Actions

فکر اور وجدان

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ فکر اور وجدان کو اساسی طور پر ایک دوسرے کا مخالف سمجھنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے اور وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ عقل حقیقت کاملہ کا جزوی طور پر ادراک کرتی ہے لیکن وجدان کلی طور پر اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘‘۔ (پہلا خطبہ) (۲)’’وجدان حقیقت الحقائق کے ابدی اور باطنی پہلو پر نظر رکھتا ہے۔اس کے برعکس عقل اس کے خارجی اور عارضی پہلو کو مدنظر رکھتی ہے۔اس کے باوجود یہ دونوں ایک ہی حقیقت کی رویت کے طالب ہوتے ہیں۔ برگساں درست کہتا ہے کہ وجدان تو صرف عقل کی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘۔ (ایضاً) ان دواقتباسات سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ علامہ اقبالؒ فکر اور وجدان یا فلسفہ ومذہب کو ایک دوسرے کامخالف اور دشمن خیال نہیں کرتے بلکہ وہ انہیں ایک ہی منبع سے متعلق اور ایک دوسرے کا معاون سمجھتے ہیں۔بعض لوگ دین اور فلسفہ یا عقل وایمان میں کوئی مطابقت نہیں پاتے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ مذہب کے حقائق اور عقلی نتائج دو مختلف دنیائوں کے مظہر ہیں۔ علامہ اقبالؒ ایسے اہل دانش کی اس رائے سے ہرگز متفق نہیں کیونکہ وہ اسلام میں عقل کی علمی جستجو کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اُن کے خیالات کی تلیخص یہ ہے:۔ (الف) فکر(فلسفہ) اور وجدان(الہام) بنیادی طور پر ایک دوسرے کے ہرگز مخالف نہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے اس بیان کی تائید میں کہا ہے کہ اسلام میں عقلی بنیادوں کی تلاش کا آغاز رسول کریمؐ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اسلام میں عقل کے جائز استعمال کی ممانعت نہیں ہے۔قرآن حکیم کی لاتعداد آیات میں عقل، فکر اور تدبر سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ (ب)علامہ اقبال فکر اور وجدان(فلسفہ ومذہب) دونوں کا ایک ہی سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔فلسفہ اورمذہب دونوں ہی انسانی زندگی کی بہتری اور حقیقت جوئی کے دعوے دار ہیں۔ اس لحاظ سے وہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔وہ اپنے ایک انگریزی مضمون‘‘میک ٹیگرٹ کا فلسفہ‘‘ میں ان دونوں کے باہمی تکمیل وتعاون پر روشنی ڈالتے ہیں: "Knowledge and direct revelation are not mutually opposed: they are complementary to each other. when the mystic Sultan abu sa'id met the philosopher abu Ali Sina he is reported to have said, "I see what he knows" (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.120)

 علامہ اقبالؒ فکر اور وجدان(عقل وعشق) کو ایک ہی’’ منزل حقیقت ‘‘کے دو مسافر قرار دیتے ہیں مگر ان میں طریق کار کا ضرور فرق ہے۔وہ ان دونوں کا اپنی کتاب’’ زبور ِعجم‘‘ میں یوں موازانہ ومقابلہ کرتے ہیں:

؎ ہر دو بہ منزلے رواں، ہر دو امیرِ کارواں عقل بہ حیلہ می برد، عشق برُد کشاں کشاں (کلیات اقبال، ص۴۱۲)

  علامہ اقبال ؒکی رائے میں عقل حقیقت کاملہ کا جزوی طور پر ادراک کرتی ہے ۔اس کے برعکس وجدان اسے کلیتہً اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔عقل جس حقیقت کو بڑی دشواری اور منزلوں سے گزرنے کے بعد جزوی انداز میں سمجھتی ہے ۔وجدان اور الہام کی بدولت اس بات کا یک لخت ادراک ہوجاتا ہے۔ا ن دونوں میں سست روی اور تیز رفتاری،جزویت وکلیت اور قیاس ویقین کا فرق ہوتاہے۔عقل ہر بات کو پہلے سے حقیقی اور یقینی خیال نہیں کرتی بلکہ وہ شک وشبہ،ظن وتخمین،تذبذب اور بے یقینی سے کام لیتے ہوئے اپنی تحقیق و تنقید کا آغاز کرتی ہے۔اس کے برعکس الہام ووجدان حقیقت کا براہِ راست ادراک کرکے عزم ویقین کی دولت کے حامل بن جاتے ہیں۔حضرت علامہ اقبالؒ ان کے باہمی فرق کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

؎عقل در پیچاک اسبابِ وعلل عشق چوگا بازِ میدان عمل

عقل راسرمایہ از بیم وشک است      عشق را عزم ویقیں لاینفک است

(کلیات اقبال، ص۱۰۹) (د) عقل ووجدان کے ایک اور فرق کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ وجدان حقیقت الحقائق(تمام حقائق کی آخری حقیقت یعنی خدا) کے ابدی اور باطنی پہلو پر نظر رکھتا ہے جبکہ عقل اس کے عارضی اور خارجی گوشوں کو مدنظر رکھتی ہے۔خدا تعالیٰ اپنی قدرت کی محیر العقول نشانیاں آفاق یعنی ظاہری اور مادی دنیا میں بھی ظاہرکرتا ہے اور ہمارے انفس یعنی باطنی اور ابدی دنیا میں بھی۔انسانی زندگی کی خوشگواری،کامیابی اور متوازن ترقی کے لیے ہمارا ان دونوں کے ساتھ گہرا تعلق ہونا چاہیے۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ان کے ایک اور فرق کو ذرا ملاخطہ کیجیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دیدار کے طالب ہوتے ہیں مگر فرق یہ ہے : ؎ عقل گو آستاں سے دُور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں

دل ِبینا بھی کر خدا سے طلب      آنکھ  کا  نور‘  دل  کا  نور نہیں
علمِ  میں بھی سرور ہے لیکن        یہ وہ جنت  ہے جس میں حور نہیں

(کلیات اقبال،ص ۳۳۵) (ہ) فرانس کے مشہور فلسفی برگساں نے وجدان(intuition) کو عقل کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا تھا۔علامہ اقبالؒ برگساں کی اس رائے سے متفق ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وجدان کیا ہے۔مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اشیائے کائنات کا براہ راست ادراک ہے۔چند آراء کا یہاں ذکر بے محل نہ ہوگا۔ سپینوزاکا قول ہے : (1)"----In so far as the mind sees things in their eternal aspect it participates in eternity." (The Outline of Philosophy,p.295) (2)"---The intellect divides everything, intuition unites everything" (The Outline of Philosophy,p.297) (3)"We see life in its subtle and penetrating flow--This direct perception, this simple and steady looking upon a thing, is intuition; not any mystic process, but the most direct exam- -ination possible to the human mind" (The Outline of Philosophy,p. 392) علامہ اقبالؒ کی طرح ان کے روحانی مرشد مولانا رومؒ بھی عقل کی د وبڑی قسموں کے قائل تھے… عقل جزوی یا عقل استدلالی اور عقل کلّی یا عقلِ عرفانی۔وہ کہتے ہیں کہ حکمت کا طالب ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر جاپہنچتا ہے جہاں وہ کتاب واسباب تحصیل علم سے بے نیاز ہوکر خود منبع حکمت بن جاتا ہے۔حکمت کی ترقی اس کو عشق کے مقام پر لے جاتی ہے جو وحی والہام کا تصادم ہے۔ایسی حالت میں اس کے آئینہ دلِ پر براہ راست حقائق منکشف ہونے لگتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں:

؎ مبنعِ حکمت شود حکمت طلب فارغ آید اوز تحصیل وسبب (۳)’’غزالیؒ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ عقل اور وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ کانٹ اور غزالیؒ دونوں اس بات کا ادراک حاصل نہ کرسکے کہ فکر حصول علم کے وقت ہی اپنی محدودیت کے احاطے سے باہر نکل جاتی ہے‘‘۔ (پہلا خطبہ ( عقل ووجدان کی مشکل بحث کے دوران علامہ اقبالؒ امام غزالیؒ اور جرمن فلسفی کانٹ کے نظریہ فکر ووجدان کوہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ دونوں اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ فکر اور وجدان آپس میں مربوط ہوتے ہیں‘نیز حصول علم کے وقت ہمارا خیال اپنی محدودیت کے میدان سے باہر چلا جاتا ہے۔اس مشکل بحث کو سمجھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ فکر اور وجدان(عقل و قلبی واردات) کے بارے میں ان دوعظیم فلسفیوں کے نظریات کا خلاصہ کیا ہے۔سب سے پہلے ہم امام غزالیؒ کی فکری خدمات کا جائزہ لیتے ہیں:۔ امام غزالیؒ (متوفی۱۱۱۱ئ) عالم ِ اسلام کی ممتاز ترین علمی اور مذہبی شخصیات میں سے تھے۔ شروع شروع میں وہ فلسفہ طرازی اور عقلی تگ وتاز میںگہری دلچسپی لیا کرتے تھے۔بعد ازاں اُنھوں نے عقل پرستی کو خیر باد کہہ کر تصوف ومعرفت کے میدان میں قدم رکھا اور اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا مدلل انداز میں اثبات کیا۔عقلیت سے نکل کر جب وہ کوچہ تصوف میں آئے تو اُنھوں نے یہاں آکر اپنے قدیم شکوک وشبہات کا ازالہ پایا اور اس طرح اُنھیں سکون قلب نصیب ہوگیا۔متصوفانہ تجربات اور قلبی واردات نے اُن پر عقل کی محدودیت کا راز فاش کیا اور بعد ازاں اُنھوں نے مذہب کو سائنس اور مابعد الطبیعیات سے الگ کرکے آزادانہ زندگی کا حق دلایا۔ امام غزالیؒ کے بیشتر پیش رو مسلم مفکرین نے فلسفہ یونان سے مرغوب ہوکر اسلام کے عقائد کو یونانی فلسفے کی ترازو میں تولنا شروع کردیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسفے کو مذہب پر برتری حاصل ہوگئی اور لوگوں کے عقائد میں تزلزل آگیا۔اس تذبذب نے اُنھیں شک پرستی میں مبتلا کرکے عملی جدوجہد سے نفور کردیا تھا۔امام غزالیؒ نے فلسفہ یونان اور عقلیت کا ابطال کرکے مذہب کے حقائق کو منکشف کیا تھا۔علامہ اقبالؒ اُن کی اس خدمت کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں: "He was the first to write a systematic refutation of Philosophy, and completely to annihilate that dread of intellectualism which had characterised the orthodox." (The Development of Metaphysics in Persia,p.59) جہاں تک جرمنی کے عظیم المرتبت فلسفی کانٹ کے تصورِفکر ووجدان کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ دو انگریز فلسفیوںجان لاک اور ڈیوڈ ہیوم نے کہا تھا کہ ہمارے حواس ہی علم کا واحد ذریعہ ہیں۔وہ حسّی علم ہی کو سب کچھ خیال کرتے تھے۔کانٹ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حواس کے ذریعے حاصل شدہ علم اپنی اصلی حالت میں ہم تک نہیں پہنچتا۔اس لیے یہ غیر خالص اور غیر یقینی ہے۔وہ حسّی تجربات سے آزاد علم کو اگرچہ عقل خالص قرار دیتا تھا تاہم وہ اس کی محدودیت کا بھی قائل تھا۔وہ شعور کی مادّے اور حواس پر برتری کے علاوہ شعور کے تقدم میں بھی پختہ یقین رکھتا تھا۔اس کی رائے میں انسانی دماغ موم کی مانند نہیں جس پر حواس اور مادی تجربات اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں بلکہ یہ ایک فعال چیز ہے جو ہمارے احساسات کو خیالات کی شکل میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ہمارے منتشر اور کثیرتجربات میں نظم وضبط اور وحدت پیدا کرتی ہے۔اس لحاظ سے وہ فکر(thought) کو ایک قوت ِناظمہ کہتا ہے۔ جان لاک نے حواس کو عقل پر ترجیح دیتے ہوئے کہا تھا: "There is nothing in the intellect except what was first in the sense." (The Outline of Philosophy,p.241)

 کانٹ نے جان لاک کے اس مادّی نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا:۔

"Perceptions without conceptions are blind" (The Outline of Philosophy,p.241)

ماہرین فلسفہ کے خیال میں کانٹ کا سب سے بڑا کارنامہ اشیاء کی حقیقت اور اُن کے مظاہر کے فرق کو بیان کرنا ہے۔جرمنی کا مشہور قنوطیت پسند فلسفی شوپنہار اُسے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے:۔

"Kant's greatest merit, says schopenhauer, "is the distinction of the phernomenon from the thing-in-itself."

 (The Outline of Philosophy,p.241)
  علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ عقلیت کے بت کو پاش پاش کرنے کے بعد امام غزالیؒ نے تصوف و معرفت کی دنیا میں آکر پناہ لے لی تھی مگر کانٹ عقلیت کا قلعہ مسمار کرنے کے بعد خدا تعالیٰ کے علم اور معرفت کے امکان کو ثابت نہ کرسکا۔
  علامہ اقبالؒ نے امام غزالیؒ اور کانٹ پر جو تنقید کی ہے،اس کے دو اہم اجزا یہ ہیں:

(ا)امام غزالیؒ اور کانٹ عقل اور وجدان کے باہمی ربط کو سمجھنے سے قاصر رہے۔حضرت علامہ اقبالؒ کی نظر میں عقل اور وجدان(فلسفہ اور مذہب) ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔اسلام میں فکر وتدبر کے استعمال کے بارے میں لاتعداد قرآنی آیات اور رسول کریمؐ کی ایک حدیث مبارکہ کا وہ حوالہ دے چکے ہیں۔عقل جن حقائق ِکائنات اور اسرارِ حیات کی تلاش میں عرصہ دراز گذار دیتی ہے، وحی والہام کی بدولت اُنکا فوراً براہ راست ادراک ہوجاتا ہے۔ عقل اور وجدان میں فرق یہ ہے کہ عقل انکشافِ حقائق کا اوّلین مرحلہ ہے جبکہ الہام و وجدان آخری مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس بات کو فرانسیسی مفکر برگساں نے یوں بیان کیا تھا کہ’’ وجدان عقل کی ترقی یافتہ اور اعلیٰ صورت ہے‘‘۔علامہ اقبالؒ اپنے ایک انگریزی مضمون ’’انسانی ذات اضافیت کی روشنی میں‘‘ میں عقل کی جزویت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: "The intellectual self is only one aspect of the activity of our total self." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.115)

 علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’ ذکر وفکر‘‘ میں اس اہم موضوع کو یوں بے نقاب کرنے کی سعی کرتے ہیں:

؎ یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علّم الاسما

 مقامِ ذکر،    کمالات  رومی  ؒ   و    عطار     مقام  ِفکر،     مقالاتِ     بوعلی سیناؒ

مقامِ فکر ہے، پیمائش زمان ومکاں مقامِ ذکر ہے، سبحان رّبی الاعلیٰ (کلیات اقبال،ص۴۸۵)

  علامہ اقبالؒ کی رائے میں امام غزالیؒ اور کانٹ اس امر سے باخبر نہ ہوسکے کہ حصول علم کے وقت عقل اپنی محدودیت کے میدان سے باہر نکل جاتی ہے۔حضرت علامہ ؒ کی اس تنقید کا لب لباب یہ ہے کہ عقل جب وحدت کو کثرت میں جلوہ گر اورزمانِ مسلسل کے حساب سے دیکھتی ہے تو اس میں محدودیت پائی جاتی ہے۔عقل محدود عالمِ محسوسات کی کثرت آرائی کے پیچھے پوشیدہ وحدت کّلی کو نہ پاکر اپنی محدودیت سے آگاہ ہوتی ہے لیکن جب اس کی حرکت عمیق تر ہوتی جاتی ہے تو وہ حقیقت مطلقہ کی معرفت سے بہرہ ور ہوجاتی ہے۔ اس ہستی کاملہ اور ذاتِ لامحدود سے گہرا رابطہ قائم کرکے وہ اپنی محدودیت کے احاطے سے باہر جاتی ہے۔اس وقت مخفی حقائق فوراً عیاں ہوجاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ ایسی حالت علم میں عقل بھی وسعت پذیر اور غیر محدود ہوتی ہے۔ یہ عقل اپنی اوّلین منزل میںحواس تک محدود رہتی ہے لیکن جوںجوں وہ حواس سے بالاتر ہوتی جاتی ہے اس کی افادیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ عقل شروع میں حسّی عقل یا عقلِ استدلالی ہوتی ہے لیکن آخر کار وہ عقلِ عرفانی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔شاعرِ مشرق اور مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ امام غزالیؒ اور کانٹ فکر اور وجدان کو آپس میں مربوط نہ دیکھ سکے اس لیے اُنھوں نے عقل کو وجدان سے الگ کرکے محدود ہی سمجھا اور وہ اس کی ارتقائی اور اعلیِ صورتوں سے آگاہ نہ ہوسکے۔قرآن حکیم نے اسی وجہ سے بھی مطالعہ فطرت اور تفکر وتدبر کا حکم دیا تھا تاکہ ہم شانِ ایزدی کے ظاہری جلوئوں کے پس پردہ پوشیدہ ہستی کامل سے گہرا رابطہ قائم کرسکیں اور اس کا عرفان پاسکیں۔
ذات را بے پردہ دیدن زندگی