Actions

مادہ پرستی

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ طبیعیات نے اپنے اساسی نظریات کی تنقید کی ضرورت کو محسوس کرکے آخر کار اپنے ہی بت کو پا ش پاش کردیا ہے اور وہ تجرباتی طریقِ کار جو سائنسی مادیت کی حمایت کرنے کے لیے معرض شہود میں آیا تھااُس کا انجام یہ ہوا کہ اس نے اب مادہ پرستی کے خلاف علم ِ بغاوت بلندکردیا ہے۔ لیکن مادّے کے نظریے کو آئن سٹائن کے ہاتھوں ضربِ کاری لگی ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے ان الفاظ میں مادّے کے قدیم روایتی تصور کے خلاف سائنس کے موجودہ نظریہ مادہ کی بغاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادہ پرستی کو آئن سٹائن کے نظریات نے مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس میں جن اُمور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں: (الف )طبیعیات نے اپنے بنیادی نظریات کی تنقید کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طبیعیات کیا ہے؟ مختصر طور پر یہ سمجھ لیں کہ اس علم کا عالم ِطبیعی(مادی یا خارجی دنیا) کے ساتھ نہ ٹوٹنے والارشتہ ہوتا ہے۔ علم طبیعی کی مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت پر بنیاد استوار کی جاتی ہے۔ اس طرح اس کی نظریاتی اساس محسوسات اور ظواہر کے بغیر تصور نہیںکی جاسکتی۔ طبیعیات مادی اشیا کے باہمی تعلقات اور ان کے قوانین کی وضاحت وتعبیر کا نام ہے۔ اس میں مادّہ کی نوعیت، اس کی صفات اور توانائی کی مختلف شکلوں سے بحث کی جاتی ہے۔ یہ تمام اُمور طبیعیات کے بنیادی نظریات کا درجہ رکھتے ہیں۔مادّے(matter) کے بارے میں قدیم نظریہ یہ تھا کہ مادّہ کائنات کی ہر چیز کی تخلیق کی اصل ہے اور یہ مختلف تبدیلیوں کے باوجود کبھی ختم نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں مادّے کو شعور کا باعث خیال کرکے اسے شعور پر تقدم دلایا جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں بشپ جارج برکلے ‘پروفیسر وہائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے نظریات نے طبیعیات کے ان بنیادی تصورات پر زبردست تنقید کرکے مادّہ پرستی کا ابطا ل کیا ہے۔ (ب)طبیعیات نے آخر کار اپنے ہی بت کو پاش پاش کردیا ہے۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ طبیعیات نے عالمِ محسوسات اور مادی اشیا کو بت کی طرح پوجنا شروع کردیا تھا۔ یہ علم مادّہ اور حواس پر ہی ہر شے کا وجود منحصر خیال کرتا تھا۔ مگر جدید نظریات نے حسّی علم اور مادّی نقطہ نگاہ کے کھوکھلے پن کو بری طرح آشکار ا کردیا ہے۔ شاعرِ مشرق علم طبیعی اور محسوسات کے بنیادی اور گہرے ربط کی اہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: "---Physics studies the material world; that is to say, the world revealed by the senses--phyics is restricted to the study of the material world, by which we mean the world of things we perceive." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p32)

اس سے معلوم ہوا کہ محسوسات کے بغیر طبیعیات کے نظریات کا تانا بانا تیار نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ محسوس پرستی کا بت تھا جس کی طرف علامہ اقبالؒ نے یہاں اشارہ کیا ہے۔وہ اپنی ایک نظم’’مذہب‘‘ میں حسّی اور ظاہری علوم اور مذہبی عقائد کے بارے میں کہتے ہیں:
             ع: اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
(کلیات اقبال، ص۲۴۶)

آئر لینڈ کے مشہور ومعروف فلسفی جارج برکلے نے سب سے پہلے مادہ پرستی کے بت پر ضرب ِکاری لگاتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مادی اشیا کا وجود اور ان کی خصوصیات کا احساس ہماری فکری تعبیر کے سبب ہیں۔دوسرے الفاظ میں اس نے مادّہ اور اسے محسوس کرنے والے ذہن میں باہمی ربط ثابت کیا۔اُس کی رائے میں مادے کی صفات درحقیقت وہ احساسات اور تاثرات ہیںجوہمارے ذہن میںجنم لیتے ہیں۔برکلے سے پہلے ایک انگریز فلسفی جان لاک نے۱۶۹۰ء میں ایک مضمون انسانی فہم وادراک کے بارے میں لکھا تھا جس کا عنوان تھا’’انسانی ادراک کے متعلق مضمون‘‘ اس میں اُس نے یہ ثات کرنے کی کوشش کی تھی کہ علم کاحسّی تجربات پر دارومدار ہوتا ہے۔وہ حواس ہی کو حصول علم کا واحد معتبر ذریعہ سمجھتا تھا۔بعد ازاں آئرش فلسفی بشپ جارج برکلے(۱۷۵۳۔۱۶۸۵ئ) نے جان لاک کے تصور مادّہ کی زبردست تردید کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مادی اشیا کا وجود محض ہمارے باطنی احساس پر منحصر ہوتا ہے۔اسی طرح ’’داخلی عینیت‘‘ Subjective Idealism)) کا علمِ بردار بن گیا تھا۔ اُس کا ایک بہت مشہورمقولہ ہے:to be is to be percived یعنی موجود ہونا باطنی احساس کے مترادف ہے۔اس ضمن میں اسکی تحریر ’’Treatise Concerning the Principles of Human Knowledge‘‘ کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔برکلے کے خیال میں نفسی کیفیات اور باطنی تغیرات کی مادّے پر بنیاد نہیں بلکہ شعور ان کی اساس ہے۔وہ مادی چیزوں کی صفات مثلاً رنگ‘آواز‘ ذائقہ وغیرہ کو نفسی کیفیات اور باطنی تاثرات قرار دیتا تھا۔اُس نے مزید کہا کہ مادّے سے ہمارے ذہن میں جو تصورات پیدا ہوتے ہیں ان کے وجود پر ہم کو کوئی اختیار نہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصلی خالق کوئی اور عظیم ترین ہستی ہے۔وہ اسے آفاقی ذہن یا خدا کہتا ہے۔علامہ اقبالؒ برکلے کے اس عملی کارنامے کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: "It was the philosopher Berkeley who first undertook to refute the theory of matter as the unknown cause of our sensations." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.33)

اس موضوع سے متعلق شاعرِ مشرق کے مندرجہ بالا اشعار بھی ہماری خاص توجہ کے طالب ہیں۔وہ فرماتے ہیں:

؎ بہار برگِ پراگندہ را بہم بربست نگاہِ ماست کہ برلالہ رنگ وآب افزود (کلیات اقبال، ص۳۱۳) ؎ جہاں کوراست واز آئینہ دلِ غافل افتاد است ولے چشمے کہ بینا شدنگاہش بردلِ افتاد است (کلیات اقبال،ص ۴۹۴) (ج)سائنسی مادیت کے حامل تجرباتی طریقِ کار نے اب خود مادیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا ہے۔سائنس سے آگاہ حضرات جانتے ہیں کہ طبیعیات تجرباتی علم کی حیثیت سے محسوسات پر مبنی معلومات اور حقائق سے بحث کرتی ہے۔ ماہر طبیعیات مادی اشیاء اورخارجی مظاہر سے اپنے مطالعہ ومشاہدہ کا آغاز کرتا ہے اور یہی اس کا منتہائے نظر بھی ہے۔ اس لیے وہ محسوس اور دیدنی چیزوں کے بغیر اپنے نظریات کی تصدیق نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپنے مطالعہ کائنات کے دوران طبیعیات اپنے حسّی تجربات سے ذہنی،جمالیاتی اور مذہبی تجربات کو خارج کردیتی ہے کیونکہ اس کا مطالعہ محسوسات تک ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اس سائنسی تجربے نے مادیت کو فروغ دیا تھا۔ اب اسی تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ حقیقی علم کا دار ومدار مادّے اور اس کی خصوصیات پر نہیں بلکہ ہمارے باطنی احساس اور اندرونی تصور پر ہے۔اسی طرح مادیت ایک ذہنی خیال کی پیداوار بن جاتی ہے۔شاعرِ مشرق کے یہ اشعار بھی بے محل نہ ہوں گے۔وہ کہتے ہیں: ؎ نگہِ اُ لجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں خرد کھوئی ہوئی ہے چار سُو میں نہ چھوڑ اے دل! فغان صبح گاہی اماںِ شاید ملِے اﷲ ھُو میں (کلیات اقبال،ص ۳۷۵) ؎ بچشمِ عشق نگر تا سراغِ اُو گیری جہاں بچشمِ خرد سیمیا ئو نیرنگ است (کلیات اقبال،ص۷۲۱) مادّے کے نظریہ کو آئن سٹائن کے ہاتھوں ضربِ کاری لگی ہے۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ دورِ حاضر کا ایک معروف طبیعیات دان آئن سٹائن(۱۹۵۵۔۱۸۷۹ئ) مادیت کا زبردست مخالف ہے۔آئن سٹائن نے۱۹۱۶ء میں مادّے اور توانائی کے بارے میں اپنا نظریہ اضافیت پیش کرکے زبردست فکری انقلاب پیدا کیا اور مادہ پرستی کو ضربِ کاری لگائی ہے۔ مادّے کا قدیم تصور یہ تھا کہ مادہ زمان میں مستقل رہ کر مکان میںحرکت کرتا ہے۔آئن سٹائن کے نظریے نے اسے غلط قرار دیا تھا۔اب مادہ بدلتی ہوئی حالتوں کی مستقل بالذات چیز نہیں بلکہ یہ باہمی روابط کا نظام ہے۔ اب اسے ٹھوس چیز نہیں سمجھا جاتا۔علامہ اقبالؒ کی ذاتی رائے اور تنقید ملاحظ ہو: "---the traditional theory of matter must be rejected for the obvious reason that it reduces the evidence of our sences--to the mere impressions of the observer's mind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p 33) علامہ اقبالؒ اسے شوخی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں: ؎ بچشمِ ماچمن یک موجِ رنگ است کہِ می دا ند بچشمِ بلبلاں چیت؟ (کلیات اقبال،ص ۲۱۸) (۲)’’ اسلام میں روحانی دنیا اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ (چھٹا خطبہ)

  قرآن حکیم نے انسانوں کی زندگی کے تمام اہم شعبہ جات کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہمیں عطا کیا ہے جس میں دین ودنیا، مذہب وسیاست، جسم وروح اور فرد اور جماعت کے تقاضوں کی تکمیل شامل ہے۔اسلام ایک ایسی وحدت ہے جس کا تجزیہ وتقسیم ناممکن ہے۔علامہ اقبالؒ ترکی کی دو اہم سیاسی جماعتوں نیشنلسٹ پارٹی اور مذہبی اصلاح پارٹی کے نظریات حکومت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست اور دین کو جداگانہ تصور نہیںکرتے جیسا کہ ترکی کی نیشلسٹ پارٹی کا تصور تھا۔مذہبی اصلاح کی حامل جماعت سیاست کو اسلام سے الگ کرنے کے خلاف تھی۔اس اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے اس امر کی نشاندہی کی ہے۔ان اُمور کی یہاں قدرے وضاحت کی جاتی ہے:

(الف)دنیا اور آخرت اسلام کی تعلیمات کی رُو سے ایک ہی حقیقت کے دو مظاہر ہیں۔ایک کا تعلق خارجی،مادی،ظاہری اور نظر آنے والی دنیا سے ہے جبکہ دوسری دنیا کا تعلق باطنی‘روحانی اور دکھائی نہ دینے والی دنیا سے ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس سے پہلے بیان کیا ہے کہ خارجی اشیاء کی اصل روحانیت ہے۔اُنھوں نے اشاعرہ کے تصورِ تخلیق کائنات کے ضمن میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ کائنات کا جواہر پر،جواہر کا مکانیت پر، مکانیت کا زمان پر اور زمان کا نفسی زندگی پر دار و مدار ہے اس لیے کائنات کی اصل روحانی ہے۔علاوہ ازیں اُنھوں نے جوہر کی مکانی اور خارجی صورت کو ایزدی توانائی(Divine energy) کا کرشمہ قرار دیا تھا۔اس نقطہ نظر سے مادہ خدا کی تخلیقی سرگرمی اور ایزدی فعلیت ہے۔ (ب)اسلام کی عقیدہ توحید پر بنیاد ہے اس لیے یہ کسی قسم کی ثنویت(dualism) کو برداشت نہیں کرسکتا۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے:’’ اُدخلوا فی السِّلم کافتہ‘‘(تم اسلام میں مکمل طور پر داخل ہوجائو)۔اس خدائی حکم کے تحت ہماری زندگی کا کوئی گوشہ بھی قرآنی تعلیمات کی نورانی کرنوں سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔

علامہ اقبالؒ کی رائے میں حکومت اور سیاست کو مذہب سے خیال کرنا کسی طرح بھی مفید نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔عیسائیت میں چونکہ سیاسی زندگی کی راہنمائی کی تعلیم نہیں تھی اس لیے عیسائیوں نے مجبوراً مذہب اور سیاست کو الگ کردیا مگر اسلام شروع ہی سے معاشرتی،اخلاقی اور اجتماعی فلاح کا علم بردار رہا ہے اس لیے اس میں ایسی تفریق درست نہیں۔اس موضوع سے متعلق شاعرِ مشرقؒ کے یہ افکار دیکھئے۔ و ہ کہتے ہیں :

(1)"In Islam God and universe, spirit and matter, church and state, are organic to each other." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.163) (2)"Islam is not a creed, it is social code," (Letters and Writings of Iqbal,p.59) (3)"The Ultimate Reality, according to the Quran, is spiritual , and its life consists in its temporal activity." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p155) قرآن حکیم نے تو ہمیں تسخیر کائنات کا حکم دیا ہے مثلاً’’ سخّر لکُم ما فیِ السّموٰات وما فیِ الارضِ جمِیعًا‘‘(۱۳:۴۵))آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ تمھارے لیے مسخر کردیا گیا ہے(۔ظاہر ہے کہ تسخیر فطرت مطالعہ فطرت کے بغیر ناممکن ہے۔مطالعہ فطرت کے لیے اس مادی دنیا کو حقیقی‘ قابل اعتبار اور مفید خیال کرنا اشد ضروری ہے وگرنہ یہ کام ممکن نہیں ہوسکے گا۔اب اس سے اغماض کی مذمت کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم     جس نے  مومن کو بنایا  مہ وپرویں کا امیں

(کلیات اقبال،ص۴۷۸)

اسلام میں ہر وہ فعل روحانی ہے جو خدا طلبی اور خدا تعالیٰ کی رضا اور حکم کے مطابق کیا جائے۔

(۳)’’ جوہر‘صفت حیات کو حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے‘اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ (تیسرا خطبہ )

اس کائنات کے طریق کار کے بارے میں ہر فلسفی اور مفکر نے اپنی اپنی فکر کے مطابق رائے زنی کی ہے۔بعض دانشور اس کی تخلیق کے مادّی تصور کے حامی ہیں یعنی وہ مادّی ذرّات ہی کو ازلی خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس بعض اہل فکر اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو لفظ’’کُن‘‘ سے پیدا کیا ہے اور مادہ بعد میں ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لحاظ سے فلاسفہ اور مفکرین کے دو بڑے گروہ مادہ پرستوں اور روحانیت پرستوں میں بٹ گئے۔اس اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے مشہور مسلمان فلاسفہ(اشاعرہ) کے نظریہ تخلیق کائنات کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس بیان میں دو اہم اُمور وضاحت طلب ہیں یعنی جوہر کیا ہے اور اس کی ماہیت روحانی کیسے ہے۔ذیل میں چند تصریحات درج کی جارہی ہیں :۔

(الف) زندگی پانے کے بعد جوہر(atom) مکانیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔اشاعرہ کا نظریہ کائنات دراصل جوہریت پر مبنی ہے۔ارسطو اور اس کے پیروکاروں کی رائے میں کائنات کو ازلی اور ابدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ حضرات کائنات کو حرکت اور ارتقا پذیری کا مظہر خیال نہیں کرتے۔اشاعرہ نے اس غیر قرآنی تصورِ کائنات پر تنقید کرتے ہوئے نظریہ جواہر پیش کیا جس کی رُو سے خدا کی تخلیقی سرگرمی کی بدولت لاتعداد چھوٹے چھوٹے ذرّات معرض وجود میں آکر کائنات کو حرکی اور ارتقا پذیر بناتے ہیں۔اشاعرہ کی رائے میں جوہر قائم بالذّات نہیں ہوتا بلکہ حصول زندگی سے پیشتر وہ خدا کی تخلیقی فعلیت میں مخفی رہتا ہے اور جب خدا اسے صفت حیات عطا کرتا ہے تو وہ خارجی پیکر میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک لاتعداد جواہر( چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذرّات) اور نقاط مکان کے وجود اور پھیلائو کا باعث بنتے ہیں اس لیے وہ خود مکانیت سے خالی ہیں۔اس لحاظ سے مکان درحقیقت مادی شے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے۔اشاعرہ حرکت مسلسل کی بجائے طفرہ(جست یا چھلانگ) کے قائل تھے۔دوسرے الفاظ میں وہ مکان(space) کے مستقل وجود پر یقین نہیں رکھتے تھے۔علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کائنات کو حرکی اور ارتقا پذیر خیال کرتے ہوئے اسے ارسطو کے تصورِ جمود کائنات سے بہتر اور قرآن کے زیاد ہ نزدیک قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں قرآن حکیم کی یہ آیت قابل غور ہے :’’ یزیُد فی الُُخلق مایشائ‘‘(۱:۳۵)( اﷲ اپنی مشیت کے مطابق تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے)۔ علامہ اقبال اس قرآنی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اشاعرہ کے تصورِ تخلیق کائنات کا ان الفاظ میں خلاصہ پیش کرتے ہیں:

"Fresh atoms are coming into being every moment, and the universe is therefore constantly growing. As the Quran says: 'God adds to His creation what He wills'. The essence of the atom is independent of its existence."

(The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.68)
علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے بجاکہتے ہیں کہ وہ جوہر کی پیدائش سے قبل اس کی مکانیت کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ وہ کہتے تھے کہ جب جوہر خدائی خلاقی کی بدولت نمودار ہوتا ہے تو وہ مکانی بن جاتا ہے۔

(ب)اشاعرہ کی رائے میں جوہر کی ماہیت روحانی ہے۔ اشاعرہ نے اپنے نظریہ آفرنیش کائنات میں اُصول حادثاتِ کو بھی شامل کیا تھا۔ وہ حادثاتِ وواقعات کی مسلسل تخلیق کے بغیر جواہر کے وجود کے تسلسل کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس نقطہ نگاہ سے اگر خدا حادثات کی تخلیق کا سلسلہ بند کردے تو پھر جواہر کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔علامہ اقبالؒ کو اُن کے اس پہلو سے اتفاق نہیں کیونکہ حضرت علامہؒ کے نزدیک روح یا تو مادّے کی لطیف ترین شکل بن جاتی ہے یا وہ حادثہ ہوجاتی ہے۔وہ روح کو مادّے کی لطیف ترین قسم قرار دینے کوخالص مادیت خیال کرتے ہیں اور اگر اسے حادثہ کہا جائے تو یہ اشاعرہ کے تصورِ کائنات کے خلاف ہے۔علامہ اقبالؒ جوہر کی مکانی حرکت کو وقت کے بغیر اور وقت کو نفسی(psychic) زندگی کے بغیر ممکن خیال نہیں کرتے۔چونکہ جوہر کی مکانی شکل خدائی توانائی کا ایک خارجی پہلو ہے اور جوہر کا نفسی زندگی پر دارومدار ہے اس لیے اس کی ماہیت روحانی ہے۔اس استدلال کا سہارا لیتے ہوئے علامہ اقبالؒ نفس(روح) کو خالص عمل اور جسم کو اس کا خارجی اور قابل پیمائش پہلو قرار دیتے ہیں۔ اُن کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:

"The 'Nafs' is the pure act; the body in only the act become visible and hence measurable."

(The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.70) علامہ اقبالؒ اشعار میں اسے یوں بیان کرتے ہیں: ؎ بجاں پوشیدہ رمزِ کائنات است بدن حالے زا حوالِ حیات است

   عروس  معنی از صورت حناِ بست     نمود   خویش  را   پیرایۂ  بست    

(کلیات اقبال ص ۵۴۷)