Actions

Difference between revisions of "شعور"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’شعور کاکام ایسا نقطہ نور مہیا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(One intermediate revision by one other user not shown)
(No difference)

Latest revision as of 01:03, 20 July 2018

(۱)’’شعور کاکام ایسا نقطہ نور مہیا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔یہ نقطہ موقع ومحل کے مطابق پھیلتا اور سکڑتا ہے۔اس طرح شعور ِزندگی کے خالصتاً روحانی اُصول کے تنوع کا نام ہے جو مادّہ نہیں بلکہ ایک نتظیمی اُصول اور محضوص طریق عمل ہے‘‘۔ (دوسراخطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی کتاب’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں ہر قسم کے اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔اس کتاب میں صرف دین ومذہب اور سیاسیات ہی پر روشنی نہیں ڈالی گئی بلکہ معاشرت،معیشت، تاریخ، تصوف ومعرفت اور نفسیات کے بارے میں بھی خیالات کو بیان کیا گیاہے۔ مندرجہ بالا الفاظ میں اُنھوں نے شعور کی نوعیت اور اہمیت کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے جسے فوراً سمجھ لینا کسی قدر دشوار نظر آتا ہے۔شعور کی بحث کے ضمن میں اُنھوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے: (۱) شعور ایک ایسا نورانی نقطہ ہے جوزندگی کی پیش رفت اور ارتقائی حرکت کو منور کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی کتاب’’اسرار خودی‘‘ میں خودی کو بھی’’نقطہ نورے‘‘اور ہمارے جسم میں اُسے’’شرارِ زندگی کا نام دیاہے: ؎ نقطہ نورے کہ نامِ اُو خود ی است زیر خاکِ ماشرارِ زندگی است(کلیات اقبال‘فارسی) (ب) اپنے خطبات میں اُنھوں نے اسے حالت کشمکش اور ارتکازِ ذات کی حالت بھی کہا ہے: "It is a case of tension, a state of self-concentration--" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.40) (ج) علامہ اقبالؒ کی رائے میں شعور(نقطہ نوری) موقع ومحل کے مطابق بڑھتا اور کم ہوتا رہتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ساز گار اور ناسازگار حالات سے اس کے پیدا شدہ رّدعمل پر اس کی فراخی اور تنگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ وہ ’’اسرارِ خودی‘‘ میں اس کی پائندگی‘شعور‘سوزِزندگی اور تابندگی کو جذبہ عشق ومحبت پر مبنی خیال کرکے فرماتے ہیں: ؎ از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر‘سوزندہ تر‘تابندہ تر

           از  محبت  اشتعال جوہرش       ارتقائے ممکناتِ  مضمرش    (ایضاً)  

علامہ اقبالؒ شعور کو زندگی کے روحانی اُصول کی قسم قرار دیتے ہیں۔اس نقطہ نظر سے شعور مادّے کی پیدا وار نہیں۔اگر ہم اسے مادّے کی پیدا وار خیال کریں تو پھر ہم اس کی آزادی اور سرگرمی کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ شعور اور مادّے کے باہمی ربطہ وامتیاز کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ ؎ چہ نورے جاں فروزے سینہ تابے نیر زد با شعاعش آفتابے

بخاک آلودہ وپاک ازمکان است       بہ بندِ روز وشب پاک از زمان است

(کلیات اقبال،فارسی،ص۵۴۰)

جرمنی کا ایک مشہور فلسفی شوپنہار(۱۸۶۰۔۱۷۸۸ئ) شعور کی نوعیت کی یوں تعریف کرتا ہے:

"Consciousness is the mere surface of our minds, of which, as of the earth, we do not know the inside but only the crust." (Will Durant,Outline of Philosophy,p.274) (ہ) شعور کو علامہ اقبالؒ نے ایک’’تنظیمی اُصول‘‘ اور’’محضوص طریق عمل‘‘ کا نام دیا ہے۔اس لحاظ سے شعور ایک ایسی قوت ناظمہ ٹھہرتی ہے جو ہمارے خیالات اور احساسات کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کرتی ہے۔ہمارے گوناگوں افکار وجذبات کی یہ شیرازہ بندی شعور کی خاص امتیازی حیثیت ہے۔ جس طرح عقل کی کئی قسمیں ہیں اسی طرح شعور کے بھی کئی مدارج ہیں ۔ شعور ناقص اور شعور کامل ‘عام انسانی شعور‘ صوفیانہ شعور اور پیغمبرانہ شعور وغیرہ۔ (۲) ولیم جیمز شعور کو ’’جوئے خیال‘‘تصور کرتا ہے۔اس سے اُس کی مراد مسلسل تغیرات کی شعوری رُو ہے…دراصل شعور ایک وحدت ہے اور ذہنی کیفیات کی بنیاد ہے۔ یہ شعور کے اُن اجزا کا مجموعہ نہیں جو ایک دوسرے کو اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ)

  امریکہ کے نامور فلسفی اور ماہر نفسیاتWilliam James(۱۹۱۰۔۱۸۴۲ئ) نے اپنی کتاب’’ اُصول نفسیات‘‘مطبوعہ ۱۸۹۰ء میں تجرباتی نفسیات کی بنیاد ڈالی تھی۔وہ ہر نظریے کو اس کی عملی قدر وقیمت کے مطابق اچھا،برا،مفید یا مضر خیال کرنے کا حامی تھا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا الفاظ میںولیم جیمز کے نظریہ شعور کو بیان کرنے کے علاوہ اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ ولیم جیمز کو انگریز نفسیات دانوں کے ایک مکتب فکر کی جوہر پرستانہ(atomistic) نفسیات سے سخت اختلاف تھا جس نے خیال کو میکانکی طور پر آپس میں مربوط الگ نظریات کا سلسلہ قرار دیا تھا۔ یہ ماہرین نفسیات خیال کو جداگانہ نظریات کے میکانکی ربط کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ ولیم جیمز نے اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’خیال منتشر تصورات کا سلسلہ نہیں بلکہ یہ ندّی کی مانند رواں دواں ہے‘‘۔ باالفاظ دیگر یہ جذبات واحساسات کی ایسی وحدت ہے جس میں تصورات بھی شامل ہوتے ہیں۔ولیم جیمز کے اس نظریے کی روح یہ ہے:

"Consciousness is not an entity, not a thing, but a flux and system of relations; it is a point at which the sequence and relationship of thoughts coincide illuminatingly with the sequence of events and relationship of things." (Outline of Philospphy,p.436)

علامہ اقبال ؒنے ولیم جیمز کے تصورِ شعور کے بارے میں جو کچھ اوپر کہا ہے اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل اُمور لائق مطالعہ ہیں:

(ا) ولیم جیمز شعور کی تعریف کرتے ہوئے اسے’’جوئے خیال ‘‘کہتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ’’جوئے خیال ‘‘سے ولیم جیمز کی مراد مسلسل تغیرات کی شعوری رو ہے۔ (۲) ولیم جیمز کی رائے میں شعور(جوئے خیال) یا خودی ہمارے ذاتی احساسات وجذبات پر مشتمل ہونے کی حیثیت سے ہمارے نظام فکر ہی کا حصہ ہے۔اس لحاظ سے خودی فکر کا حصہ قرار پاتی ہے۔

  علامہ اقبالؒ ولیم جیمز کے اس نظریہ شعور وخودی سے مکمل طور پر متفق نہیں کیونکہ وہ خودی اور شعور(نقطہ نوری) کو ایک ناقابل تقسیم وحدت اور ذہنی کیفیات کی بنیاد سمجھتے ہیں۔’’جوئے خیال‘‘ سے تو حضرت علامہ اقبالؒ کو اتفاق ہے مگر وہ اسے خیال وفکر کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔اُن کی رائے میں خودی اور شعور کو ذہنی کیفیت اور خیال پر تقدم حاصل ہے اس لیے ولیم جیمز کا یہ تصور مکمل طور پر ہمارے باطنی شعور(خودی) کی ماہیت کا انکشاف نہیں کرتا۔وہ اس کو ہدف تنقید بناتے ہیں:۔

"Consciousness is something single, presupposed in all mental life, and not bits of consciousness mutually reporting to one another" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.102)