Actions

Difference between revisions of "فلسفہ"

From IQBAL

(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
Line 1: Line 1:
  
<div dir="rtl">
 
(۱)’’ فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیت موجود نہیں ہوتی‘‘
 
(دیباچہ)
 
علامہ اقبالؒ نے اپنی معروف ترین انگریزی تصنیف’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے دیباچہ میں یہ کہا ہے کہ اُن کے پیش کردہ افکار ونظریات حرفِ آخر کا درجہ نہیں رکھتے کیونکہ فلسفیانہ نظریات یقینی نہیں ہوسکتے۔ اس بیان سے اُن کی شخصیت کا ایک انتہائی دلکش اور اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ ہم پر اپنے نظریات ٹھونسنے کے قائل نہیں۔وہ ہمیں یہ تلقین کرتے ہیں کہ ہم انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے اور نئے تصورات کا کسی تعصب یا تنگ نظری کے بغیر گہرا مطالعہ کرکے اپنی رائے قائم کریں۔اگر موجودہ تصور ہمارے پہلے سے قائم کردہ نظریات سے بہتر‘ زیادہ ٹھوس اور حقیقت پر مبنی ہو تو ہمیں بلا چون و چرا اس نئے تصور کو قبول کرلینا چاہیے اور پرانے نظریے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔وہ اندھا دھند تقلید اور تعصب آمیز اندازِ فکر کے زبردست مخالف ہیں کیونکہ اس سے حقیقت طلبی اور علمی ترقی کی راہ مسدود ہونے لگتی ہے۔
 
  مشرق کے اس عظیم مفکر کے مندرجہ بالا قول میں فلسفیانہ افکار کی عدمِ قطعیت کی طرف غیرمبہم اشارہ کیا گیا ہے۔آئیے ہم ذرا اس کا اجمالی جائزہ لیں کہ اُنھوں نے ایسا کیوں کہا ہے۔تاریخ فلسفہ کے عمیق مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فلاسفہ اور مفکرین نے خدا، کائنات،انسان اور زندگی کے مختلف اہم اُمور کے بارے میں جونظریات پیش کئے ہیں وہ وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ایک نظریہ جو اپنے دور میں بے حدمقبول تھا،وہ دوسرے دور میں آکر اپنی سابقہ اہمیت کھو بیٹھا۔اہل فکر ودانش اپنی اپنی محضوص طرزِ فکر اور ثقافتی روایات کے پیش نظر اپنے افکار کو حکمت ودانش کی معراج خیال کرتے تھے مگر بعد ازاں اُن افکار کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا۔یونانی مفکرین کی مثال لیجیے۔ہیرکلیٹس نے کہا کہ کائنات میں ہر چیز تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے اس لیے کسی کو بھی یہاں ثبات حاصل نہیں۔ گویا اس تغیر پذیر دنیا میں صرف’’اُصول تغیر‘‘ کو دوام حاصل ہے۔دوسرے لفظوں میں تبدیلی کا اُصول اٹل ہے اس لیے اشیائے کائنات مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔اس کے برعکس ایک اور یونانی مفکر پارمنڈیز نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات میں جو تبدیلی نظر آتی ہے وہ فریب ِنگاہ ہے کیونکہ یہاں دوام اور ثبات کا اُصول کارفرما ہے۔اس کے شاگرد زینو نے بھی حرکت وتغیر کوغلط ٹھہرایا۔بعد ازاں ایک اور ممتاز یونانی فلسفی ڈیمقریطس کی رائے میں کائنات لاتعداد ناقابل تقسیم چھوٹے چھوٹے ذرّات یعنی جواہر(atoms) سے مل کر بنی ہوئی ہے۔ وہ ان جواہر کو تو ٹھوس اور غیر تغیر پذیر سمجھتا تھا لیکن وہ خالی جگہ میں ان کی مسلسل حرکت کا بھی قائل تھا۔اس طرح اُس نے تغیرو ثبات کے اُصول کو اپنے نظامِ فکر کا مرکز ومحور بنایا ۔سقراط،افلاطون اور ارسطو اور دیگر یونانی فلاسفہ نے بھی ایسے نظریات بیان کئے جوجزوی مماثلت کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مسلم تاریخ فلسفہ میں بھی ہمیں فکری اختلافات کی دلچسپ داستان ملتی ہے۔اشاعرہ اور معتزلہ کی فلسفیانہ بحثوں سے کون آگاہ نہیں ہے۔ اسلام میں یونانی اثرات کی مخالفت وحمایت کا طویل تاریخی پس منظر بھی ارباب فکر ودانش سے مخفی نہیں۔ اسی طرح مغربی تاریخِ فلسفہ میں ڈیکارٹ،جان لاک، ہیوم، برکلے، روسو، والیٹئر، کانٹ، ہیگل، کارل مارکس، نطشے، شوپنہار، سپینوزا، پروفیسروہائٹ ہیڈ اور برٹرنڈ رسل وغیرہ کے افکار ونظریات بھی اسی فلسفیانہ کشمکش اور اختلاف کے آئینہ دار ہیں۔ایران میں زرتشت ‘مانی اور مزدک کے نظامہائے فکر میں ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے۔ان بدلتے ہوئے افکار کو کیسے یقینی اور حتمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے بجا ہی کہا تھا کہ’’فلسفیانہ افکار میںکوئی قطعیت موجود نہیں ہوتی‘‘۔
 
فلسفیانہ افکار کی بے یقینی اور تشکیک آمیز میلانات کا سب سے بڑا سبب کیا ہوتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ عظیم المرتبت اہل دانش اور ذہانت وفطانت کے مالک یقینی اور دائمی نظریات ہمیں کیوں نہ دے سکے؟ شروع میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ انسانی عقل اورخدائی عقل آپس میں ہم پلہ نہیں ہوسکتیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں غور وفکر کرنے کے لیے دماغی قوتیں عطا کی ہیں مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ تسخیر کائنات کے باوجود انسانی عقل بہت سے مسائلِ حیات کے حل میں ناکام رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلِ محدود کی تگ وتاز بھی محدود ہی رہتی ہے۔ یہ کسی صورت میں بھی وحی والہام کی طرح کامل اور یقینی راہنما ثابت نہیں ہوسکتی۔ اقبالؒ اسے’’چراغ راہ‘‘ تو مانتے ہیں لیکن وہ اسے منزل سے نا آشنا قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
 
؎ گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور      چراغِ راہ  ہے،  منزل  نہیں ہے
 
  دوسری ضروری بات یہ ہے کہ عقل حقیقت کو پانے کے لیے ہمیشہ اٹکل پچو، قیاس اور خیال آرائی سے کام لینے کی عادی ہے۔ تاریکی میں اکیلا ٹامک ٹوئیاں مارنے والا اندھا کبھی راہ راست کو نہیں پاسکتا۔اندھا اگر کسی دانائیِ راہ کی معیت میں چلے تو وہ لازمی طور پر گمراہ ہونے سے بچ جائے گا۔یہی حال اس عقل کا ہے جو وحی والہام کی مدد کے بغیر حقائقِ حیات اور اسرارِ کائنات کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ عقل محض حواس کی دنیا سے اپنا قریبی ربط رکھتی ہے۔حواس سے ماورا حقائق وحی والہام کے بغیر دریافت نہیںکئے جاسکتے۔
 
اب آخر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسفہ کیا ہے؟ فلسفہ ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے’’حکمت ودانائی کی محبت‘‘۔کائنات،مابعد الطبیعیاتی اُمور اور انسانی معلامات وعقائدکے بارے میںحقیقت جوئی اور حکمت طلبی فلسفیانہ اساس کا درجہ رکھتے ہین۔انسان اپنے گردو پیش کی اشیا،اپنے عقائد وخیالات،مرئی وغیر مرئی حقائق کی اصلیت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔فلسفی عام انسانوں کی نسبت اشیا اور خیالات کو جاننے کے لیے کیا،کب،کتنا،کیوں اور کیسے جیسے الفاظ استعمال  کرکے اپنے ذوقِ استفہام اور جذبہ تجسس کا ثبوت دیتا ہے۔سقراط زندگی کی بلاتحقیق روش کو ناپسند کرتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ باقی لوگ بھی ہر کام کرنے سے قبل اس کی صحیح نوعیت کو ضرور جانیں۔اس کا یہ قول ملاخطہ ہو:۔"The unexamined life is not worth living" آنکھیں بندکرکے زندگی کی ڈگر پر چلتے رہنا کوئی دانش مند انہ فعل نہیں ہوسکتا۔فلسفہ کی تغیر پذیری اور اس کے ’’نغمہ ہائے بے صوت‘‘ کے بارے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:
 
؎ ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات   
 
(کلیات اقبال،ص۳۹۸)
 
؎ انجام ِخرد  ہے  بے حضوری    ہے  فلسفہ  زندگی  سے دوری
 
افکار کے نغمہ ہائے  بے صو ت      ہیں ذوق ِعمل کے واسطے موت
 
(کلیات اقبال،ص۳۹۸)
 
 
</div>
 

Revision as of 22:49, 11 July 2018