Actions

مکان

From IQBAL

Revision as of 19:21, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (ا)’’ کیا مکان ایک آزاد خلا کا نام ہے جس میں چیزیں واقع ہوتی ہیں؟‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۲) جدید...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(ا)’’ کیا مکان ایک آزاد خلا کا نام ہے جس میں چیزیں واقع ہوتی ہیں؟‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۲) جدید سائنس کی رُو سے فطرت کوئی جامد شے نہیں جو لامتناہی خلا میں واقع ہو بلکہ یہ تو مربوط واقعات کی تنظیم ہے جس کے باہمی تعلقات زمان ومکان کے تصورات کو جنم دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں زمان ومکان تو انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں‘‘ (تیسرا خطبہ)

 مکان کا مسئلہ بھی علامہ اقبالؒ کے نظام فلسفہ کا ایک وقیع اور مشکل موضوع ہے۔اُنھوں نے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے نگاہ ڈالی ہے۔مذہب،فلسفہ، تصوف اور سائنس نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے، علامہ موصوفؒ نے اس کا لب لباب اپنی نثر اور نظم میں پیش کردیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اُنھوں نے تمام گوشوں کا احاطہ کرلیا ہے تاہم اس کا خاکہ ضرور پیش کردیا ہے۔یہاں پہلے اقتباس میں اُنھوں نے سوال پوچھا ہے کیا مکان ایک آزاد خالی جگہ کا نام ہے جس میں مختلف اشیا واقع ہیں۔دوسرے اقتباس میں بھی اُنھوں نے نیچر اور زمان و مکان کی نوعیت کے بارے میں اظہار خیال کیاہے۔ان دونوں اقتباسات کے اہم اُمور مختصراً یہ ہیں:

(ا) قدیم یونانی فلسفی زینو نے مسئلہ مکان کو مکانی حرکت کی رُو سے حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میںکامیاب نہ ہوسکا۔اُس کی رائے میں مکان لاتعداد قابل تقسیم نقاط پر مشتمل ہے اس لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک حرکت ناممکن ہے۔اس طرح اُس نے مکانی حرکت کو فریب نگاہ قرار دے کر مکان کو بھی غیر حقیقی قرار دیا تھا۔اشاعرہ کو زینو سے اختلاف تھا۔وہ مکان کی بے پایاں تقسیم پذیری اورمکان کی عدم حرکت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ برٹرنڈرسل(۱۸۷۲۔۱۹۷۰ئ) نے Cantor کے نظریہ تسلسل کا سہارالے کر حرکت مکانی کو ثابت کیا ہے جس سے مکان کی آزادانہ حقیقت اور نیچر کی معروضیت کانتیجہ اخذ ہوتا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ آئن سٹائن کے انقلابی نظریہ اضافیت کاتذکرہ کرتے ہیں جس نے مکان کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے مگر مادیت پر ضربِ کاری لگائی ہے۔ (ب)سائنس کے جدید نظریات کی بنا پر فطرت متحرک ہے اور مربوط واقعات کی تنظیم کا دوسرا نام ہے۔نیوٹن(۱۷۷۲۔۱۶۴۲ئ) کے نظریہ کائنات کی مادہ پرستی پر بنیاد ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے: "The scientific view of nature as pure materiality is associated with the Newtonian view of space as an absolute void in which things are situated." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.34)

  بشپ جارج برکلے نے مادیت کے پرانے تصور کی دھجیاں بکھر کرر کھ دی ہیں۔اس طرح علامہ اقبالؒ کی رائے میں آئن سٹائن اور پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے افکار ونظریات نے مادہ پرستی پر مزید ضرب لگائی ہے۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے کائنات کو متحرک اور مسلسل تخلیقی رو کیحامل واقعات کا نظام قرار دیا ہے۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے خیال میں انسانی فکر کائنات کو علیحدہ علیحدہ اجزا میں کاٹ کر زمان اور مکان کے افکار کو جنم دیتی ہے۔اس طرح جدید سائنس نے برکلے کے مادیت شکن تصور کی حمایت کردی ہے۔اس حقیقت کے مدنظر علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ زمان ومکان تو خدا کی خلاقی صفت کی فکری تعبیریں ہیں۔وہ خودی کے امکانات اور زمان ومکان کے بارے میں مزید کہتے ہیں:

"Space and time are possibilities of the ego, only partially realized in the shape of our mathematical space and time." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.64) (۳)’’ جنہیں ہم اشیاء کہتے ہیں فی الحقیقت وہ مسئلہ فطرت کے واقعات ہیں جن کو فکرِ انسانی مکانیت کا رنگ دے کر عملی اغراض کے لیے ایک دوسرے سے الگ الگ قرار دیتا ہے۔کائنات جو ہمیں اشیا کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔وہ خلا میں واقع ہونے والا ٹھوس مادّہ نہیں۔کائنات چیز نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۴)’’ جگہ کے متعلق میرا خیال مکانی طور پر جگہ سے وابستہ نہیں ہوتا۔ مثلاً یہ کہنا ممکن نہیں کہ تاج محل کے حسن وجمال کے بارے میں میرا جذبہ تحسین آگرہ سے مسافت کے مطابق بدلتا ہے‘‘۔ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ چونکہ کائنات کی روحانی اساس میں پختہ عقیدہ رکھتے ہیں اس لیے وہ زمان ومکان کی اصل بھی مادی خیال نہیں کرتے۔وہ برکلے‘وہائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے افکار کے اس پہلو کی مدح سرائی کرتے ہیں جس کی رُو سے مادہ پرستانہ تصورِ کائنات پر زد پڑتی ہے۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کا یہ نظریہ کائنات بھی قرآنی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔وہ زمان ومکان کو خدا کی تخلیقی سرگرمی کے مادی اور خارجی پیمانے قرار دیتے ہیں جن کے ذریعے خدا اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا اظہار کرتا ہے۔ کائنات کی حقیقت وحدت کی عکاس ہے مگر جب وہ خارجی طور پر اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے تو وہ کثرت دکھائی دیتی ہے۔اُس کی باطنی حقیقت حرکت، تغیر اور مسلسل تخلیق پر مبنی ہے مگر خارج میں فکرِ انسانی اسے ساکن اور جامد نقاط میں تقسیم کردیتا ہے جس سے وقت اور مکان جنم لیتے ہیں۔اس لحاظ سے زمان ومکان انسانی فکر کی کرشمہ سازی اور تعبیر کے مظہر بن جاتے ہیں حالانکہ حقیقت مطلقہ(خدا) زمان ومکان کی حدود سے ماورا ہے۔علامہ اقبالؒ اشیائے کائنات کو حادثات کا غیر مادی نظام اور خدا کی تخلیقی صفت کا عمل قرار دیتے ہوئے اس کی روحانی بنیاد کے قائل ہیں۔ان کے درج ذیل افکار بھی لائق مطالعہ ہیں: (1)"Nature is not a static fact situated in an a-dynamic void, but a structure of events possessing the character of a continuous creative flow which thought cuts up into isolated immobilities out of which arise the concepts of space whose mutual relations are time." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.34) (2)"With Einstein space is real, but relative to the observer. He rejects the Newtonian concept of an absolute space." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.37) (3)"Personally, I believe that the ultimate character of Reality is spiritual." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.98) (ب) خودی اور مکان کی بحث کے دوران علامہ اقبالؒ یہ بیان کرتے ہیں کہ جسم ایک مقام کا پابند ہے مگر خودی ایک سے زیادہ مقامات کا تصور کرسکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ خودی مکان کی حدود میں مقید نہیں ہوتی۔اس بات کو وہ تاج محل کی مثال دے کر سمجھانا چاہتے ہیں کہ تاج محل کے حسن وجمال کے بارے میں میرا خیال ایک ہی ہوگا خواہ میں اس سے کتنی دُور جاکر کسی دوسرے مقام سے وابستہ ہوجائوں۔کیا کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہمارا جسم تو زمین پر ہوتا ہے اور ہماراخیال آسمان سے بھی آگے چلا جاتا ہے؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوجاتا کہ ہماری فکر ایک ہی مکان سے وابستہ نہیں رہتی۔علامہ موصوف کا کہنا ہے کہ خودی اپنے آپ کو ذہنی کیفیات کی وحدت کے طور پر ظاہر کرتی ہے جو مادی شے کی طرح ایک دوسری سے الگ ہوکر قائم نہیں رہ سکتیں۔اُن کے یہ مزید خیالات بھی فکر انگیز ثابت ہوںگے: (1)"Mental states do not exist in mutual isolation--the parts of a material thing can exist in mutual isolation. Mental unity is obsolutely unique." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.99) (2)"My thought of space is not spatially related to space. Indeed, the ego can think of more than one space-order." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.99)

علامہ اقبالؒ خودی‘ طبعی واقعہ اور مکان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ کوئی طبعی حادثہ مرورِ زمان کے سبب مکان میں پھیل کر وجود حقیقت بن جاتا ہے لیکن خودی کا مرورِ خالص ایک جگہ مرتکز ہوکر حال اور مستقبل سے مربوط ہوجاتا ہے۔

(۵)’’وہ نظریہ جو وقت کو مکان کا چوتھا بُعد قرار دے وہ لازماً ماضی کی طرح مستقبل کو بھی پہلے سے متعین سمجھے گا۔اس طرح آزاد تخلیقی حرکت سے اس نظریے کے لیے کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ اگر وقت کو جگہ کا چوتھا بُعد خیال کیا جائے تو وہ حقیقت میں وقت نہیںرہتا‘‘۔ ( دوسرا خطبہ)

   علامہ اقبالؒ کے اس اقتباس میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے پیداشدہ مکانیت آمیز زمان(space-time) کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔علامہ اقبالؒ نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو ’’انسانی افکار کی ساری دنیا میں دُور رس انقلاب کی اساس‘‘ قرار دے کر شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اُن کی رائے میں آئن سٹائن کے اس تصور نے مادہ پرستی کے قدیم نظریے کی بیخ کنی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اس مدح سرائی کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے اس کے نظریہ اضافیت کے اس پہلو پر تنقید بھی کی ہے جس کی رُو سے مکانی وقت چوتھا بُعد بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ زمان کو مکان سے ارفع اور حیات وممات کا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔اس لیے اُنھیں آئن سٹائن کا مکانی وقت ہرگزپسند نہیں آیا۔اس کے وہ اسباب یہ بیان کرتے ہیں:۔

(الف) اگر وقت کو مکان کا چوتھا بعُد تسلیم کرلیا جائے تو پھر ماضی کی طرح مستقبل بھی پہلے سے مقررہ کردہ خیال کیا جائے گا۔یاد رہے کہ مکان کو تین چیزوں‘لمبائی‘چوڑائی اور موٹائی‘ پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔ان تینوں کو’’ابعادِ ثلاثہ‘‘ کہا جاتا ہے۔چوتھے بعُد سے مراد وہ خیالی سمت ہے جس میں اقلیدسی جیومیٹری کے تین معروف ومقبول ابعاد کے علاوہ مادّے کے پھیلائو کو فرض کیاجاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں آئن سٹائن نے وقت کو مکان کا چوتھا بُعد بنادیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مستقبل کے واقعات بھی ماضی کی طرح تکرار اور لگے بندھے طریق پر رونما ہونے والے خیال کئے جائیں گے۔شاعرِ مشرق تو مستقبل کو ایک کھلے ہوئے امکان کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ اُنھوں نے خود کہا ہے: "The future certainly pre-exists in the organic whole of God's creative life, but it pre-exists as an open possibility, not as a fixed order of events with definite outlines." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.79) (ب) اگر وقت کو مکان کا چوتھا لازمی عنصر تصور کیا جائے تو اس میں تخلیقی حرکت کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔اگر وقت مکان کا چوتھا بُعد بن جائے تو پھر اس میں تغیر وحرکت کیسے ہوسکے گی؟ علامہ اقبالؒ کے نزدیک تغیر وحرکت ہی زندگی کی علامت اور کائنات کی اصل ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی خلاقی صفت کی بنا پر نئے نئے واقعات کو معرض وجود میں لاکر زندگی اور کائنات کو رواں دواں رکھتے ہیں۔اگر زندگی میں جدت اور تنوع نہ رہیں تو پھر مستقبل پہلے سے بنائے ہوئے نقشے کی ہوبہو تصویر بن جائے گا۔ علامہ اقبالؒ مرحوم ومغفور تو ’’نقش ہائے تازہ‘‘ کو زندگی کی علامت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بیک صورت قرارِ زندگی نیست (ج) جگہ کا چوتھا بُعد بن کر وقت حقیقت میں وقت ہی نہیں رہتا۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں تو وقت تخلیقی حرکت کا حامل ہوتا ہے۔اگر اس میں حرکت موجود نہ ہو تو وہ اپنی اصلیت کھو بیٹھتا ہے۔آئن سٹائن کے تصورِ زمان میںاُنھیںیہی خامی نظر آتی ہے۔وہ آئن سٹائن کے وقت کو برگساں کے وقت کی طرح مرورِ خالص نہیں سمجھتے۔ (۶)’’ہم اّنائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں‘‘۔ (تیسرا خطبہ)

علامہ اقبالؒ کے فلسفہ کائنات کی رُو سے خدا تعالیٰ(انائے مطلق) اپنے باطنی امکانات کو زمان ومکان کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔اُن کا یہ تصور قرآنی تعلیمات کا عکاس ہے جس میں خدا کو ظاہر  وباطن اور اوّل وآخر کہا گیا ہے۔جب وہ ہر شے کی ابتدا وا نتہا ہے تو پھر ہر شے اپنے وجود اور نمود کے لیے اس کی ذات وصفات کی محتاج رہتی ہے۔ وہ اپنی تجلیات کو ہمارے انفس(ذات،خودی) میں بھی اور آفاق(کائنات)میں بھی ظاہر کرتا ہے۔خدا تعالیٰ کو تمام نفوس وارواح کا مصدور ومنبع خیال کرکے علامہ اقبالؒ انسانی خودی کو بھی اسی کا آئینہ دار کہتے ہیں۔زمان اور مکان وہ مادی اور ظاہری پیمانے ہیں جن کی وساطت سے انائے مطلق اپنے باطنی امکانات کو عیاں کرتی ہے۔اس موضوع کی وضاحت کے لیے فکر اقبال کی روشنی میں درج ذیل اُمور کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔

(الف) علامہ اقبالؒکہتے ہیں کہ مکانی غیر محدودیت کے معنوں میں خدا کی لامحدودیت تصور نہیں کی جاسکتی کیونکہ زمانی اور مکانی بے پایانی مطلق نہیں ہوتی۔ہمارے زمان ومکان کا اطلاق خدا کی ذاتِ لامحدود پر نہیں ہوسکتا جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ؎ حقیقت لازوال ولامکان است مگو د یگر کہ عالم بیکراں است درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرونِ اُو وسعت پذیر است

(کلیات اقبالؒ) 

(ب) زمان ومکان خدا کی خلاّقی شان کی فکری تعبیریں ہیں۔ہم اپنی محدود عقل کے سبب خدا کی لامحدود ذات کے باطنی امکانات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے ہماری عقل انھیں اپنے طور پر سمجھ کر پیش کردیتی ہے۔کائنات کے بارے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "---- Space, time, and matter are interpretations which thought puts on the free creative energy of God. They are not independent realities existing perse, but only intellectual modes of apprehending the life of God." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.65) (ج) انسانی زمان ومکان خدائی تخلیق کے اسرار ورموز کاکامل ادراک نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اپنی محدودیت کے سبب غیر محد ود ہستی ایزدی کے امکانات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے علامہ اقبالؒ نے کہا کہ ہمارے ریاضاتی زمان ومکان انائے مطلق کے جزوی احساسات ہیں۔وہ خدا کی محدودیت کو عمیق خیال کرتے ہیں نہ کہ وسیع۔اس نقطہ نظر سے وہ کائنات کو خدا کی تخلیقی فعالیت کا جزوی اظہار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "The infinity of the Ultimate Ego consists in infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe, as known to us, is only a partial expression. In one word god's infinity is intensive, not extensive" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.64) ہمارا ریاضیاتی زمان تقسیم پذیر‘ محدود اور خارجی ہوتا ہے۔اس میں ماضی، حال اور مستقبل کی تمیز ہوتی ہے ۔اس کے برعکس خدائی زمان میں ایسی حالت نہیں ہوتی۔اسی طرح ہمارا ریاضیاتی مکان اشیا کی لمبائی،چوڑائی اور موٹائی سے وابستہ ہوتا ہے۔ہمارے یہ دونوں فکری پیمانے محدود اور نا تمام ہیں۔ (۷)’’برقیہ مکان سے لگاتار اپنا راستہ طے نہیںکرتا‘‘۔ (تیسرا خطبہ) (۸)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مکانی پہلو بھی رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی کا یہ واحد پہلو نہیں‘‘۔

  کائنات کی تخلیق کے طریق کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات بیان کئے جاتے ہیں۔یہاں علامہ اقبالؒ نے قدیم مسلمان حکما یعنی اشاعرہ کے نظریہ آفرنیش کائنات کی طرف اشارہ کیا ہے۔اشاعرہ کی علمی تحریک دراصل ارسطو اور اس کے متبعین کے نظریہ جمودِ کائنات کے خلاف عقلی بغاوت تھی۔ارسطو نے کائنات کو ساکن اور جامد بنادیا تھا۔ اس نظریہ کائنات کو علامہ اقبالؒ نے ہدف تنقید بنایا ہے۔اُن کی رائے میں یہ کائنات جامد نہیں بلکہ تغیر پسند اور ارتقا پذیر ہے۔ارسطو کے نزدیک خدا چونکہ مطلق طورپر کامل اور آرزو کے بغیر ہے اس لیے وہ کائنات میں اب کچھ نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ اشیا کی ماہیت کے بارے میںغور وفکر کرتا رہے۔ ظاہر ہے کہ علامہ موصوفؒ تو خدا کی مسلسل تخلیقی فعالیت پر یقین رکھتے ہوئے ارسطو کے اس نظریہ جمودِ کائنات کو پسند نہیں کرسکتے تھے۔ لازماً اُنھوں نے اشاعرہ کے تصورِ کائنات کو ارسطو کے نظریہ کائنات پر ترجیح دی ہے۔مکان میں حرکت کے تصور سے متعلق اُنکے افکار کی تلخیص یہ ہے:۔

(الف) اشاعرہ کا نظریہ تخلیق ِکائنات جوہریت پر مبنی ہے۔اُن کی رائے میں کائنات جواہر یعنی چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذرّات سے مل کر بنی ہوئی ہے۔خدا چونکہ ہرلمحہ تخلیقی سرگرمی میں مصروف رہتا ہے اورکائنات میں لاتعداد جواہر معرض وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اس لیے کائنات ہمیشہ متحرک اور ارتقا پذیر رہتی ہے۔ اشاعرہ کے خیال میں جوہر صفت ہستی حاصل کرنے سے قبل خدا کی تخلیقی طاقت میں مخفی رہتا ہے اور وہ مکانیت سے عاری ہوتا ہے۔ جب وہ خارجی پیکر میں نمودار ہوتا ہے تو اس کی نمود دراصل ایزدی طاقت کی نمود کے مترادف ہوتی ہے۔ جواہر مل کر مکان(space) کو جنم دیتے ہیں۔اس طرح مکان مادی شے نہیں بلکہ یہ خدا کے تخلیقی عمل کا دوسرا نام ہے۔ (ب) علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے تصور حرکت جوہر کو زیادہ واضح خیال نہیں کرتے۔مکان میں سے جوہر کے گزرنے کا نام حرکت ہے۔اشاعرہ چونکہ جواہر کے اجتماع پر مکان کو منحصر خیال کرتے تھے اس لیے وہ جوہر کی حرکت کا تسلی بخش نظریہ پیش نہ کرسکے۔ نظام نے کہا کہ جوہر ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک طفرہ(جست،چھلانگ) کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور اسکا گذر مسلسل نہیں ہوتا۔نظام کی رائے میں حرکت کی دو قسمیں ہیں… تیز حرکت اور آہستہ حرکت۔ (ج)نظام کے تصورطفرہ(نظریہ جست) سے ملتا جلتا نظریہ نئے زمانے میں میکس پلانک(۱۹۴۷۔۱۸۵۸ئ) اور پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے پیش کیا تھا۔پلانک جرمن ماہر طبیعیات تھا جس نے جواہر میں درخشاں توانائی کا تصورِ مقدار دے کر ۱۹۱۸ء میں نوبل پرائز حاصل کیا تھا۔پلانک کے نظریہِ مقدار کے مطابق جوہر کی توانائی مسلسل طور پر نہیں بلکہ مطلوبہ مقدار میں خارج ہوتی ہے۔قرآن حکیم کی ایک آیت نے صدیاں پہلے بتادیا تھا:’’ وانِ مّنِ شییً اِلاّ عندنا خزائِنہ‘ وما نُنزّ لہ‘ اِلاّ بقدرِ معلوم‘‘(الحج۱۵:۲۱)( کوئی شے ایسی نہیں جس کے ہمارے ہاں خزانے موجود نہ ہوں لیکن ہم اسے ایک متعین اندازے اور پیمانے کے مطابق باہر لاتے رہتے ہیں)۔ ایسا لگتا ہے کہ اشاعرہ نے اس قرآنی آیت کو مدنظر رکھ کر ایزدی توانائی کے جوہری طریق تخلیق کانظریہ پیش کیا تھا۔پلانک کی طرح پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے بھی یہ کہا تھا کہ برقیہ مکان میں سے اپنا راستہ لگا تار طے نہیں کرتا ہے۔

  علامہ اقبالؒ اس بات سے تو انکار نہیں کرتے کہ انسان کا تعلق خارجی دنیا سے بڑا گہرا ہے لیکن وہ اسے محض زمانی ومکانی پہلوئوں کا مجموعہ قرار نہیں دیتے۔انسان کی زندگی کے دو اہم پہلو مادہ اورروح ہیں۔وہ صرف جسم ہی نہیں رکھتا بلکہ وہ روح کا بھی حامل ہے اس لیے کامیاب، بہتر اور مثالی زندگی گزارنے کے لیے انسان کو مادی تقاضوں کے علاوہ اپنے روحانی تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔قرآن حکیم کی رُو سے انسانی زندگی اعتدال وتوازن پر مبنی ہونی چاہیے۔رسول کریمؐ نے اسے خیر الامور فرمایا ہے۔انسان جب اپنے باطن میں غوطہ زن ہوتا ہے تو اس کا خدا کے ساتھ ربطہ قائم ہوجاتا ہے جو اُس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور جب وہ خارجی دنیا پر نظر ڈالتا ہے تو اسے خدا کے گوناگوں مظاہر سے واسطہ پڑتا ہے۔مادی دنیا اصل میں زمان ومکان کے روابط کا دوسرا نام ہی ہے۔اس لحاظ سے انسانی زندگی محض خارجی ہی نہیں بلکہ وہ باطنی پہلو بھی رکھتی ہے۔

(۹)’’ زمان ومکان کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ)

  علامہ اقبال ؒ نے اپنی نظم ونثر میں زمان ومکان کے موضوع پرا تنا کچھ لکھا ہے کہ وہ ایک ضخیم کتاب میں ہی سما سکتا ہے۔اس اقتباس میں اُنھوں نے زمان ومکان(time and space) کو مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال قرار دیا ہے۔آئیے ہم یہاں اس امر کا جائزہ لیں کہ اُنھوں نے ان دونوں کو مسلمانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں کہا ہے۔سب سے پہلے ہم مکان کا مسئلہ زیر بحث لاتے ہیں۔

مکان: (۱) علامہ اقبالؒ مکان کے قدیم مادی نظریے کے زبردست مخالف ہیں کیونکہ اس نظریے کی رُو سے مکان ایک خلا کی حیثیت رکھتا ہے جس میں چیزیں واقع ہیں۔علاوہ ازیں مادے کو مکان میں مستقل بالذات ازلی اور ابدی شے تصور کیا جاتا ہے۔ (۲) بیشتر قدیم یونانی مفکرین خصوصاً سقراط، افلاطون اور ارسطو نے جمودِ کائنات کا نظریہ پیش کیا تھا۔اس نقطہ نظر سے وہ کائنات کو ساکن اور جامد قراردیتے تھے۔اگر ہم کائنات کو غیر متحرک،غیر ارتقا پذیر اور پہلے سے بنائے ہوئے نقشے کی ہو بہو تصویر سمجھیں تو یہ نظریہ قرآنی تعلیمات اور جدید سائنسی اُصولوں کے خلاف جاتا ہے۔ (۳) آئرش فلسفی برکلے اور بعد ازاں پروفیسر وہائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے افکار نے مادیت کے قدیم نظریے کو غلط قرار دیا۔نیوٹن نے مادے کو مکان میںپھیلی ہوئی مستقل بالذات شے کہا تھا مگر ان تینوں نے مادیت کاابطال کیا۔ وہائٹ ہیڈ نے کائنات کو واقعات کا ایک ایسا مربوط نظام قرار دیا جس میں مسلسل تخلیقی رو جاری وساری رہتی ہے۔ یہ نظریہ خدا کی خلاّ قی فعالیت پر کافی روشنی ڈالتا ہے۔ (۴) علامہ اقبالؒ کی رائے میں قدیم مسلمان حکما مثلاً اشاعرہ،نصیر الدین محقق طوسی، البیرونی، جاحظ اور ابن مسکویہ کے نظریات حرکت کائنات نے یونانی مفکرین کے تصورِ جمود کائنات کی تردید کی۔اُن کی یہ عقلی بغاوت اور تردید قرآنی تصورِ کائنات کی آئینہ دار تھیں۔ (۵) قرآن حکیم مادی کائنات کے حسّی علم اور کائنات کے وجود کو حقیقی،مفید اور قابل مطالعہ قرار دیتا ہے۔مطالعہ کائنات کے بغیر تسخیر کائنات ممکن نہیں۔قرآن حکیم نے ہمیں اشیائے کائنات کو انسانی فلاح وبہبودکے لیے مسخر کرنے کا حکم دیا ہے۔ زمان: (۱) علامہ اقبالؒ زمان کو مکان پر ترجیح دیتے ہوئے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے اس پہلو پر تنقید کرتے ہیں جن کی رُو سے زمان مکان کا چوتھا بُعد بن جاتا ہے۔ وہ لمحہ کو نقطہ سے مقدم اور برتر تصور کرتے ہیں۔ (۲) مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ کائنات میں حرکت و ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ حرکت وارتقا زمان کے بغیر ممکن نہیں۔وہ نفسی زندگی کے بغیر وقت کی حقیقت کے ادراک کو ممکن نہیں سمجھتے۔اس لیے وہ زندگی کی روحانی اساس کے قائل ہیں۔ (ج) وہ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے تصورِ کائنات اور برگساں کے نظریہ زمان سے کافی حد تک متفق ہیں۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے کائنات کو مربوط واقعات کا نظام سمجھا جس میں ہر وقت تخلیقی رو کار فرما رہتی ہے۔قرآن حکیم نے خدا کے بارے میں کہا تھا:’’ کّل یوم ھُو فی ِ شان‘‘اس لحاظ سے خدا کی تخلیقی سرگرمی ہمیشہ جاری رہتی ہے اور زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ (د) علامہ اقبالؒ کو نطشے کے تصور زمان سے اختلاف ہے کیونکہ نطشے نے اسے تکرار ابدی کا حامل کہا تھا۔

  اس مختصر سے جائزے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زمان ومکان کی حقیقت روحانی ہے اور قرآن نے ہمیں کائنات کی تسخیر کا حکم دیا ہے تاکہ ہم بھی اپنے اندر خدائی صفات پیدا کرکے اُنھیں مسخر کرلیں۔قرآن حکیم نے ہماری منزل مقصود خدا تعالیٰ بتائی ہے مثلاً’’واِلیٰ ربک    المنتھٰی‘‘(انجم ۵۳:۴۲) اگر مسلمان زمان ومکان اور کائنات کو غیرحقیقی خیال کریں تو وہ لازماً رہبانیت کا مسلک اختیار کرکے دنیا ودین کی حسنات سے محروم ہوجائیں گے اور ہر قسم کی پسماندگی کا شکار ہوکر غیروں کے محتاج رہیں گے۔ مومن چونکہ خدا ئے ِواحد ہی کو اپنا آقا تسلیم کرتا ہے اس لیے وہ کبھی بھی غیر اﷲ کی غلامی پر رضا مند نہیں ہوگا۔