Actions

طلوعِ اسلام

From IQBAL

Revision as of 11:18, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with " <div dir="rtl"> '''٭تعارف اور پس منظر''' بانگِ دراکی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ ا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

٭تعارف اور پس منظر

بانگِ دراکی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ ۱۹۲۳ء میں پڑ ھی گئی۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ آخری طویل نظم ہے جو اقبال نے انجمن کے جلسے میں خود پڑ ھ کر سنائی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت ‘ بہت سی دوسری نظموں کے برعکس ،اس نظم کو بغیر کسی ترمیم کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔ ’’خضرراہ ‘‘ کے آخری حصے میں اقبال نے مسلمانوں کے روشن اور پر امید مستقبل کی جو نوید سنائی دی’’ طلوعِ اسلام‘‘ اس کا تتمہ ہے۔ ۱۹۲۳ء کی صورت حال گذشتہ سال کے مقابلے میں حوصلہ افزا اور اطمینان بخش تھی۔ ترکوں کو یونانیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے عصمت پاشا کی سر کر دگی میں سمرنا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح پر ہندی مسلمانوں نے زبردست خوشیاں منائیں اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے۔ ترکوں کو مشرقی یونان اور اَدَرْنہ بھی واپس مل گئے۔ ایران بھی انقلابی تبدیلیوں کی طرف گامزن تھا۔ مصر سے برطانوی پروٹیکٹوریٹ ختم ہوا اور سعد زاغلول پاشا کی قیادت میں مصر نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے مقابلے میں مجاہد ریف عبدالکریم کا پلہ بھاری تھا۔ ہندستان میں تحریک ِ ترکِ موالات زوروں پر تھی‘ جس کے متاثرین میں اسی فیصد مسلمان تھے۔ بیداری کی اس لہر نے ہندی مسلمانوں کے جذبات میں زبردست ہل چل مچادی تھی۔ غرض یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسلمان ممالک سامراجیت اور غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لیے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں۔ علامّہ اقبال اس کیفیت سے بے خبر نہ تھے۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ اسی کیفیت کا پر جوش اور فن کارانہ اظہار ہے۔ غلام رسول مہرؔ کے بقول یہ نظم ’’ سراسر احیاے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے‘‘۔