Actions

Difference between revisions of "ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے لیے احساس خطر"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> ہندوستان میں علامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق بہت بڑا خطرہ نطر آتا تھا۔ ج...")
 
Line 37: Line 37:
 
یہ نہ سمجھیے کہ اقبال کی نظر صرف ننگ اسلام علماء ہی کے گناہوں پر تھی انگریزی خواں طبقے کے وہ لوگ جو ذاتی نفع کی خاطر ملت فروشی پر مائل اور اس طرح ملت میں انتشار کا باعث ہوتے تھے ان کی سیاہ کاریوں سے بھی علامہ کو بے حد قلق تھا۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں:
 
یہ نہ سمجھیے کہ اقبال کی نظر صرف ننگ اسلام علماء ہی کے گناہوں پر تھی انگریزی خواں طبقے کے وہ لوگ جو ذاتی نفع کی خاطر ملت فروشی پر مائل اور اس طرح ملت میں انتشار کا باعث ہوتے تھے ان کی سیاہ کاریوں سے بھی علامہ کو بے حد قلق تھا۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں:
 
’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ چار پانچ سال کے تجربہ سے مجھے بے حد افسردہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ پست فطرت ہے
 
’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ چار پانچ سال کے تجربہ سے مجھے بے حد افسردہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ پست فطرت ہے
 +
                              *[[فتنہ قومیت و وطنیت]]*

Revision as of 19:23, 27 June 2018

ہندوستان میں علامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق بہت بڑا خطرہ نطر آتا تھا۔ جس کے انسداد کی بعض ایسی کوششیں ان مکاتیب سے ملت کے سامنے آتی ہیں جو آج تک سب کی نظر سے پوشیدہ تھیںَ مسلمانوں اور اسلام کے لیے خطرہ ان کو ہندوستان کی تحریک قومیت اور مسلمانوں کی بے حسی اور بے راہ روی کی وجہ سے تھا۔ اشاعت اسلام کے لیے ان کے دل میں ایک تڑپ تھی۔ میر غلام بھیک صاحب نیرنگ کو لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پرمقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس کا عنصر نہیں جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتاہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔ اسی خط میں دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میں علیٰ درجہ البصیرت یہ کہتا ہوںاور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربے کے بعد کہ ہندوستان کی سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے۔ میرے خیال میں شدھی کا خطرہ اس خطرہ کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے‘‘۔ اس روشن ضمری اور عاقبت بینی آج کون صاحب نظر داد نہ دے گا۔ مخدوم میراں شاہ صاحب کو لکھتے ہیں: ’’دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت ہمت اثر و رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے… افسوس شمال مغربی ہندوستان میں جن لوگوں نے عالم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے گا الا ماشاء اللہ!‘‘ منشی صالح محمد صاحب کو لکھتے ہیں: ’’اسلام پر ایک بڑا نازک وقت ہندوستان میں آ رہا ہے۔ سیاسی حقوق اور ملی تمدن کا تحفظ ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرض خطر میں ہے۔ میں ایک مدت سے ا س مسئلہ پر غور کر رہا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ مسلمانوں کے لیے مقدم ہے کہ ایک بڑا نیشنل فنڈ قائم کریں جو ایک ٹرسٹ کی صورت میں ہوا اور اس کا روپیہ مسلمانوں کے تمدن اور ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور ان کی دینی اشاعت وغیرہ پر خرچ کیا جائے۔ اسی طرح ان کے اخبارات کی حالت درست کی جائے اور وہ تمام وسائل اختیار کیے جائیں جو زمانہ حال میں اقوام کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں…‘‘ ایک دوسرے خط میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہے: ’’مسلمانوں کی مختلف مقامات میں دینی اور سیاسی اعتبار سے تنظیم کی جائے قومی عساکر بنائے جائیں اور ان تمام وسائل سے اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اس کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے‘‘۔ عام مسلمانوں میں اسلام اور مسلمانوں کی ا س حالت زار اور ان کے لیے خطرہ عظیم کے عدم احساس کا ماتم اور اس خطرے کی نوعیت کو یوں واضح فرمایا ہے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک اس اک احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں کیا ہو جائے گا۔ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور پھیل اقوام کی طرح ہو جائے۔ اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہوجائے اگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے تمام کام چھوڑنے پڑے تو انشاء اللہ چھوڑ دوں گا۔ او ر اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کر دوں گا… ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب اورملت ہندیہ کے احیائے جدید کی تدابیر پر ہمیشہ نظر رہتی تھی۔ مسلمانان ہند کے انحطاط کا ایک سبب ان میں تنظیم اور یک جہتی و ہم آہنگی کا فقدان ہے ۱۹۳۳ء میں شیخ عبداللہ کو لکھتے ہیں: ’’ہم آہنگی ایک ایسی چیز ہے کہ جو تمام سیاسی اور تمدنی مشکلات کا علاج ہے ہندی مسلمانوںکے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے ہوئے ہیں کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ اس کے افراد بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت ہیں‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو خود متحد ہو کر ہمت کرنے اور اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور انہیں دوسروں کی عیاری سے ہوشیار رہنے کی تلقین کے سلسلہ میں سید سلیمان ندوی کو تحریک خلافت کے زمانے میں لکھتے ہیں: ’’مدت سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی کہ یہ تاثر ایک چھوٹی سی تضمین کی صورت میں منتقل ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں آپ کا اس بارہ میںکیا خیال ہے۔ واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگرہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں کے اشارے پر ناچتے چلے جاتے ہیں افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے:

بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے

مگر آج ہے وقت خویش آزمائی

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا

خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے

مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

مراد از شکستن چناں عار ناید

کہ از دیگراں خواستن مومیائی

اصل شعر میں دیگراں کی جگہ ناکساں ہے میں نے یہ لفظی تغیر ارادۃً کیا ہے‘‘۔ یہ نہ سمجھیے کہ اقبال کی نظر صرف ننگ اسلام علماء ہی کے گناہوں پر تھی انگریزی خواں طبقے کے وہ لوگ جو ذاتی نفع کی خاطر ملت فروشی پر مائل اور اس طرح ملت میں انتشار کا باعث ہوتے تھے ان کی سیاہ کاریوں سے بھی علامہ کو بے حد قلق تھا۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ چار پانچ سال کے تجربہ سے مجھے بے حد افسردہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ پست فطرت ہے

                              *فتنہ قومیت و وطنیت*