Actions

والدہ مرحومہ کی یاد میں*

From IQBAL

٭تعارف اور پس منظر

یہ نظم علامّہ اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ اسے مرثیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکل میںاس کے گیارہ بند اور ۸۹ اشعار تھے۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامّہ نے نظم کے متعدد اشعار حذف کر دیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا۔ بندوں کی ترتیب بھی بدل دی۔ موجود شکل میں نظم کل تیرہ بندوں کے چھیاسی اشعار پر مشتمل ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں اور پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے اشارہ کیا ہے کہ یہ نظم لکھتے وقت اقبال کے تحت الشعور میں انگریزی شاعر ولیم کوپر کی نظم on the Receipt of My Mother's Picture out of Norfolkضرور ہوگی۔ کیونکہ ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے بعض حصے کوپر کی نظم کی یاد دلاتے ہیں۔ علامّہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ علامّہ کے والد شیخ نور محمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، والدۂ علامّہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے مجتنب رہتیں کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعدشیخ صاحب نے ملازمت ترک کر دی۔ گھر میں انھیں ’’ بے جی ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل ان پڑ ھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حسن سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطور امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میں اگر کوئی جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو ’’بے جی‘‘ کو سب لوگ منصف ٹھہراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کر دیتیں۔ بے جی غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتیں۔ بعض غریب عورتوں کی خفیہ مدد کرتیں ۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے برادری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔ اقبال کو اپنی والدہ سے غیر معمولی انس اوربے حد لگاؤ تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیر نظر مرثیے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیرت واپسی کے لیے دعا گو رہتیں اور انھیں اقبال کے خط کا ہمیشہ انتظار رہتا۔ ان کا انتقال ۷۸سال کی عمر میں ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ قبر،امام صاحب کے مقبرے کے پاس واقع ہے۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا جس کے چند شعر یہ ہیں: مادرِ مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں

چشم تر ہے آنسوؤں سے ، قلب ہے اندوہ گیں اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے

سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے واقعی مخدومۂ ملت تھیں وہ نیکو صفات رحلتِ مخدومہ سے پیداہے تاریخ وفات ۱۳۳۳ ہجری فارسی میں اکبر کا ایک اور قطعہ ٔ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔ والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیّر پیدا کر دیا ہے ۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑ ھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظارہے۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجود ہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں ، کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں‘‘۔ ( صحیفہ: اقبال نمبراول،۱۹۷۳ئ، ص ۱۳۲) شیخ نور محمد کو بھی اپنی رفیقہ ٔ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقع پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی… اقبالؔ نے زیر مطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑ ھا کرتے تھے۔