Actions

*فنی تجزیہ*

From IQBAL


’’خضرراہ‘‘ ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلْنَ ٭نظم میں خضر کی کردار کی اہمیت: ’’ خضرراہ‘‘ میں حیات انسانی اور دورِ حاضر کے چند مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔ اقبالؔ نے نظم کے آغاز ہی میں خضر کے سامنے چند سوالات پیش کر کے قاری کی دلچسپی اور تجسس کو ابھارا ہے۔ سوالات کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے: آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے اب خضر سے جوابات سننے کا اشتیاق تمام حسیات کو سمیٹ کر سماعت کے مرکز پر لے آتا ہے اور قاری کویوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا پیغمبر یا فلسفی‘ کائنات اور زندگی کے اہم گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اسٹیج پر آ کھڑا ہوا ہے۔ نظم میں یہ ڈرامائی کیفیت جس نے بیان کو زیادہ مؤثر‘ با وزن اور بھر پور بنا دیا ہے ‘ صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ شاعر نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے کردار کو ذریعہ یا واسطہ بنایا ہے۔ اگر اقبال زیر بحث مسائل پر سیدھے سادے طریقے سے ( بزبانِ خویش) اظہارِ خیال کر دیتے ( اور خضر کا کردار معرض گفتگو میں نہ لاتے ) تو ایک طرف تو نظم بالکل سپاٹ رہ جاتی اور دوسری طرف ان کے افکار و خیالات میں پیغمبرانہ فرمان کی وہ شان پیدا نہ ہوتی جو ہمیں نظم کی موجودہ صورت میں ملتی ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں اقبال جن خیالات کا اظہار کرتے وہ ایک انسان کا نتیجۂ فکر ہوتے ( جس کا علم بھی محدود ہے اور نظر بھی ) مگر موجودہ صورت میں خیالات ایک ایسی ہستی( خضر ) کے ہیں جو ’’ چشم ِ جہاں بیں ‘‘ ہے اور جس کے علم کا یہ حال ہے کہ : علم موسیٰ ؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش نظم میں اقبال نے اپنے افکار و خیالات کو جس تیقن ‘ اعتماد اور زورد ار طریقے سے پیش کیا ہے‘ اس کا سبب خضر کا کردار ہے اور نظم میں خضر کے کردار کی یہی اہمیت ہے۔ مگر اس اہمیت کا ایک سبب اور بھی ہے ۔ نظم کے ابتدا میں ایک پر اسرار کیفیت طاری ہے جیسے ابھی ہمارے سامنے کسی طلسماتی دنیا کے اوراق کھلنے والے ہیں۔ یہاں قاری کی ذہنی کیفیت روایتی داستان سننے والے سامع سے مختلف نہیں۔ وہ پورے اشتیاق ‘دلچسپی اور انہماک کے ساتھ نظم کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب بھی خضر کا کردار ہے۔ اگر اقبال خضر کے کردار کا سہار ا نہ لیتے تو نظم کی طر ف قاری کو یوں متوجّہ کرنا اور اس کے لیے نظم میں اس درجہ انہماک پیدا کرنا ممکن نہ تھا۔