Actions

ڈرامائی کیفیت*

From IQBAL

’’خضرراہ‘‘ میں اقبال جو باتیں کہنا چاہتے ہیں ‘ قارئین ( یا سامعین ) کے لیے انھیں زیادہ باوزن اور مؤثر بنانے کی خاطر انھوں نے خضر کے کردار کا سہارا لیا ہے اور اس طرح نظم میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ڈرامے کا پہلا سین ساحلِ دریا کا وہ منظر ہے جہاں شاعر دلِ مضطرب کے ساتھ محو نظارہ ہے۔ پورے ماحول پر ایک گہراسکوت چھایا ہوا ہے۔ جس کا حیرت افزا تأثر قاری میں تجسس پیدا کرتا ہے۔ وہ گہرے سکوت کے اس سمندر میں چھپے ہوئے کسی طوفان کا منتظر ہے‘ یہاں تک کہ خضر اسٹیج پر نمودار ہو کر مکالمے کی ابتدا کرتا ہے: …… اے جویاے اسرارِ ازل چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب جواباً شاعر خضر سے مختلف سوالات پوچھنا شروع کرتا ہے۔ اس کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ شاعر کے ’’ جہانِ اضطراب‘‘ میں ایسی شدت ہے کہ وہ ایک سوال کرکے اس کے جواب کا انتظار نہیں کر سکتا بلکہ بیک وقت سارے سوالات خضر کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ڈرامے کا باقی حصہ خضر کے طویل جواب پر مشتمل ہے۔ شاعر نے جس ترتیب کے ساتھ خضر کے سامنے حیات و کائنات اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں سوالات پیش کیے ہیں‘ وہ اسی ترتیب سے ان کے تفصیلی جوابات دیتے چلے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خضر کے جوابات کے دوران میں نظم کے اختتام تک شاعر کوئی مزید سوال نہیں کرتا۔ خضر کے جوابات اتنے جامع‘ مفصل اور شافی و کافی ہیں کہ شاعر کا ہمہ پہلو اضطراب پوری طرح رفع ہو جاتا ہے اور اسے مزید کوئی سوال حل کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ اس ڈرامائی کیفیت نے شاعر کے بیان کو زیادہ جاندار اور مؤثر بنا دیا ہے۔