Actions

لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

From IQBAL

لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے

وائے ناکامی، فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے

آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے

دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے

جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو
آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے

پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!

اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے