کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
From IQBAL
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیر حلقہ دام ہوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے، میں لا دوا کیونکر ہوا
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدہء عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا، کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتائوں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا