Actions

Difference between revisions of "فنّی تجزیہ"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بح...")
 
 
Line 3: Line 3:
 
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں:
 
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں:
 
فَاعِلَاتُنْ  فَاعِلَاتُنْ  فَاعِلَاتُنْ  فَاعِلُنْ
 
فَاعِلَاتُنْ  فَاعِلَاتُنْ  فَاعِلَاتُنْ  فَاعِلُنْ
 +
 
'''٭لہجے کا تنوع'''
 
'''٭لہجے کا تنوع'''
  

Latest revision as of 06:12, 10 July 2018

’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلُنْ

٭لہجے کا تنوع

’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اور دھیما لہجہ رکھتا ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی ، قدرت کی جبریت اور زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِرفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں در د و کرب اور حسرت و حرماں نصیبی کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اتار چڑ ھاو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات آشکارا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم

صحبت ِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم یاد سے تیری، دلِ درد آشنا معمور ہے

جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمورہے آسماں تیر ی لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد ، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔ مرثیے میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبر و اختیار اور حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجاے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں ، اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں ، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرم جوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً : شعلہ یہ کم تر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا؟ کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا؟ ______ موت ، تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے ______ سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے اس لہجے میں ایک طرح کی حرکت اور زندگی کی حرارت ملتی ہے۔