اُس کا

کہ ہے وہ رونقِ محفل کم آمیز

تمیزِ خار و گُل سے آشکارا

نسیمِ صُبح کی رَوشن ضمیری

حفاظت پھُول کی ممکن نہیں ہے

اگر کانٹے میں ہو خُوئے حریری

نہ کر ذکرِ فراق و آشنائی

کہ اصلِ زندگی ہے خود نُمائی

نہ دریا کا زیاں ہے، نے گُہر کا

دلِ دریا سے گوہر کی جُدائی

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

عبَث ہے شکوۀ تقدیرِ یزداں

تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟

خِرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے

جہاں رَوشن ہے نُورِ ’لا اِلہ‘ سے

فقط اک گردشِ شام و سحر ہے

اگر دیکھیں فروغِ مہر و مہ سے

کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر

کبھی دریا کے سینے میں اُتر کر

کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر

مقام اپنی خودی کا فاش تر کر!

مُلّا زادہ ضیغم لولا بی کشمیری کا بیاض