Actions

چند محسناتِ شعر

From IQBAL

Revision as of 18:04, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> ’’ شکوہ‘‘ ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے۔ انتخاب الفاظ، بندش تراکیب، صنعت گری...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

’’ شکوہ‘‘ ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے۔ انتخاب الفاظ، بندش تراکیب، صنعت گری ، حسن تشبیہ و استعارہ ، مناسب بحر، موزوں قوافی ، وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم اس قدر دل کش اور جذبہ انگیز ہے کہ قاری کے دل کو متاثر و متحرک کیے بغیر نہیں رہتی ۔ مسلمانوں کی بدحالی و پستی کو حالیؔ نے بھی اپنی مسدس میں بیان کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تذکرے کا سپاٹ انداز اختیار کرنے کے بجاے شکوہ کا جدید انداز اختیار کیا ہے۔ اس جدتِ بیان نے ’’ شکوہ‘‘ کو ایک یادگار نظم بنادیا ہے۔ عابد علی عابد لکھتے ہیں : ’’ اقبال کی طویل نظموں میں ’’ شکوہ‘‘ کئی طرح سے اہم اور معنی خیز ہے ۔ اس کی ساخت یا تشکیل میں اقبال نے پہلی بار اس صنعت گری کی ایک جھلک دکھائی ہے جسے بعد کی نظموں میں عروجِ کمال پر پہنچنا تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس نظم میں محسنات شعر کا استعمال ایسی چابک دستی اور ہنر مندی سے ہوا ہے کہ پڑ ھنے والے کی توجّہ بیشتر مطالب ہی پر مرکوز رہتی ہے‘‘۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص۷) الف:صنعت گری: ۱: صنعت مراعاۃ النظیر: ( ایسے الفاظ کا استعمال جن کو آپس میں سواے تضاد کے کوئی اور نسبت ہو )  : نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا، میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتاہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم ۲۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے): نقش، توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے ۳۔ صنعت ترصیع: ( دو مصرعوں کے تمام یا زیادہ الفاظ کا ہم قافیہ ہونا) : کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو ۴: صنعت تلمیح: ( کسی مشہور واقعے ، کہانی ، انسان ، آیتِ قرآنی یافنی اصطلاح وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا) : ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ۵۔ صنعت طباق ایجابی: ( دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسر ے کی ضد ہوں ) : آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر قوم اپنی جو زرو مالِ جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی ب: تصویر کاری: تصویر کاری (Imagery)کی بہت سے مثالیں زیر مطالعہ نظم میں موجود ہیں : آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز عہدِ گل ختم ہوا ، ٹوٹ گیا سازِ چمن

اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک ج: تشبیہ:’’شکوہ‘‘ میں متعدد خوب صورت تشبیہیں ملتی ہیں مثلاً: نظم کے ۲۷ ویں بند کے پہلے شعر میں، اقبال نے امت ِ مسلمہ کو ’’ مورِ بے مایہ ‘‘ سے تشبیہ دی ہے جو حد درجہ بلیغ ہے ۔ فی الواقع مسلمانوں کی حالت اس بے کس چیونٹی کی سی ہو چکی ہے جسے دنیا کی ہر قوم اور ہر گروہ جب چاہے ، روندتا اور مسلتا ہوا گزر جائے۔ مسلمان چیونٹی کی مانند کوئی مزاحمت یا روک ٹوک نہیں کرسکتے۔ غرض ’’شکوہ‘‘ اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ہونے کے باو جود فنی خوبیوں اور شعری محاسن سے مالا مال ہے۔ عابد علی عابد اس کی وجہ یہ بناتے ہیں کہ ’’ اقبال ؒ کو آغازِ کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق کے اسلوب انتقاد کے ماہر تھے اور علوم شعری کے راز دار تھے۔ چنانچہ انھی کے فیضان سے اقبالؒ کو معانی، بیان اور بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی ہو گئی اور اس کی یہی بصیرت تھی جو آخر ہر شعری کاوش میں صنعت گری کا روپ دھار کر نمودار ہوئی… اقبال کے کلا م میں صنعت گری کا وہ اسلوب مخصوص بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو مشرقی علوم شعر ہی سے منسوب ہے اور مغربی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ کہیں کہیں دونوں میں ایسا امتزاج پیدا ہو گیا ہے کہ باید و شاید۔ (شکوہ ، جوابِ شکوہ: ص۲۳-۲۴)