Actions

Difference between revisions of "علم دوستی"

From IQBAL

m
 
Line 38: Line 38:
 
'''سید غلام میراں شاہ کو لکھتے ہیں:'''
 
'''سید غلام میراں شاہ کو لکھتے ہیں:'''
 
’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو۔ آپ رفیق راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو… چند روز ہوئے سر اکبرحیدری وزیر اعظم حیدر آباد کا خط مجھ کو ولایت سے آیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ اگر تمہاری معیت میں نصیب ہو تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ لیکن درویشوں کے قافلہ میں جو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہو سکتا ہے‘‘
 
’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو۔ آپ رفیق راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو… چند روز ہوئے سر اکبرحیدری وزیر اعظم حیدر آباد کا خط مجھ کو ولایت سے آیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ اگر تمہاری معیت میں نصیب ہو تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ لیکن درویشوں کے قافلہ میں جو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہو سکتا ہے‘‘
'''زبان کی ترقی کا راز'''
+
 
 +
'''زبان کی ترقی کا راز'''
 +
 
 
سردار عبدالرب خاںنشتر کو ۱۹۲۳ء میں لکھتے ہیں:
 
سردار عبدالرب خاںنشتر کو ۱۹۲۳ء میں لکھتے ہیں:
 
زبان کو میں ایک بت تصورنہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اور جب میں اس انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے‘‘۔
 
زبان کو میں ایک بت تصورنہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اور جب میں اس انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے‘‘۔
 
اسی مضمون پر مولوی عبدالحق صاحب کو چودہ برس بعد لکھا ہے:
 
اسی مضمون پر مولوی عبدالحق صاحب کو چودہ برس بعد لکھا ہے:
 
زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اورنئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کے بقا کا انحصار ہے‘‘
 
زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اورنئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کے بقا کا انحصار ہے‘‘

Latest revision as of 19:04, 27 June 2018

علم دوستی

اقبال کی نمایاں ترین خصوصیت جو ان مکاتیب سے سامنے آتی ہے ان کی علم دوستی ہے۔ خالص مذہبی مباحث سے قطع نظر بھی کرلیجیے تو اقبال ایک علم دوست اور علم پرور انسان نظر آتے ہیں اور حالات سازگار ہوتے تو یہی ان کا محبوب مشغلہ ہوتا۔ حکمائے اسلام کی بحث زمان اور مکان کی حقیقت تلاش کی جا رہی ہے۔ متکلمین نے علم مناظر و رویا کی رو سے خدائے تعالیٰ کی رویت کے امکان سے جو بحث کی ہے اس کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔ حال کے روسی علماء کی تصانیف کی جستجو کرائی جا رہی ہے۔ اور ان کے ترجمہ کی سفارش کی جا رہی ہے۔ تصوف اور حافظ پر سیر حاصل ریسرچ اور تحقیق علمی کا اہتمام کیا جا رہا ہے مسلمانوں نے منطق اسقرائی پر جو کچھ خود لکھا ہے اوریونانیوں کی منطق پر انہوںنے جو اضافے کے ہیں۔ اس کے متعلق خود تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دارالمصنیفن کی طرف سے ہندوستان کے حکما ئے اسلام پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی جا رہی ہے۔ الغزالی سے متعلق ریسرچ پر مشورہ دیا جا رہا ہے۔ نادر مخطوطات کی فہرست کی تیاری کا کام کرایا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور بیرون ہند میں کتابوں کی تلاش جاری ہے۔ کبھی فارسی کا کورس تیار کرنے کا خیال ہے۔ غرض علم دوستی علامہ کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ اسی علم دوستی کا نتیجہ ہے کہ ان کے مکاتیب کے سطر سطر سے اہل علم کا احترام پایا جاتاہے جس کی مثالیں صفحہ صفحہ پر بکھری نظر آتی ہیں۔

                 *معرکہ اسرار و رموز یا شریعت و طریقت کی جنگ*

شریعت اور تصوف

لسان العصر کو لکھتے ہیں:

’’کئی صدیوں سے علماء اور صوفیا میں طاقت کے لیے جنگ ہو رہی تھی جس میں آخر کار صوفیا غالب آئے یہاں تک کہ اب برائے نام علماء جو باقی ہیں جب تک کسی خانوادے میں بیعت نہ لیتے ہوں ہر دل عزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علماء کی طرف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجدد الف ثانی عالمگیر اور مولانا اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیاء کی کوشش کی مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع قوت نے اس گروہ احرا ر کو کامیاب نہ ہونے دیا‘‘۔ صوفیا نے لسان العصر کی تائید و اعانت حاصل کرنے کے لیے اسرار کی طرف انہیں توجہ دلائی اور انہوںنے تصوف اور بالخصوص حافظ کے متعلق علامہ کے اعتراضات کو عدم پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اقبا کو اس کے متعلق اطلاع دی۔ اقبال لسان العصر کو پیر و مرشد مانتے تھے اور کہتے تھے کہ پیر و مرشد سے کسی مرید بے ریا کا اختلاف بے حد قلق انگیز ہوتا ہے لیکن مرید نے پوری جرات اور مردانگی سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا علامہ لکھتے ہیں: ’’میں نے خواجہ حافظ پر کہٰں یہ الزا م نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے مے کشی بڑھ گئی ہے۔ میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت پر اس نصب الععین سے ضرور فائدہ ہوا ۔ اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر بھی ہے۔ خواجہ حافظؒ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا۔ نہ ان کی شخصیت سے۔ نہ اشعار میں مے سے مراد وہ مے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس مے سے مراد وہ حالات سکر ہے جو حافظ کے کلام سے بحیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے چونکہ حافظ دلی اور عارف تصور کیے گئے ہیں اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل نظر انداز کر دی ہے اور میرے ریمارک تصو ف اور ولایت پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھے گئے ہیں‘‘۔ اسی خط میں حضرت اکبر سے التجا ئے انصاف کرتے ہیں: ’’معاف کیجیے گا آپ کے خطو ط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ (ممکن ہے غلطی پر ہوں) کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی میں صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ کے متعلق لکھے گئے ہیں باقی اشعار پر شاید نظر نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو ان کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی کہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔‘‘ اس کے بعد ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’آپ مجھے تناقض کا ملزم گردانتے ہیںَ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ میری بدنصیبی ہے یہ کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کو اب تک پڑھا نہیں ہے۔ میں نے کسی گزشتہ خط میں عرض کیا تھا کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر ایک دفعہ ضرور پڑھجائیے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یہ اعتراض نہ ہوتا‘‘۔ اعتراضات کی نوعیت اور جواب خطوط کی تفصیل سے موجود ہے۔

            *غیر اسلامی تصوف اور اس کے ادبی نصب العین سے بغاوت*

اردو

اقبا ل نے اردو کی خدمت میں پوری زندگی بسر کر دی اردو شاعری اور زبان کو زیربار احسان کیا اگر وہ اردو زبان کی کچھ خدمت نہ کرتے تو اکنامکس کو اردومیں ڈھال دینے کی اولین کامیاب کوشش ان کے لیے باعث افتخار ہو سکتی تھی۔ لیکن وہ مدت العمر اس زبان کی خدمت کرتے رہے اور دوسروں کو اس کی خدمت کا شوق دلاتے رہے اوران کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ ان مکاتیب میں خود ان کی شہادت موجود ہے کہ جامعہ عثمانیہ کے ابتدائی دور میں وضع اصطلاحات میں مدد دیتے رہے۔ اردو کانفرنس میں دعوت شمولیت کے جواب میں مولوی عبدالحق کو لکھتے ہیں : ’’اس اہم معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں اگرچہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیںرکھتا تاہم میری لسانیعصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں‘‘۔ ایک دوسرے خط میں مولوی صاحب موصوف کو لکھتے ہیں: ’’آپ کی تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سر سید احمد خاں رحمتہ اللہ علیہ نے کی تھی‘‘۔ تیسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کر سکتا‘‘ اقبال کو اپنے حالات کی بنا پر اردو نثر لکھنے کا اتفاق شاذ و نادر ہی ہوتا تھا۔ لیکن بعض اوقات وہ نثر میں بھی شاعری کیا کرتے تھے اور مختصر جملوں میں شعر کی طرح حقائق بیان کرنے پر قادر تھے۔ ایک دوست کو ایک مرتبہ لکھتے ہیں: ’’فکر روزی قاتل روح ہے‘‘۔ اسی طرح مولوی عبدالحق صاحب کی ترقی اردو کے سلسلہ میں محنت و جانفشانی کی داد یہ کہہ کر دی ہے: ’’آپ ایک صاحب عزم آدمی ہیں اور یہ بات مجھے مدت سے معلوم تھی‘‘۔ ان مکاتیب میں علامہ نے زبان کی سادگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور انشاء پردازی کے جوہر دکھانے کی کوشش نہیں کی؟ البتہ جہاں کہیں موضوع کی دلکشی نے ان کے لیے ایک موقع مہیا کر دیا ہے۔ انہوںنے جو خیالات ذوق و جوش قلبی سے قلمبند کر دیے ہیں۔ ان میں زبان کی دلفریبی بدرجہ غایت موجود ہے۔ حضرات گرامی کو ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں: ’’گرامی کو خاک پنجاب جذب کرے گی یا خاک خاک دکن اس سوال کے جواب میں حسب الحکم مراقبہ کیا گیا۔ جو انکشاف ہوا عرض کیا جاتا ہے۔ گرامی مسلم ہے اور مسلم تو وہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کر سکے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے جو جامع ہے جواہر موسویت اور ابراہمییت کی۔ آگ اسے چھو جاؤئے تو بردد سلام بن جائے۔ پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ اسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکتی۔ کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہیں۔ پانی آگ جذب کر لیتا ہے عدم بود کو کھا جاتا ہے پستی بلندی میں سما جاتی ہے مگر جو قوت جامع اضداد ہو او رمحلل تمام تناقضات کی ہو اسے کون جذب کر ے۔ مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اند ر جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے… اس کی لاش خاک و خون میں تڑپ رہی تھی لیکن وہ ہستی جس کی آنکھوں میں دوشیزہ لڑکیوںسے بھی زیادہ حیا تھی جس کا قلب تاثرات لطیفہ کا سرچسمہ تھا۔ اس درد انگیز منظر سے مطلق متاثر نہ ہوئی نضیر کی بیٹی نے قتل کی خبر سنی تو نوحہ و فریاد کرتی ہوئی اور باپ کی جدائی میں درد انگیز اشعار پڑھتی ہوئی دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئی۔ اللہ اکبر اشعار سنے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر متاثر ہوئے کہ اس لڑکی کے ساتھ مل کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ جوش ہمدردی نے اس سب سے زیادہ ضبط کرنے والے انسان کے سینے میں ایک آہ سرد نکلوا کر چھوڑی… پھر مسلم جو حامل ہے محدثیت کا ور وارث ہے موسویت کا اور ابراہیمیت کا کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے۔ البتہ زمان ومکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ ذوقی و فطری نہیں بلکہ مستعار ہے ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو کبھی پامال کیا تھا‘‘۔ اس مکتوب کو حصہ اول میں تمام و کمال پڑحیے اور اقبال کی انشاء پردازی اور مطالب جمیلہ کے اظہار پر اس کے کمال فن کی داد دیجیے۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔ منشی محمد دین فوق کو لکھتے ہیں اور نفس مضمون اقبال کے لیے دلکشی رکھتا ہے۔ اقبال ولایت کے پہلے سفر کے دوران میں سویز پہنچے تو مسلمان تاجروں کی ایک کثیر تعداد جہاز پر آ موجود ہوئی اقبال ان میں سے ایک سے سگریٹ خریدتے ہوئے اسے بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ اقبال کے سر پر ہیٹ دیکھ کر اسے تسلیم کرنے میں تامل ہوتا ہے: ’’آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا اور چونکہ حافظ قرآن تھا اس واسطے میں نے چند آیات قرآنی پڑھیں تو نہایت خوش ہوا اور میرے ہاتھ چومنے لگا ۔ باقی دکانداروں کو مجھ سے ملایا اور سب میرے گرد حلقہ باندھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہنے لگے اورمیری عرض سفر معلوم کرکے دعائیں دینے لگے یا یوں کہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے۔ تھوڑی دیر کے بعد مصری نوجوانوں کا ایک نہایت خوبصورت گروہ جہاز کی سیر کو آیا۔ میں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے اس قدر مانوس معلوم ہوئے کہ مجھے ایک سیکنڈ کے لیے علی گڑھ کالج ڈیپوٹیشن کا شبہ ہوا۔ یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ میں بھی دخل در معقولات میں ان میں جا گھسا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا جیسے حریری کا کوئی مقام پڑھ رہا ہو‘‘۔ اسی خط میں نہر سویز کے متعلق لکھتے ہیں: ’’کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگ تراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا جس نے اقوام عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیا د رکھی تھی… یہ کینال جسے ایک فرانسیسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا دنیا کے عجائبا میں سے ایک ہے۔ کینال کیا ہے عرب اور افریقہ کی جدائی ہے۔ اور مشرق اور مغرب کا اتحاد۔ دنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بدھ نے بھی اس قدر اثر نہیں کیا جس قدر اس مغربی اختراع نے زمانہ حال کی تجارت پر کیا ہے‘‘۔ سید غلام میراں شاہ کو لکھتے ہیں: ’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو۔ آپ رفیق راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو… چند روز ہوئے سر اکبرحیدری وزیر اعظم حیدر آباد کا خط مجھ کو ولایت سے آیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ اگر تمہاری معیت میں نصیب ہو تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ لیکن درویشوں کے قافلہ میں جو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہو سکتا ہے‘‘

زبان کی ترقی کا راز

سردار عبدالرب خاںنشتر کو ۱۹۲۳ء میں لکھتے ہیں: زبان کو میں ایک بت تصورنہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اور جب میں اس انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے‘‘۔ اسی مضمون پر مولوی عبدالحق صاحب کو چودہ برس بعد لکھا ہے: زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اورنئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کے بقا کا انحصار ہے‘‘