Actions

ماضی

From IQBAL

Revision as of 19:15, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ کوئی قوم مکمل طور پر اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی سے اُس کے وجود...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ کوئی قوم مکمل طور پر اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی سے اُس کے وجود کی تشکیل ہوئی ہے‘‘۔ ( چھٹا خطبہ) قوموں کے لیے اپنے شاندار ماضی کی روایات کا تحفظ اور احساس انسانی ذات میں حافظہ کا درجہ رکھتا ہے۔حافظہ ہمارے مختلف جذبات، احساسات اور خیالات کی شیراز ہ بندی کرنے کے علاوہ اُن کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہوتا ہے ۔اگر کسی کی یادداشت ہی کام نہ کرے تو وہ انسان نہ صرف دوسروںکی شناخت سے عاجز آجاتا ہے بلکہ وہ اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی صداقت ہے کہ ذاتی تشخص کے بغیر ہماری شخصیت کی صحیح خطوط پر تشکیل وتعمیر ناممکن ہوجاتی ہے۔ جس طرح ذاتی تشخص فرد کی ذات کی تعمیرو استحکام کا باعث بنتا ہے بالکل اسی طرح کسی قوم کا ماضی بھی اس کے حال ومستقبل سے نہ ٹونٹے والا رشتہ رکھتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بھی اس اقتباس میں قوم اور اس کے ماضی کے باہمی ربط کی اہمیت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔اُنھوں نے اپنے اس قول میں دو اہم اُمور کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے:۔ (الف) کوئی قوم بھی کلیتہً اپنے ماضی کو نظر انداز نہیںکرسکتی۔علامہ اقبالؒ نے ماضی کا تذکرہ اسلامی تعلیمات میں تغیرو ثبات کی بحث کے دوران کیا ہے۔اُن کے نزدیک اسلامی تعلیمات میں ابدی اور عالمگیر اقدار کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کی بھی گنجائش ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میںابدی قوانین کا وجود اثبات پر دلالت کرتا ہے جبکہ اجتہاد کی ضرورت اس کے تغیر کی علامت ہے۔ اُنھوں نے یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کردیا ہے کہ اجتہا دکرتے وقت قوم کے ماضی کو مکمل طور پر فراموش نہیںکرنا چاہیے کیونکہ زندگی صرف آگے ہی نہیں دیکھتی بلکہ یہ پیچھے بھی دیکھتی ہے۔ اس نقطہ نگا ہ سے حال کا ایک سرا ماضی سے ملا ہوتا ہے اور اس کا دوسرا سرا مستقبل سے جاملتا ہے جسے اب ہم ماضی کہتے ہیں۔وہ سابقہ قوموں کے لیے بمنزلہ حال تھا۔کچھ عرصہ بعد ہمارا حال بھی ضمیر روزگار میں چھپ کر ماضی بن جائے گا۔علامہ اقبالؒ ’’ رموزِ بیخودی‘‘ میں ماضی‘حال اور مستقبل کے باہمی روابط کی اہمیت اور ماضی کے تحفظ کے بارے میں فلسفہ طرازی کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ دوش را پیوند با ا مروز کن زندگی را مُرغ دست آموز کُن

رشتہ   اّیام    را  آور   بدست       ورنہ گردی روز کوروَ شب پرست
سر  زند   از  ماضی   تو  حالِ  تُو      خیز د  از  حالِ  تو،  استقبالِ  تو

مشکن اَر خواہی حیاتِ لازوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال (کلیات اقبال،ص۱۴۸)

ماضی سے مکمل طور پر رشتہ منقطع کرکے ہماری حالت اُس شاخ کی مانند ہوجاتی ہے جو درخت سے الگ ہوکر موسمِ بہار میں دوبارہ ہری نہیں ہوسکتی۔فرد ربط ملّی کی بدولت ہی زندہ وقائم رہتا ہے۔موج کی مثال لیجیے کہ وہ اس وقت تک موجود ہوتی ہے جب تک وہ دریا کی حدود کے اندر رہ کر دریا سے اپنا رشتہ استوار رکھتی ہے بقول علامہ اقبالؒ:

؎ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں حضرت علامہؒ نے اس میں ایک اہم نکتہ یہ پیدا کیا ہے کہ ماضی کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔اس سے معلوم ہوا کہ ماضی کی ساری روایات‘ اقدار اور فکری میلانات کی پیروی لازمی نہیں کیونکہ اس زمانے کے بعض حالات اور واقعات کافی بدل جاتے ہیں جن کا موجودہ دور سے تعلق باقی نہیں رہتا۔علامہ اقبالؒ کی یہ اعتدال پسندی اور میانہ روی اُن کی دور اندیشی اور جدت ِفکر کی غماز ہے۔بعض حضرات تو ماضی کی ہر بات کو قابلِ عمل خیال کرتے ہیں جبکہ اُن کے مخالفین ماضی کو سراسر مردود ونامنظور قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ افراط وتفریط کا شکار ہوکر حقیقت کی منزل سے دور چلے گئے ہیں۔ (ب)علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول کے دوسرے جزو میں یہ کہا ہے کہ قومی وجود کی تشکیل ماضی ہی سے ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے ماضی کو مکمل طور پر نظر انداز کردینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی احسان فراموش بچہ بڑا ہوکر اپنی ماں کے وجود سے ہی انکار کردے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ وہ اجتہاد کے زبردست قائل ہیں لیکن وہ اسلامی قوانین کی حدود کے اندر ہی زمانے کے نئے نئے مسائل کا حل دریافت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ کیاکبھی کوئی درخت اپنی جڑوں کی حفاظت و استحکام کاخیال رکھے بغیر زیادہ دیر تک زند ہ رہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میںہی دیا جائے گا۔علامہ اقبالؒ کے افکار اتنہاپسندی پر مبنی نہیں بلکہ وہ توازن بدوش ہونے کی حیثیت سے ماضی و مستقبل، جدت وقدامت،ذکر وفکر اور ایمان و آگہی سے پیوستہ ہیں۔وہ سوسائٹی کی نئی تبدیلیوںکی حمایت میں اسلام کی درخشاںدیرینہ روایات کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ ثبوت کے طورپر اُن کے چند اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں: ع: میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو

؎عطا اسلام کا جذب دروں کر      شریک  زمرئہ  لا   یحز نوں  کر
خرد  کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں      مرے مولا!مجھے صاحب جنوں کر

؎ شنیدم آنچہ از پاکانِ اُمتّ ترا با شوخی ٔ رندانہ گفتم

علامہ اقبالؒ اجتہاد کا رشتہ ماضی سے استوار رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"---in any view of social change the value and function of the forces of conservatism cannot be lost sight of." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.167)

اُن کی رائے میں کم نظرعلما کے اجتہاد سے تو اسلاف کی پیروی زیادہ محفوظ اور بہتر ہے کیونکہ کم نظر علما غلط قرآنی تعبیرات اور ذاتی مفادات کے تحت قومی انتشار کا سبب بن جائیں گے۔ یہ خود اُن کی زبانی سنیئے اور اُن کی میانہ روی کی داد دیجیے:

؎ زا جہتاد عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر (کلیات اقبال،ص ۱۲۵)