Actions

(فکری جائزہ)

From IQBAL

Revision as of 11:20, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with " <div dir="rtl"> نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسک...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱۔ جہانِ نوکی نوید ۲۔ کائنات میں مقامِِ مسلم ۳۔ مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات ۴۔ جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ ۵۔ مغرب سے مایوسی ۶۔ انسانیت کا مستقبل: مسلمان ۷۔ روشن مستقبل ٭جہانِ نو کی نوید: آغاز ‘عالمِ اسلام کے موجودہ حالات اور نت نئی رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرے سے ہوتا ہے۔ عالمِ اسلام پر جنگِ عظیم اول ( ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ئ) کا مثبت اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان طویل خواب سے بیدار ہو رہے ہیں ۔ طوفانِ مغرب نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ستاروں کی تنک تابی صبح نو کا پیام دے رہی ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مسلمانوں میں جو تڑپ اور لگن پیدا ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اقوامِ عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوں گے اور ساری دنیا کی فکر ی‘ تہذیبی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ یہ جہانِ نو کی نوید ہے۔ یہاں علامّہ اقبال عالمِ اسلام کے عظیم ترین حادثے عرب ترک آویزش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں : الف: عربوں نے ترکوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کیا۔ ب: باہمی انتشار و افتراق سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔ ج: وہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہو گئے۔ مگر اب تاریخ کے سٹیج پر منظر بدل رہا ہے۔ اگرچہ امت ِ خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہوچکی ہے لیکن اب ا س دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت ’’ آہِ سحر گاہی‘‘ کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے۔’’سرشکِ چشمِ مسلم‘‘ سے مراد دینی جذبہ و جوش اور احیاے اسلام کے لیے ایک ولولہ ‘سوز و تڑپ اور لگن ہے۔ اقبال کے خیال میں اب مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔ اگرچہ خلافت ِ عثمانی کا خاتمہ ہو گیا مگر ترک ایک نئے سفر اور نئی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ باہمی اختلافات کے بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ نظم کے دوسرے بندمیں جہانِ نو کی یہ نو ید ‘ دراصل ان سوالات کا جواب ہے جو شاعر کے دل میں ’’خضر راہ‘‘ لکھتے وقت پیدا ہوئے تھے اور وہ عالم اسلام کی پریشان حالی کو دیکھ کر بے چین اور مضطرب ہو رہا تھا۔ ’’ خضر راہ‘‘ میں شاعر کہتا ہے: ؎ لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز یہ ایک طرح کا سوال بھی ہے اور شاعر کی دلی تڑپ اور درد و کرب کا اظہار بھی۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں اس کا جواب یوں ملتا ہے: سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا ’’ خضر راہ‘‘ میں سوال : بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب: اگرعثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟ کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ’’خضر راہ ‘‘ میں سوال: حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب: کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا اسی طرح او ر بہت سے ایسے سوالوں کا جواب بھی ہمیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں ملتا ہے جو ’’ خضر راہ‘‘ میں اٹھائے گئے تھے۔ شاعر نے مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہا نِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا۔ چنانچہ ایک طرف تو اقبال دست بدعا ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں ’’ چراغِ آرزو‘‘ روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصولِ مقصد کی خاطر سر بکف میدانِ جہاد میں نکل آئے( پہلے بند کا آخری شعر) … دوسری طرف وہ اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید میری نحیف آواز مسلمانوں کے لیے بانگِ درا ثابت ہو۔