Actions

عالم اسلام

From IQBAL

Revision as of 10:27, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> ’’دنیاے اسلام‘‘ کے تحت اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر عالم اسلام ک...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)


’’دنیاے اسلام‘‘ کے تحت اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر عالم اسلام کی وہ صورت حال ہے جس کاذکر ابتدا میں کیاگیا ہے۔ خضر سے شاعر کا سوال ہے: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰ خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش جواب میں خضر کہتے ہیں: کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال عربوں اور ترکوں کی باہمی آویزش کے اسباب و علل اور نتائج و عواقب سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کے بارے میں انھیں سخت تشویش تھی۔ پہلے شعر میں ’’ہاشمی ‘‘سے مراد مکہ کا شریف ( یعنی حکمران) حسین ہے۔ علامّہ کو اس بات کا سخت قلق تھا کہ عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کے خونِ ناحق سے ہاتھ رنگے۔ مغربیوں نے بھی پہلے جنگِ بلقان اور پھر جنگِ عظیم میں ترکوں کی قتل و غارت گری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا: ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو ’’کلاہ ِلالہ رنگ‘‘ سے مراد خلافت ہے ۔ اس زمانے ( ۱۹۲۲ئ) میں ’’ نوجوان ترکوں ‘‘ خاص طور پر کمال اتاترک اور اس کے ہم خیال ساتھیوں نے ’’ خلافت‘‘ کے ادارے کو عضوِمعطل بنا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے تیور بتارہے تھے کہ وہ خلافت کو، جوپہلے ہی براے نام تھی ‘ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کریں گے۔ خلافت کی اس بے وقعتی پر اقبال ہی نہیں، ہندستان کے تمام زعما اور درد مند مسلمان بے چین تھے۔ تحریک خلافت اسی بے چینی ‘ ملی احساس اور درد مندانہ تڑپ کا نتیجہ تھی۔ اس اضطراب کے نتیجے میں ہندستان سے سیدامیر علی اور سر آغا خاں نے ترک لیڈروں کو خط لکھا کہ دنیا بھر کے مسلمان، خلیفہ کی موجودہ غیر موثر حیثیت سے مطمئن نہیں لہٰذا خلافت کو پورے اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے۔ مگر اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں خلافت کی بساط لپیٹ دی۔ اقبال کے نزدیک حکمت مغرب ( عیارانہ ڈپلومیسی یا سیاسی چال بازی) زوال مسلم کا ایک سبب ہے اور دوسری وجہ خود مسلمانوں کا اپنے مذہب و اخلاق سے انحراف ہے۔ اقبال مسلمانوں کی اس حالت زار پر سخت متاسف ‘ بے چین اور مضطرب ہیں۔ وہ پھر اسی سنہرے دور کے منتظر ہیں جب دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلام کی حاکمیت قائم تھی۔ مگر اس کی واپسی کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں نے اپنا جو (Image) بنا رکھا ہے ‘ اسے تبدیل کیا جائے مغربی تہذیب کی نقالی ‘ یورپ کی ذہنی غلامی اور اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ فرومایگی اسی کے مظاہر ہیں۔ یہ سب باتیں ’’ زمین و آسمانِ مستعار‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ جب تک مسلمان اسے پھونک نہیں ڈالتا اس وقت تک ’’ جہانِ نو‘‘ تعمیر ہونا ممکن نہیں ۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے فارسی کو فلسفۂ خودی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کی سربلندی ‘ دین کے تحفظ اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے اتحادِ اسلامی ناگزیر ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا باہمی اتحاد فکرِ اقبال کا اہم پہلو ہے۔ اس کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ وطن ‘ نسل ‘ رنگ یا زبان ۔ فکر اقبال کا یہ پہلو‘ قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا َتفَرَّقُوْا( آل عمران: ۱۰۳)سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ (آل عمران: ۱۰۵) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ علامّہ اقبال نے مسلمانوں کو ’’بتانِ رنگ و بو‘‘ کو توڑنے کا مشورہ دیا اس لیے کہ یورپ میں نسلی اور وطنی امتیاز کی بنیاد پر فروغ پانے والی قوم پرستی کے مہلک نتائج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ جناب وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن‘ اسلام اور اسلامیوں کا، نسلی امتیاز و ملکی قومیّت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا، اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا‘‘۔ ( انوار اقبال: ص ۱۷۶) عرب ترک آویزش کا سبب عصر نو کا یہی فتنہ ہے جس سے عرب دھوکا کھا گئے، مگر انھوں نے ابھی تک اس سے سبق نہیںسیکھا۔ اپنی داستانِ عبرت آج تقریباً ایک صدی بعد بھی عربوں کو متحد نہیں کر سکی۔ علامّہ اقبال کا یہ شعر عربوں کی موجودہ حالت کی تفسیر ہے: نسل اگر مسلم کی ‘ مذہب پر مقد م ہو گئی اڑ گیا دنیاسے تو مانندِ خاکِ رہ گزر یہ شعر اور اس بند کا آخر ی شعر: اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش اسی آیت کریمہ ( وَ لَا تَفَرَّقُوْا…)کی تشریح ہے ۔ سیاسی اور بین الاقوامی سطح سے قطع نظر ‘ مسلمان دین و شریعت کی فروعی باتوں اور معمولی مسائل پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ مناظر ہ بازی اور شغلِ تکفیر مولویوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ان کا سارا زور ایسے مسائل پر صرف ہو رہا ہے کہ حضراتِ صحابہؓ میں سیدنا ابوبکرؓ افضل تھے یا سیدنا علیؓ؟ اقبال مسلمانوں کو اس غلط روش سے محترز اور ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔آخری بند اختتامیہ ہے۔ خضر نے اس سے پہلے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا فتنہ مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب اور فرنگی سامراج ہے جس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی و اقتصادی اور ذہنی طور پر مسلمانوں کو تباہ کیاہے۔ دوسری طرف مغرب نے سائنسی ترقی کے سبب اپنی ہلاکت کا سامان خود مہیا کر لیا ہے۔ اب صورت حال بدل رہی ہے ۔ صیاد خود اپنے ہی دام میں الجھنے والا ہے۔ وہ زمانہ بہت قریب ہے جب سرمایہ دارانہ تہذیب اپنی موت آپ مرجائے گی۔ استعارے کی زبان میں یہ بات یوں بیان کی ہے: تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ اس سے پہلے ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال کہہ چکے ہیں: دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی اقبال کو یقین ِ کامل ہے کہ دنیا کی امامت کا منصب یورپی تہذیب کی خود کشی کے سبب خالی ہونے والا ہے ۔ مسلمان اپنی خاکستر سے ایک جہانِ نو تخلیق کرکے اس منصب کو سنبھالیں گے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلتے رہے تو یقیناً دنیا میں انھیں غلبہ و اقتدار حاصل ہو کر رہے گا۔ اَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ آل عمران: ۱۳۹)غلبہ و اقتدار تمھیں ہی حاصل ہوگا اگر تم مومن ہو۔ اور اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد (سورہ آل عمران :۹) اللہ تعالیٰ اپناوعدہ کبھی خلاف نہیں کرتا۔ ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار میں اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔