Actions

..دیباچہ..

From IQBAL

Revision as of 20:22, 14 June 2018 by Zahra Naeem (talk | contribs)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

دیباچہ

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اقبال نامہ جلد دوم کی اشاعت کے ساتھ حکیم الامت فدائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عاشق ملت اسلامیہ ڈاکٹر سر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اہم علمی و معنوی یادگار کی فراہمی و حفاظت کی خدمت ایک گونہ تکمیل کو پہنچی۔ اس خدمت کی طرف سے غفلت ہمیں آئندہ نسلوں کی نظر میں محسن ناشناسی کا مرتکب اور ہماری بدذوقی اور دوں ہمتی کے لیے موجب نفریں قرار دیتی۔ ان مکاتیب کی فراہمی کا ایک مقصد حضرت علامہ کی وفات کے بعد ان کی ایک ایسی کتاب کی اشاعت تھا جو تمام عمر ان کے زیر تصنیف رہی ارو جس سے ان کے کلام کی تشریح کی وضاحت ہوتی ہے اوران کے افکار کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن میرا سب سے اہم مقصد سیرت نگار اقبال کے لیے ان کی ذات اور ان کے افکار سے متعلق خود ان کی قلمی شہادت مہیا کرنا تھا۔ افسوس بارہ سال کے طویل عرصے میں ہماری محفل اقبال کے کتنے ہی دوستوں شناسائوں اور ندیموں اور مشیروں سے خالی ہو چکی ہے۔ اور ان کی سیرت و شخصیت اور افکار و کلا م سے متعلق کتنا ہی قیمتی خزانہ معلومات ہمیشہ کے لیے ضائع ہو چکا ہے۔ لیکن مقام تاسف ہے کہ ملت نے اب تک اس خادم ملت کے سوانح حیات کی ترتیب کی طرف توجہ نہیںکی۔ یہ خدمت اپنی انجام دہی کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی محتاج ہے۔ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کی بزم ہائے اقبال کو ہم اس اہم خدمت کی طرف ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اقبال کی سیرت نگاری کا کام متفقہ کوششوں سے شروع کر دینا چاہتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ دو برس کے اندر اسے تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ ہم اتنا بھی نہ کر سکے تو یوم اقبال کے سالانہ ہنگامے ہمارے ذوق سلیم کے ماتم اور ہماری محسن ناشناسی کے مرثیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ مکاتیب اقبال کی فراہمی کا کام یادش بخیر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شروع ہوا اور جلد اول جس میں ۲۶۷ خطوط ہیں ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئی۔ اس کی اشاعت کا مقصودیہ تھا کہ مکاتیب کی مزید فراہمی میں سہولت پیدا ہو چنانچہ ایک حد تک ایسا ہوا بھی لیکن جنگ نے ہر طرح کی مشکلات کو دوچند کر دیا جنگ کے خاتمہ پر ملک میں فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ تقسیم برعظیم کے بعد اور آزادی کے جلو میں آنے والے ہنگامہ رستخیز میں دوسری کتنی ہی قیمتی یادگاروں کے ساتھ اقبال کے مکاتیب کے و ہ ذخیرے جن پر میری نظر تھی بظاہر ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گئے اور کتنے ہی نادر ذخیرے جن کا ہمیں علم نہ تھا اور جو اپنے وقت پر کسی نہ کسی طریق سے ضرور ظاہر ہوتے۔ اب بظاہر تلف ہو چکے ہیں۔ اس لیے جو کچھ ہو سکا وجہ مسرت ہے جو کچھ رہ گیا وہ موجب صد ہزار حسرت۔ حصہ اول میں مکاتیب پر کوئی تبصرہ نہ تھا ۔ حصہ دوم کی تکمیل و اشاعت پر اظہار خیال کا وعدہ تھا۔ بعض احباب نے اس عرصہ میں مکاتیب حصہ اول کی روشنی میں اقبال کی سیرت پر طبع آزمائی فرمائی۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ ان خطوط کے تعارف کے طور پر مرتب مکاتیب یا چند سطور لکھنے کی ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے۔ جو خطوط حاصل ہو سکے بلاکم و کاست شامل مجموعہ کر لیے گئے ہیں۔ ہر شخص اپنے مذاق و جستجو کے مطابق ان میں اپنی تسکین کا سامان مہیا پائے گا۔ کس کے لیے کون سے خطوط اور ا ن میں کون سی شے جاذب توجہ ہو گی ہمارے واردات قلبی اور سطح ذہنی پر موقوف ہے۔ اقبال کے متعلق معلومات کی طلب تمنا امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ ایک چوتھائی صدی کے بعد ان مکاتیب کے پڑھنے والوں کی نگاہ میں کون سی چیز زیادہ محبوب ہو گی۔ لہٰذا میں نے ان خطوط کو بھی اس مجموعہ میں شامل کر لیا ہے۔ جو آج بعض دوستوں کی نظر میں قطعاً غیر اہم ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کل یہی خطوط بڑے معرکے کی چیز ثابت ہوں اور کتنے ہی اہم مسائل کا فیصلہ ان کی روشنی میں کیا جا سکے۔ ان خطوط کے مطالعہ کے بعد اقبال کی ذات کے متعلق جو امتیازات مجھے نظر آتے ہیں ان میں ان کا خلوص ان کی علم دوستی اسلام سے ان کی شیفتگی ہندوستان کے مسلمانوں کے زبوں حالی پر ان کی دل سوزی اور اصلاح حال کے لیے ان کی کاوش ممالک اسلامیہ کے لیے اتحاد و استقلال اور استحکام کی تجاویز اور کوشش اہل و عیال سے محبت دوستوں کے لیے جذبہ مروت اور عالم انسانیت کے لیے فلاح و خیر سگالی کے جذبات نمایاں ہیںَ ان میں سے چند کے متعلق ارشادات پر اکتفا کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ اقبال کو سمجھنے کے لیے ان کے کلام کی طرح ان کے خطوط کا مطالعہ بھی دوستداران اقبال کے لیے لازمی ہے