Actions

*فکری جائزہ*

From IQBAL

Revision as of 07:01, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے، مختلف مسائل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے روایتی کردا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے، مختلف مسائل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے روایتی کردار کا سہارا لیا ہے۔

    ٭خضر کی شخصیت

خضر کی شخصیت کے بارے میں تاریخی اور ادبی روایات معروف تو ہیں مگر مستند نہیں اور ان کی روشنی میں کسی واضح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث میں خضر کا تذکرہ موجود ہے اور یہ ماخذ زیادہ یقینی ، مستند اور معتبر ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کا تعلق اس دور سے ہے جب مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا۔ قرآن پاک کے مطابق یہ واقعہ اس طرح ہے: ’’ (ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰ ؑ کو پیش آیا تھا )جبکہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاوں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوںگا‘‘۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے[غالباً موسیٰ ؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الارزق آکر ملتی ہیں۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ: تفیہم القرآن، جلد سوم، ص ۳۵]تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا:’’ لاؤ ہمارا ناشتا، آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں‘‘۔ خادم نے کہا: ’’آپ نے دیکھایہ کیا ہوا؟جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کاذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی‘‘۔ موسیٰ نے کہا’’اس کی تو ہمیں تلاش تھی‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھرواپس ہوئے اور وہاں انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ ’’ موسیٰ نے اس سے کہا:’’ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو، آخر آپ اس پر صبر کربھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے کہا:’’ ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ ‘‘ اس نے کہا:’’ اچھا ، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں، جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں‘‘۔ اب وہ دونوں روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ نے کہا :’’آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبودیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی‘‘۔ اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ‘‘؟ موسیٰ نے کہا:’’بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے ، میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں‘‘۔ ’’ پھر وہ دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کردیا۔ موسیٰ نے کہا:’’ آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی، حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا۔ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا‘‘ ۔اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘‘۔ موسیٰ نے کہا:’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طر ف سے آپ کو عذر مل گیا‘‘۔ ’’ پھر وہ آگے چلے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انھوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انھوں نے ایک دیوار دیکھی جو گراچاہتی تھی۔ اس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے‘‘۔ اس نے کہا: ’’ بس ، میرا تمھارا ساتھ ختم ہوا۔اب میں تمھیں ان باتوں کی حقیقت بتاتاہوں ، جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں ا ندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کاباپ ایک نیک آدمی تھا، اس لیے تمھارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہو ں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے‘‘۔ ( سورۃ الکہف: ۶۰۔۸۲ ترجمہ قرآنِ مجید از سیّد ابوالاعلیٰ مودودی: ص۷۶۹۔۷۷۳) اس واقعے میں محض ایک ’’ بندے ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام نہیں بتایا گیا مگر معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کانام خضر ہے۔ قرآن پاک کے بیان کردہ مندرجہ بالا واقعے کے مطابق حضرت خضرؑ کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ وہ انسان تھے یا کوئی غیرانسانی مخلوق؟ البتہ یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عقل و دانش کی غیر معمولی صلاحیت عنایت کی تھی۔ اسی لیے حضرت موسیٰ ؑ بھی دانش کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچے۔ علما کا رجحان یہ ہے کہ خضر ایک غیر انسانی شخصیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے تفویض کردہ امور و افعال کی انجام دہی کے لیے مقرر ہے۔ بھولے بھٹکوں کی راہنمائی بھی ان میں سے ایک کام ہو سکتا ہے۔