Actions

٭حسن ِ بیان کے چند پہلو

From IQBAL

Revision as of 06:55, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> فنی اعتبار سے یہ مرثیہ حسن بیا ن کا ایسا خوب صورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شاید...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

فنی اعتبار سے یہ مرثیہ حسن بیا ن کا ایسا خوب صورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شاید ہی ملے گی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’ فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں لیکن ان میں ایک بھی توجّہ پر بار نہ ہو‘‘۔ زیر مطالعہ نظم میں زبان و بیان اور صنائع بدائع کے وسائل غیر شعوری طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ حسن بیان کے چندپہلو ملاحظہ ہوں: الف: تشبیہات: یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے ______

تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ 

ب: صنعتِ گری: ۱: صنعتِ مراعاۃ النظیر: آسماں مجبور ہے ، شمس و قمر مجبور ہیں انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں ______ زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں ۲۔ صنعتِ طباق ایجابی : (دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبارسے ایک دوسرے کی ضد ہوں) : علم کی سنجیدہ گفتاری ، بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور ۳۔ صنعتِ تجنیس مضارع: ( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صر ف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو۔) جانتا ہو ں آہ! میں آلامِ انسانی کا راز ہے نواے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز ۴۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ،پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے): دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات ۵۔ صنعتِ ایہام تضاد: مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا ج:نئی اور خوب صورت تراکیب : دخترانِ مادرِ ایام۔ ماتم خانہ برنا و پیر۔ مایہ دار اشکِ عنابی ۔ طوقِ گلو افشار ۔ تجدیدِ مذاقِ زندگی ۔ سبزۂ نورُستہ۔ د ۔ قافیوں کی تکر ار اور نغمگی : دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں ، گریاں نہیں ______ خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار ہ ۔ محاکات: زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت ِ مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم ______ مرثیے کا اختتام دعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبر و قدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں کے سرشک آباد سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ بقول پروفیسر سیّد وقار عظیم یہاں :’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے۔ جس کی بدولت اقبال کو اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے۔ اور دوسری شخصیت اس مجبور و مغموم انسان کی ہے جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھو ل جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے‘‘۔ ( اقبال، شاعر اور فلسفی: ص ۱۶۳؟ ۱۶۴) آخر میں والدہ ٔ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے اقبال دست بدعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ غالباُ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جدا ہونے والی کسی عزیز ہستی کے بارے میں، پسماندگان کی دعا اور خواہش اس سے مختلف نہیں ہو تی ۔ یہاں اقبال کا طرز فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔