Actions

قدیم ملوکیت وشہنشاہیت

From IQBAL

Revision as of 07:07, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)
اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے۔ اقبال تمہیداً سلطانی و حاکمیت کے اس بنیادی اصول اور انسانی برہمنیت کے مختصر تذکرے کے بعد خواجگی کی قدیم صورت ( شہنشاہیت اور ملوکیت) کے بیان کی طرف آتے ہیں۔

قدیم ملوکیت کی بنیاد ہوس کے ’’پنجۂ خونیں‘‘ اور جبر و استبداد پر استوار تھی۔ وضاحت کے لیے اقبال نے ’’رمز آیہ اِنَّ الْمَلُوْکَ‘‘کہہ کر قرآنی تلمیح کاسہارا لیا ہے۔ سورۃ النمل میں آتا ہے: اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَ جَعَلُوْا اَعِزَۃَّ اَہْلِہَا اَذِلَّۃٌ (سورۃالنمل: ۳۴)بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ علامّہ اقبال، قرآنی تلمیح کے حوالے سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، مولانا مودودی نے بہت عمدہ پیراے میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مذکورہ قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ’’ اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کر دیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی ۔ اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدانے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ، اس سے وہ خو د متمتع ہو ں اور اس قوم کو اتنا بے بس کر دیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں اپنا سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے ۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی خوش حالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے، انھیں کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے افراد میں غلامی، خوشامد ، ایک دوسرے کی کاٹ ، ایک دوسرے کی جاسوسی ، فاتح کی نقالی ، اپنی تہذیب کی تحقیر، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بیچ دینے میں تأمّل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن:حصہ سوم: ص ۵۷۳) ملوکیت کی انھی چالبازیوں اور مکاریوں کو اقبال نے جادو گری، ساحری، سازِ دلبری اور طلسم ِ سامری کا نام دیا ہے۔ سراج الدین پال کے نام ایک خط میں ’’ حکمران کی ساحری‘‘ کی تشریح وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’ انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثرڈالتا ہے ، جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصو ّر کرنے لگ جاتا ہے ۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے‘‘۔ مطلق العنان حکمرانوں نے ہر دور میں بے بس اور کمزور انسانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ فراعنۂ مصر ، تیمور ، چنگیز خان ، ہلاکو خان اور قدیم شاہانِ روم اس کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ملوکانہ چنگیزیت سے محفوظ نہیں رہی۔ بقول اقبالؔ:

ازو ایمن نہ رومی نے حجازی است!

شخصی حکومتوں میں بادشاہ اپنے سحر کو قائم رکھنے کے لیے اشرفیوں اور جاگیروں کی تقسیم اور لکھ ہزاری مناصب اور خلعتوں کے عطا ایسے حربوں سے کام لیتے تھے جبکہ جدید دور میں تمغے ، اعزازات اور اونچے مناصب اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ’’سازِدلبری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں: شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق ِ نخچیری ان ’’ساز ہاے دلبری ‘‘کو انسان کے حلقۂ گردن میں ڈال کر اسے رسوا کیا گیا۔ حالانکہ وہ فطرتاً آزاد پیدا کیا گیاہے۔ اس عالم میں ملوکیت کے لیے جبر و استبداد کا کھیل جاری رکھنا مشکل نہیں ہوتا : خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی پختہ ہو جاتے ہیں جب خوے غلامی میں غلام تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جبر و استبداد کایہ سلسلہ جب ایک خاص حد سے آگے بڑ ھ جاتا ہے توفطرت مداخلت کرکے ظالم کا ہاتھ روک دیتی ہے اور اسی قوم سے کوئی ایسافر د پیدا ہوتا ہے یا کوئی ایسی تحریک اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو استبداد کا تختہ الٹ کر ملوکیت کو اس کی قبر میں دفن کر دیتی ہے: خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسمِ سامری فراعنۂ مصر‘ قیصرانِ روم ‘ اکاسرۂ ایران ‘ شاہانِ یونان اور دنیا کے دوسرے جابر حکمرانوں اور شخصی ملو کیتوں کا زوال اسی شعر کی ادنیٰ تفسیر ہے۔ اس شعر میں جو تلمیحات استعمال ہوئی ہیں‘ ان کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ فرعون کے گھرانے میں پرورش پا کر جوان ہوئے ۔ ایک روز شہر میں گھوم رہے تھے کہ ایک جگہ انھوں نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو دست و گریبان دیکھا۔ قبطی حکمران قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اسرائیلی رعایاتھے۔ فرعون کی سلطنت میں ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے ۔ حضرتِ موسیٰ ؑ یہ منظر دیکھ کر اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکے اور انھوں نے اسرائیلی کو پٹتا دیکھ کر اس کے مد ِ ّ مقابل قبطی کو ایک زوردار گھونسا رسید کیا‘جس سے وہ موقع ہی پرہلاک ہو گیا: ’’خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں‘‘کا ایک اشارہ تو اسی واقعے کی طرف ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’ طلسم سامری‘‘ کی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر جزیرہ نماے سینا میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس شب و روز کے لیے کوہِ طور پر طلب کیا ۔ آپ کی غیر حاضری میں ’’سامری‘‘ نامی ایک شخص نے سونے کو پگھلا کر ایک بچھڑے کی شکل بنائی ۔ یہ بچھڑا زندہ بیلوں کی سی آواز نکالتا تھا۔ بنی اسرائیل اس بچھڑے کی پرستش کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے واپسی پر یہ ماجرا دیکھا تو انھیں سخت غصہ آیا۔ انھوں نے اپنی قوم کو لعنت و ملامت کی۔ سامری کا معاشرتی مقاطعہ کیا گیا یا وہ کوڑھ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔