Actions

Difference between revisions of "قرآن حکیم"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ قرآن ِحکیم وہ کتاب ہے جو تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیتی ہے‘‘ (دیباچہ) علا...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(One intermediate revision by one other user not shown)
(No difference)

Latest revision as of 01:03, 20 July 2018

(۱)’’ قرآن ِحکیم وہ کتاب ہے جو تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیتی ہے‘‘ (دیباچہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور نثر میں قرآنِ حکیم کی درخشاں اور حیات بخش تعلیمات کے متعدد گوشوں کو اپنے مخصوص انداز بیان میں بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔اُنھوں نے اپنے خطبات کے آغاز میں یہ کہا ہے کہ قرآن حکیم نے تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیا ہے۔قرآن حکیم چونکہ زندگی کے تمام پہلوئوں میں مشعلِ ہدایت ثابت ہوتا ہے اس لیے وہ ہماری زندگی کے کسی بھی اہم گوشے کو نظر انداز نہیں کرتا۔انسانی زندگی کے بارے میں یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ انسان کی زندگی جذبات، احساسات اور خیالات کے علاوہ اعمال سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔جس قدر ہمارے جذبات اور افکار اہم ہیں‘اسی قدر ہمارے اعمال وافعال بھی اہمیت کے حامل ہیں۔قرآن حکیم نے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خوشگواری اور فلاح کے لیے بنیادی محکم اور ابدی اُصول دئیے ہیں جو ہر دور میں انسانیت کی فلاح وبہبود کا باعث بنتے رہیں گے۔آئیے ہم دیکھیں کہ قرآن حکیم نے ہمارے عقائد واعمال کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے۔ (ا) قرآن حکیم خدا تعالیٰ کا عطا کردہ مکمل ضابطہ حیات اور صحیفہ ہدایت ہے۔قرآن حکیم نے ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے افکار،نظریات،احساسات،جذبات بلکہ خیالات کی اصلاح وتطہیر پر زور دیا ہے۔چونکہ ہمارے اعمال ہمارے افکار ہی کے غماز ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ان کی پاکیزگی ضروری ہے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کو ہمارے ہر فعل میں ہمارا حاکم بنانے پر زور دیتا ہے تاکہ ہم لامحالہ ہر شعبہ حیات میں کی بلا شرط اطاعت اختیار کرسکیں۔جب خدا تعالیٰ کا تصور ہمارے دل ودماغ میں اچھی طرح جاگزیں ہوجائے گا تو ہم اپنی عملی زندگی میں اس کا ثبوت بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔خدائی قوانین کی ابدی صداقت کا یقین اور اس کی ہمہ وقت اطاعت کا تصور ہی ہمارا عقیدہ اور ایمان ہوتا ہے۔ایسی حالت میں ہم بلا چون وچرا اس کو ہر کام میں اپنا حاکم خیال کرنے لگتے ہیں۔ (ب) ایمان، عقیدے، اور تصور کی پختگی کے بعد قرآن حکیم ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے عمل سے بھی اپنے قول کا ثبوت دیں۔ کسی بات کو محض عقلی طور پر ماننے کے بعد اس کے مطابق عمل نہ کرنا منافقت اور بزدلی کی علامت ہے۔علامہ اقبالؒ خرد کے ساتھ ساتھ ہمارے دل ونگاہ کو بھی مسلمان دیکھنے کے خواہاں ہیں جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں: ؎ خرد نے کہہ بھی دیا لا اِلہٰ تو کیا حاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں (کلیات اقبال،ص ۴۹۷) قرآن میں ہمیں حکم ہوتا ہے:’’ لقد خلقٰنا اِلا نسان فیِ کبد‘‘ (البلد ۹۰:۴)(ہم نے انسان کو جفاکشی کے لیے پیدا کیا ہے)۔ قرآن حکیم نے ہمیں زمین پر اپنا نائب قرار دیا ہے۔کیانائب ایزدی کو بے عمل اور ناکارہ تصور کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔اب عمل کے بارے میں حضرت علامہؒ کے یہ اشعار دیکھئے: ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے

 ؎ تن  بہ  تقدیر‘ ہے آج ان  کے عمل کا انداز          تھی نہاں جن  کے ارادوں  میں  خدا  کی تقدیر     

(ایضاً،ص۴۷۸) (۲)’’قرآن کی رُو سے اس کائنات کی اصلیت کیا ہے جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں؟ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق محض دل لگی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے… قرآن گردش لیل ونہار کو خدا کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار کرتا ہے۔اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان آیات الہٰی پر غور وخوض کرکے تسخیر فطرت کے لیے نئے نئے ذرائع معلوم کرے‘‘۔ (پہلا خطبہ)

علامہ اقبالؒ کے اس قول میں چند ضروری کائناتی حقیقتوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کی گئی ہے؟اُنھوں نے کائنات، مظاہر فطرت اور خدا کی خلاقی صفت کو اہل دانش کے لیے عظیم نشانی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں قرآنی نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے:

(الف) کائنات کی آفرنیش محض دل لگی کا نتیجہ نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہے۔ بعض اہل فکر ودانش کائنات کے وجود کے تو قائل ہیں مگر وہ اس کے خالق کی ہستی پر یقین نہیں رکھتے۔حکماء کا دوسرا گروہ اسے محض حادثہ کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس لیے وہ اسے مقصدِ تخلیق سے عاری کہتا ہے۔مفکرین کا تیسرا گروہ کائنات کی تخلیق کو برحق ماننے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ شر اور غم کو عیاں دیکھتا ہے۔قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ خدا کا کوئی فعل بھی حکمت بالغہ اور مقصدیت سے خالی نہیں ہوتا اس لیے اس کائنات کی پیدائش کی بھی خاص غرض وغایت ہے۔ارشاد ربانی ہے:’’ما خلُقت ھٰذا باطلاً‘‘ (اے خدا! تو نے اسے بیکار پیدا نہیں کیا)۔کیا یہ ہماری حماقت نہیں کہ ہم اپنے کاموں کو تو بامقصد سمجھیں اور خدا کے کاموں کو غبث خیال کریں؟ ع: بریں عقل ودانش ببایدگر یست۔ علامہ اقبالؒ ہر نوع کی زندگی اور مقصدیت کے باہمی تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ ؎ آرزو جانِ جہان رنگ وبو است فطرت ہر شے امینِ آرزو است (کلیات اقبال،ص۱۶) (ب) حضرت علامہ اقبالؒ مزید کہتے ہیں کہ دن اور رات کی تبدیلی کو قرآن حکیم خدا تعالیٰ کی عظیم نشانی قرار دیتا ہے۔قرآن حکیم نے بار بار اشیائے کائنات کی تخلیق، گردش ِروز وشب،تبدیلی موسم،نباتات،حیوانات اور انسان کی پیدائش اور فطرت کے حسین مناظر کے گہرے مطالعہ پر زور دیا ہے تاکہ انھیں دیکھ کر ہم خدا کی ہستی پر بھی ایمان لائیں اور اپنی زندگی کے مادی پہلو کو بھی بہتر بناسکیں۔ (ج) خدا کی ظاہری اور باطنی آیات(نشانات) ہمارے انفس اور آفاق میں موجود ہیں۔ اسلام چونکہ زندگی کا متوازن نظریہ پیش کرتا ہے اس لیے یہ مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل پر زور دیتا ہے۔روحانیت پرستوں اور رہبانیت کے علم برداروں کے برعکس یہ خارجی اور مادی زندگی کو بھی انفرادی اور اجتماعی خوشحالی اور بہتری کا ذریعہ خیال کرتا ہے۔یہ باطن اور ظاہر دونوں کی افادیت کا معترف اور تسخیر فطرت کے نئے نئے ذرائع تلاش کرنے کا نقیب ہے۔سقراط اور اس کے پیروکار صرف باطنی دنیا ہی کو لائق مطالعہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے بتایا کہ زندگی محض باطن پر ہی منحصر نہیں بلکہ خارجی دنیا بھی ہمارے غور وفکر کی مستحق ہے۔زمانہ قدیم میں جب انسانی شعور ہنوز طفولیت کے عالم میں تھا تو انسانوں نے مختلف طاقتوں کی پوجاشروع کردی تھی مگر جوں جوں شعور میں پختگی آتی گئی‘اُنھوں نے مظاہر فطرت کو مسخر کرنا شروع کردیا۔ قرآن حکیم نے تسخیر کائنات کا درس دیتے ہوئے یہ انقلابی اعلان کیا تھا:’’سخّر لکُم ما فی السٰمٰوات وما فیِ الارضِ جمعیًا‘‘(الجاشیہ۴۵:۱۳)(ہم نے تمھارے لیے ارض وسما کی تمام اشیا ء کو مسخر کردیا ہے )۔ اقبالؒ کا یہ وجد آور شعر پڑھیے:۔ ؎ مذہب زندہ دلاں خوابِ پریشانے نیست از ہمیں خاک جہانِ دگرے ساختن است (کلیات اقبال،ص۴۹۱) (۳)’’ قرآن کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت عالم کے خارجی پہلو کے مطالعہ ومشاہدہ پر بہت زور دیتا ہے۔اس عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ذریعے قرآن انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے۔ قرآن نے اپنے مقلدین کے اندر یہ تجرباتی طریقِ کار پیدا کرکے اُنھیں جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا‘‘ (پہلاخطبہ) قرآن حکیم نے کائنات کے خارجی مظاہر کے مطالعہ پر زور دے کر مسلمانوں کے اندر سائنسی تحقیق کا ذوق وشوق پید اکردیا تھا جسکا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جدید سائنس کے بانی بن گئے تھے۔ کیا یہ اس حکمتِ قرآنی کا اعجاز نہیں کہ مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات پر عمل کرکے نباتیات‘ حیوانیات، طب، ریاضیات اور دیگر علوم وفنون میں یہ طولیٰ حاصل کیا اور مغربی قوموں کو ان سے آشنا کیاجبکہ یورپ میں جہالت کا دور دورہ تھا۔نزولِ قرآن سے پہلے وہی عرب ہر قسم کے جرائم اور توہمات کا شکار تھے مگر حامل ِ قرآن بن کر وہ صحرانشین دوسروں کوعلم وحکمت کا درس دینے لگے تھے۔علامہ اقبالؒ نے یہاں قرآن کی تین اہم صفات کا ذکر کیا ہے: (ا) و ہ کہتے ہیں کہ قرآن حقیقت مطلقہ کے خارجی‘مادی اور دیدنی پہلو کے مطالعہ ومشاہد ہ پر بہت زور دیتا ہے۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہر نظام کو چلانے کے لیے چند قوانین اور اُصول وضع کئے جاتے ہیں۔کیا خدا تعالیٰ نے بھی اس عظیم کائنات کو چلانے کے لیے خاص قوانین وضع نہیں کئے؟ہمارا جواب یقینا اثبات میں ہوگا کیونکہ یہ کائنات لگے بندھے اُصولوں کے مطابق رواں دواں ہے۔ارشارباری تعالیٰ ہے:’’ لن تجدِ لسنتہ اﷲِ تبدیلاِ‘‘(الاحزاب۳۳:۶۲) (تو اﷲ کی سنّت یعنی(قوانین خداوندی) میں کبھی تبدیلی نہیں پائے گا‘‘)۔ (ب) کائنات کے مطالعہ ومشاہدہ کی بنا پر قرآن انسان کے اندر خدا تعالیٰ کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی آئینہ دار یہ کائنات ہے۔قرآن حکیم نے خالقِ کائنات کے بارے میں یہ کہا ہے:’’ ھُو الّظاہرُ والباِطنِ‘‘(۳:۵۷)( اﷲ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی )۔جب ہم مظاہر فطرت کو دیکھتے ہیں تو ہم خدا کی قدرت ِکاملہ اور حکمتِ بالغہ کی نشانیاں دیکھ کر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور ناظم ہے۔اسی طرح ہمارے دل ودماغ میں خدا کی معرفت پیدا ہوتی ہے اور ہم اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔خدا اپنی نشانیوں کے ذریعے ظاہر تو ہے مگر اس کی حقیقت ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اس لیے وہ باطن بھی ہے۔ (ج) قرآن نے مطالعہ فطرت کے سبب مسلمانوں کے اندر تجرباتی طریق کار پیدا کرکے اُنھیں جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا۔قرآن کی یہ آیت ملاخطہ ہو:’’ وما خلقنا السّمآ و الارضِ وما بینھما لِٰعبیُن‘‘ (الانبیا۲۱:۱۶) (اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان چیزوں کو کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا)۔ اس طرح قرآن نے ہمیں بتایا کہ اس کائنات کی پیدائش بلا مقصد نہیں۔ہندو فلسفہ میں تخلیق کائنات کو’’رام لیلا‘‘ قرار دیا گیا ہے یعنی یہ دنیا خدا کا رچایا ہوا ناٹک ہے۔قرآن اس تصور کی پر زور انداز میں تردید کرتا ہے۔ یہ دنیا بالحق بنائی گئی ہے اور انسان کو قدرت نے تخلیقی سرگرمی سے نوازا ہے۔اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسے اجتماعی مفاد،زندگی کی خوشحالی اور اپنی خودی کے استحکام کے لیے مسخر کرے۔کائنات کو حقیقی، بامقصدا ور نظم وضبط کی پابند پاکر مسلمان ان قوانین قدرت کو بے نقاب کرنے لگے تھے جن کے مطابق یہ چل رہی تھی۔ بعد ازاں اُنھوں نے اپنے نتائج فکری کی جانچ پڑتال کے لیے آلات بھی بنائے۔اس طرح اُنھوں نے تجرباتی سائنس کی بنیاد ڈالی تھی۔ علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’ انسان‘‘ میں فطری قوانین کی ہمہ گیری اور انسانی سرگرمی کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:۔ ؎ تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرم ِ تقاضا ہے

چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی     یہ ہستی دانا  ہے‘بینا ہے‘  توانا ہے 

(کلیات اقبال،ص۱۷۹)

علامہ اقبالؒ کا ایک ا ور اقتباس بڑا ہی فکر انگیز ہے۔ وہ تسخیر فطرت کے ضمن میں قرآنی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں:

"The Quran opens our eyes to the great fact of change, through the appreciation and control of which alone it is possible to build a durable civilization." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.14) (۴)’’ قرآن حکیم ظاہری اور باطنی تجربات ومشاہدات کو اس حقیقت کاملہ کے نشانات سمجھتا ہے جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی‘ جو ظاہربھی ہے اور باطن بھی‘‘

(دوسرا خطبہ)
   علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں قرآن‘ کائنات اور خدا کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا ہے اس کی قدرے وضاحت کی جاتی ہے۔ اُنھوں نے اس میں تین اہم اُمور کا انکشاف کیا ہے:

(الف ) قرآنی تعلیمات کی رُو سے ہمارے ظاہری اور باطنی تجربات ومشاہدات حقیقت کاملہ(خدا) کے نشانات اور مظاہر ہیں۔قرآن نے کہا:’’ سنُریم اٰ تِنا فیِ الافاقِ وفیِ انفُسھم‘‘ (فُصِلت۴۱:۵۳)،)ہم عنقریب اُنھیں اپنی نشانیاں دنیا میں اور خود ان کے اندر دکھائیں گے(۔ اس آیت قرآنی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت کی نشانیاں مادی دنیا میں بھی دکھاتا ہے اور ہماری ذات کے اندر بھی۔ خدا کی بعض نشانیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں اور بعض مادہ اور حواس کی حدود سے ماورا ہوتی ہیں۔ظاہری نشانات دیدنی، مادی، حسّی اور عارضی ہوتے ہیں جبکہ باطنی نشانیاں نادیدنی‘غیر مادی‘حواس سے ماورا اور ابدی ہیں۔ (ب)قرآن کی تعلیمات کے مطابق خدا اوّل بھی ہے اور آخر بھی۔ سائنس اور فلسفہ علّت ومعلول اور محسوسات کا شکار ہوکر خدا کی ہستی کو جاننے سے قاصر ہیں۔ قرآ ن حکیم خدا تعالیٰ کو علّتِ غائی اور ابدی قرار دیتا ہے جس سے قبل کچھ بھی نہیں۔ جس طرح اس کی ابتدا نہیں اسی طرح اس کی کوئی انتہا بھی نہیں۔ اس مشکل سے نجات پانے کے لیے ہم اسے اوّل اور آخر تصور کرنے پرمجبور ہیں۔ ارشادقرآنی ملاخطہ ہو: ’’ ھُو الاوّل والآ خُرِ‘‘(اﷲ اوّل بھی ہے اور آخر بھی )۔خدا تعالیٰ کو اوّل سمجھنا ہی پڑتا ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو پھر یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ریاضیات میں ہم صفر کو ابتدا خیال کرکے آگے بڑھتے ہیں۔اگر کوئی نقطہ آغاز فرض نہ کریں تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔خدا کو ہر چیز اور حقیقت کی انتہا قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم ہمیں یہ عظیم حقیقت بتاتا ہے کہ: ’’ واِلی رّبک المنتھٰی‘‘( اور تیرے پروردگار کی طرف منتھٰی ہے)۔ (ج) قرآن خدا کو ظاہر اور باطن قرار دیتا ہے۔ اس پر پہلے بحث کی گئی ہے۔

اب ذیل میں اس موضوع سے متعلق علامہ اقبالؒ کے چند اقوال واشعار بطور حوالہ پیش کئے جاتے ہیں:

(1)"It is the mysterious touch of the ideal that animates and sustains the real, and through it alone we can discover and affirm the ideal." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.9) (2)"---The Ultimate Reality which reveals its symbols both within and without." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.14) ؎گلزارِہست و بُود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر     ہر  رہگذر میں نقشِ کف پائے یار دیکھ

(کلیات اقبال،ص ۹۸) ؎ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہے دیکھنا تو دیدئہ دل ِ وا کرئے کوئی

 ہودید کا جو شوق  تو آنکھوں کو بند کر     ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

(کلیات اقبال،ص۱۰۲) ؎ جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانو ں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں حقیقت ا پنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی مکاں نکلا ہما رے خانہ دل کے مکینوں میں (کلیات اقبال،ص۱۰۳) (۵)’’میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں جو کائنات کو پہلے سے سوچی سمجھی تجویز کی ہوبہو نقل قرار دے۔قرآن کی رُو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک ارتقا پذیر کائنات ہے نہ کہ کوئی تکمیل یافتہ شے جسے بناکر خدا صدیوں سے الگ بیٹھ گیا ہو‘‘ ( دوسرا خطبہ) اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ تقدیر کے غلط تصور اور کائنات کی عدم حرکت وارتقا کے زبردست مخالف ہیں۔وہ ان دونوں نظریات کو قرآنی تعلیمات کی روح سے ہم آہنگ نہیں پاتے۔اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ قرآن کی رو سے اس کائنات کی تخلیق بلا مقصد نہیںاور نہ ہی یہ جامد اور غیرارتقا پذیر ہے۔علاوہ ازیں زمین پر خدا کا نائب ہونے کی حیثیت سے انسان عمل، اختیار، آزادی انتخاب، تخلیقی سرگرمی اور مخفی صلاحیتوں کا حامل ہے۔خدا تعالیٰ نے انسان کو آزادی عمل اور خیر وشر کی تمیز دے کر اسے مسئولیت کا ذمہ دار بنایا ہے۔علامہ اقبال ؒ کے اس اقتباس کے اہم اجزا یہ ہیں: (الف)کائنات پہلے سے سوچی سمجھی سکیم کی ہوبہو نقل نہیں کیونکہ ایسا خیال قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام آنے والے واقعات کو’’لوح محفوظ‘‘ پر تحریر کردیا تھا اور بعد ازاں یہ واقعات خودبخود اس سکیم کے مطابق نمودار ہوتے رہتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اس نظریے میں جبریت اور میکانیت کا عکس پاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تصور سے خدا اب بالکل فارغ اور بیکار ہوجاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ ایک مشینی عمل قرار پاتا ہے کیونکہ مشین کوایک بار چلاکر چلانے والا آرام کرنے لگتا ہے۔اگر واقعات خدا کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق ہی ظہور پذیر ہورہے ہیں تو پھر ہم اپنے اچھے اور برے اعمال کی جزا وسزا کے کیسے ذمہ دار ہوتے ہیں؟علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ تقدیر کا مطلب پیمانہ عمل اور قدر وقیمت ہے جس کی رُو سے ہم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہوں گے اور قوانین فطرت اپنے مخصوص نتائج پیدا کرتے رہیں گے۔وہ بیج کی مثال دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اپنی مخفی صلاحیتوں کو خود بروئے کار لانے کی آزادی بھی رکھتے ہیں۔ (ب) وہ کائنات کے اندر بڑھنے اور آگے جانے کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں۔وہ اسے کوئی تکمیل یافتہ چیز خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اس کی ارتقائی قوت کے قائل ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ خدا تعالیٰ کائنات کو اب بھی صفت ربوبیت اور خلاقی صفت کے سبب مراحل ترقی وارتقا سے گزار رہے ہیں۔ کیا اب خدا نے کائنات میں اپنی قدرت اور حکمت کی نشانیوں کو دکھا نا ختم کردیا ہے؟کیا خدائی صفات بھی ازلی اور ابدی نہیں ہیں؟خدا تو اب بھی اپنی جلوہ گری اور تخلیقی عمل میں مصروف ہے جیسا کہ قرآن پا ک میں ارشاد ربانی ہے:’’ خلق کّل شیی ء ً فقّد رہ‘ تقدِیراً‘‘ ( ترجمہ:اﷲ نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور اُن کے لیے پیمانے اور اندازے مقرر کئے )۔اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے اشیاء کی تخلیق کے بعد اُن کی آئندہ ترقی ورفتار کے لیے خاص خاص قوانین بھی بنائے۔ آزادی اور ارتقائی صفت سے محروم کائنات کو علامہ اقبالؒ کٹھ پتلیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔وہ فرماتے ہیں: "The world regarded as a process realizing a pre-ordained goal is not a world of free, responsible moral agents; it is only a stage on which puppets are made to move by a kind of pull from behind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.54) علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ بھی دلچسپی کا حامل ہوگا۔وہ کہتے ہیں: ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں ع: تقدیر کے پابند جمادات ونباتات

(۶)’’ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ آغازِ اسلام سے لے کر عباسیوں کے ابتدائی دور حکومت تک ہمارے پاس قرآنِ حکیم کے علاوہ عملی طور پر کوئی مدوّن آئین نہیں تھا‘‘۔ (چھٹاخطبہ)

  اس موضوع پر اس سے قبل علامہ اقبالؒ کے افکار وخیالات کا خلاصہ بیان کیا جاچکا ہے۔اُنھوں نے اسلامی آئین کے چار اہم منابع قرآن،احادیث مبارکہ، اجماع اور قیاس کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن حکیم کی اوّلیت اور ہمہ گیر افادیت کے بارے میں اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔اُن کی نگاہ میں رسول کریمؐ کے مبارک عہد سے لے کر عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دور حکومت تک مسلمانوںکے پاس قرآن کے علاوہ اور کوئی ایسا آئینی ذریعہ نہیں تھا جو اس کی طرح مدوّن اور مرتب ہوتا۔جب مسلم حکومت کا دائرہ اثر وسیع ہوگیا اور نئے علاقوں کے رہنے والے حلقہ بگوش اسلام ہوئے یا ذمّی رعایا کی حیثیت سے مسلم مملکت میں زندگی گذارنے لگے تو باہمی میل جول نے نئے نئے مسائل کو جنم دیا۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جب مختلف رسم ورواج اور تہذیب وتمدن رکھنے والے لوگ آپس میں ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے اطوار و نظریات سے متاثر ہوتے ہیں۔اسی طرح پرانے طرز ِزندگی اور اندازِ فکر میں بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ایسے ہی حالات سے جب مسلمان اہل دانش وفکر اور فقہا کو دوچار ہونا پڑا تو اُنھوں نے قرآن حکیم کے اساسی نظریات اور بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اسلامی آئین کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ قرآن اسلامی آئین کا واحد اور اوّلین سرچشمہ ہے۔تاہم ہمارے قدیم فقہا نے احادیث کی تدوین اور اجماع و قیاس کی طرف خاص توجہ دی اور اس طرح اسلامی آئین کی حرکت، ارتقا پذیری،وسعت، لچک، ہمہ گیریت اور جاذبیت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ علامہ اقبالؒ اسلامی آئین کو تغیر وثبات اور آفاقی اقدار کا مظہر خیال کرتے ہوئے قرآن کے ابدی اُصولوں کی روشنی میں نئے حالات کو سنوارنے کے لیے غور وفکر کے حامی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کے مندرجہ ذیل اقوال واشعار کا حوالہ کافی مفید رہے گا:

(1)"The ultimate spiritual basis of all life, as conceived by Islam, is eternal and reveals itself in variety and change." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.147) (2)"Omar---the first critical and independent mind in Islam who, at the last moments of the prophet, had the moral courage to utter these remarkable words: "The Book of God is sufficient for us." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.162) (3)"---The Quran considers it necessary to unite religion and state, ethics and politics in a single revelation." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.166) ؎ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں اﷲ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار (کلیات اقبال،ص۱۲۶) ؎ ملّت از آئین حق گیرد نظام اِز نظام محکمے خیز د دوام (کلیات اقبال،ص۱۲۶)

 قرآن حکیم محض عقائد وعبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں حیاتِ اجتماعی کی ترقی وکامرانی کی بھی تعلیم ہے۔ اس لحاظ سے دین اور سیاست و آئین میں کوئی ثنویت نہیں۔ حضرت عمرؓ نے بجا فرمایا تھا:’’ حسبنا کتاُب اﷲِ‘‘۔ اس نقطہ نگاہ سے قرآن حکیم ہی ہمارے قوانین کا اوّلین اور بنیادی سرچشمہ ہونا چاہیے۔

(۷)’’ قرآن میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جو ہمارے شمارِ وقت کی طرف اشارہ کرتی ہوئی شعور کی دیگر سطحوں کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں‘‘ (دوسرا خطبہ)

   وقت کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے مدتوں سے انسان غور وفکر کررہے ہین۔بعض فلاسفہ اور مفکرین کی رائے میں وقت ہی سب کچھ ہے ۔اس لیے وہ زمانے ہی کو موت وحیات کا سبب خیال کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ہم طبعی موت کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے۔قرآن حکیم اس مادی نظریہ حیات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے:’’ اوما لھُم بذِ الکِ منِ علُم اِن ھُم اِلاّٰ لیظُنّون‘‘(الجاشیہ۵ ۴:۲۴) (یہ محض ظن وقیاس سے کام لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس صحیح علم نہیں)۔دوسرا گرو ہ کہتا ہے کہ زمان کوئی ذاتی وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ توہمارے احساس کی پیدا وار ہے۔معروف جرمن فلسفی کانٹ کے خیال میں زمان ومکان محسوس ہونے والی اشیا نہیں بلکہ یہ تو ہمارے احساس کے سانچے اور طریقے ہیں۔اس لحاظ سے زمان کی خارجی شکل محض ہمارے احساس کی حالت ہے۔برگساں کے خیال میں چونکہ ہم مادیت کی طرف مائل ہوتے ہیں اس لیے ہم زمان ومکان کو بھی اسی ترازو میں تولتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کا تصورِ زمان کافی حد تک قرآنی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔
اس اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے قرآنی تصورِ زمان اور شعور کی دیگر نامعلوم سطحوں کے امکان کی طرف اشارہ کیا ہے۔اُنھوں نے امریکہ کے مشہور ماہر نفسیات اور فلسفی پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نظریہ کائنات کے ذکر کے دوران زمان کے قرآنی تصور پر روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسر وائیٹ ہیڈ نے کائنات کو حرکی قرار دیتے ہوئے اسے ان حوادث کا مجموعہ کہا تھا جو مسلسل تخلیقی رو کے حامل ہوتے ہیں۔ زمان میں فطرت کے مرور ِکی یہ خاصیت باطنی تجربات کا ایک ایسا اہم پہلو ہے جس پر قرآن حکیم نے خاص زور دیا ہے۔حضرت علامہؒ کے نزدیک یہ تصورِ زمان ہمیں حقیقت کاملہ(خدا) کا بہترین سراغ دیتا ہے۔اس بارے میں اُنھوں نے قرآن حکیم کی پانچ   آیات(۶:۱۰،۶۳:۲۵۵،۲۸:۳۱،۸۲:۲۳) کا حوالہ دیا ہے جن میں شب وروز کے تغیر وتبدل کو خدا کی نشانیوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ خدا کی ذات انسانی ذہن میں سما نہیں سکتی۔ کائنات میں اس کی پیدا کرہ لاتعداد نشانیوں(آیات) اور خارجی مظاہر ہی سے اس کے متعلق اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قرآن حکیم نے لیل ونہار کی گردش کو اسی لیے دو واضح نشانیاں قرار دیتے ہو ئے یہ فرمایا:’’ وجعلُنا اللُّیل والنّھار ٰا یٰتین‘‘(الاسراء ۱۷:۱۲)(ہم نے رات اور دن کو دو نشانیوں کے طور پر بنایا ہے)۔ کیا ان قرآنی آیات سے یہ بات روِزروشن کی طرح عیاں نہیں ہوجاتی کہ یہ کائنات جامد اور غیر متحرک نہیں بلکہ اس میں ہر وقت تغیر وتبدل کا اُصول کارفرما رہتا ہے؟۔
  برگساں نے اپنے فلسفیانہ نظام میں وقت کے موضوع پر بہت کچھ کہا ہے۔علامہ اقبالؒ مجموعی طور پر اس کے نظریہ زمان کو سراہتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں فرانس کے اس عظیم فلسفی نے وقت کی اصلیت بیان کرنے کے لیے قابل قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اُنھوں نے اس بحث کے ضمن میں برگساں کا ایک طویل اقتباس بھی نقل کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارے مختلف اور لاتعداد احساسات‘جذبات‘کیفیات اور خیالات ہماری باطنی دنیا میں ظہور پذیر ہوکر ہماری زندگی کو اپنے رنگ میں رنگتے ہیں۔اسی طرح ہماری زندگی بے شمار کیفیات اور تغیرات کی عکاس بن جاتی ہے۔ ہنری برگساں کے یہ الفاظ ہماری زندگی اور تغیر مسلسل کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہیں:

"I pass from state to state. I am warm or cold. I am merry or sad---Sensations, feelings, volitions, ideas--such are the changes into which my existence is divided and which color it in turns. Ichange, then, without ceasing." (The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.45-46)

   علامہ اقبالؒ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمارے شعور اور ہماری زندگی کو اس مسلسل تغیر وارتقا کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔حرکت وارتقا سے عاری زندگی کو وہ کسی طرح بھی حقیقی اور مفید زندگی خیال نہیںکرتے۔جب ہماری زندگی کے تاروپود میں خدا کی تخلیقی سرگرمی کارفرما رہتی ہے تو ہم اپنے باطن میں اس کے اثرات کیوں محسوس نہیں کرسکتے؟ ایسے حالات میں انسان کو بھی تخلیقی صلاحیت کا مالک قرار دینا پڑے گا۔اس ضمن میں ہنری برگساں کے یہ الفاظ کس قدر بصیرت افروز ہیں۔ وہ کہتا ہے:

"--for a conscious being to exist is to change, to change is to mature, to mature is to go on creating one's self endlessly." (The Outline of Philosophy,p.388)

زندگی اور کائنات کی اس حرکت اور ارتقاء پذیری کا تصور وقت کے بغیر ممکن نہیں۔

علامہ اقبالؒ نے وقت کی بحث کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ بعض قرآنی آیات کی رُو سے ہمارا شمارِ وقت شعور کی دوسری نامعلوم سطحوں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ بعض اوقات مختلف حالات میں ہمارا شعورِ وقت دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔ رات ایک ہی ہوتی ہے مگر ایک نشہ باز اور فرقت زدہ انسان اس کے مرورِ کے بارے میں مختلف احساس رکھتے ہیں۔ ایک کے لیے ے رات فوراًگزر جاتی ہے لیکن ہجرزدہ عاشق کے لیے وہی رات طویل ہوجاتی ہے۔شاعرِ مشرق ؒ علامہ اقبالؒکے ایک شعر سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔وہ کہتے ہیں: ؎ مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گذرتی ہیں مہینوں میں (کلیات اقبال،بانگ ِ درا)

جب انسانوں کے شعور ِ وقت کا یہ حال ہے تو انسانی وقت اور خدائی وقت میں کیوں فرق نہیں؟ زمان کی حقیقت پر غوروفکر کرنے والوں نے اس کی قسمیں بیان کی ہیں ۔مثلاً انسانی زمان اور خدائی زما ن ۔انسانی تصورِ وقت خارجی‘غیر حقیقی اور مکانی نوعیت کا ہوتا ہے۔اس کے برعکس ایزدی زمان باطنی‘حقیقی‘غیر مکانی اور ناقابل تقسیم ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جب ہم اردگرد کی چیزوں سے لاتعلق ہوکر حقیقت مطلقہ کے ساتھ گہرا ربط قائم کرتے ہیں تو اُس وقت ہمارا شعورِ وقت بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔من کی گہرائیوں میں ڈوبنے ہی سے ہمیں اس حقیقی وقت کا احساس حاصل ہوتا ہے:
               ؎  اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی

قرآن حکیم کی ایک آیت میں خدائی زمان کو ہمارے ایک ہزار سال کے برابر کہا گیا ہے ا ور دوسری آیت میں اس کی مدت کئی ہزار سال بتائی گئی ہے۔ اس سے علامہ اقبالؒ کے قول کی تائید ہوجاتی ہے کہ قرآن حکیم نے ہمارے شمارِ وقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعور کی دیگر نامعلوم سطحوں کے امکان کو ظاہر کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہمارا عام اور خارجی شمار ہی معیار حقیقت نہیں بلکہ باطنی کیفیات میں یہ شمارِ وقت مختلف شعور کی ترجمانی کرتا ہے۔شاعر ِمشرق علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم’’ الوقتُ سیف ‘‘ میں فلسفہ زمان پر کسی قدر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں صرف دو اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں: ؎ اے اسیر دوش وفردا درِنگر درلِ خود عالم دیگر نگر

 باز  با  پیمانہ  لیل  ونہار      فکرِ تو  پیمود طولِ  روزگار
( کلیات اقبال)