Actions

Difference between revisions of "شریعت اور طریقت"

From IQBAL

(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
Line 1: Line 1:
 
+
<div dir="rtl">
 +
(۱)’’عبدالقدوس گنگوہیؒ نے کہا تھا:’’ محمد عربیؐ عر شِ معلّٰی پر پہنچ کر واپس آگئے تھے لیکن اگر میں اُس مقام تک پہنچتا تو خدا کی قسم ہرگز واپس نہ آتا‘‘
 +
(پانچواں خطبہ)
 +
برصغیر پاک وہند کے ایک مشہور ولی عبدالقدوس گنگوہیؒ تصوف اور معرفت کے اسرار ورموزِ سے باخبر تھے۔اُنھوں نے ایک بار قلبی واردات اور روحانی مکاشفات کی اہمیت اور غایت الہٰی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجھے مقام نبوت عطا ہوتا اور میں رسول کریمؐ کے مانند معراج کے لیے عرش معلّٰی تک پہنچتا تو میں ہرگز وہاں سے واپس نہ آتا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ ذیل قول میں اسی صوفیانہ شعور اور شعور نبوت کے بنیادی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
 +
صوفی کامقصد حیات خدا تعالیٰ کا وصال اور ذاتِ الہٰی میں ادغام ہوتا ہے۔ تمام صوفیانہ تربیت اور روحانی مدارج کا نقطہ کمال ذاتِ خداوندی میں اس طرح مل جانا ہے جیسے قطرہ سمندر میںجاکر مل جاتا ہے۔تصوف ومعرفت کا یہی سب سے بڑا نصب العین قرار دیا جاتا ہے۔اس کے برعکس نبی اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے بعد واپس آجاتا ہے تاکہ وہ خدائی قرب کی بدولت حاصل ہونے والے فیوض واثرات سے سب انسانوں کی زندگیوں میں تعمیری اور دیرپا انقلاب پیدا کرسکے۔ صوفی اور نبی کے فرق مقاصد کے اہم پہلو درج ذیل ہیں:
 +
(۱) صوفی کی نظر میںقلبی واردات اور وجدانی کیفیات کی غایتِ اُولی محض دیدار الہٰی اور  وصال ابدی ہے۔اس کے برعکس نبی یا پیغمبر دیدار خداوندی اور قرب الہٰی کو منتہائے مقصود سمجھ کر اسی دنیا میں گم نہیں رہتا بلکہ وہ معاشرے میں حیرت انگیز انقلاب کا علم بردار بن جاتا ہے۔
 +
(۲) صوفی صرف اپنی ذاتی نجات کے لیے زیادہ تر تگ ودو کرتا ہے جبکہ نبی باقی انسانوں کی نجات اور فلاح کے لیے سرگرمِ عمل رہتا ہے۔
 +
(۳)صوفی خدا کا قرب پانے کے بعد دنیا میں رجعت کا خواہاں نہیں ہوتا۔اس کے برعکس نبی کی رجعت انسانیت ساز، تعمیری،دیرپاا ور عظیم معاشرتی اور ذہنی انقلاب کی تخلیق کا باعث بن جاتی ہے۔
 +
(۴) نبی یاپیغمبر اپنی وجدانی کیفیات اور روحانی واردات کو ایک عملی اور زندہ شکل میں دیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔یہی اس کے روحانی مکاشفات اور عہد آفریں کمالات کی قدر وقیمت کا عملی امتحان ہوتا ہے۔
 +
(۵) صوفی خلوت پسندی کا دلدادہ ہوتا ہے جبکہ نبی جلوت آرائی کو بھی پسند کرتا ہے۔
 +
(۶) صوفی زیادہ تر روحانی تطہیر پر زور دیتا ہے۔نبی روحانی پاکیزگی کے علاوہ باقی شعبہ جات زندگی میں بھی تطہیر چاہتا ہے۔
 +
علامہ اقبالؒ اس بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔
 +
"The  Prophet's  return is creative"
 +
(The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.124)   
 +
علامہ اقبالؒکے مندرجہ ذیل اشعار نبوت کے چند اہم اور نمایاں پہلوئوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:۔
 +
؎  پختہ ساز  و  صحبتش ہر خام را    تازہ  غوغائے  دہد  اّیام  را
 +
  حکمتش  برتر  زعقلِ ذوفنون    از  ضمیرش  اُمّتے  آید بروں
 +
  بحر و  بر از  زورِ طوفانش خراب    در  نگاہ  اُو  پیام انقلاب
 +
    من  نمے دانم  چہ  ا فسون می کند    روح  را  در تن دگرگوں می کند
 +
(کلیات اقبال، (فارسی )،ص ۸۰۹۔۸۰۸)
 +
(۲)پیغمبر اسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘‘
 +
(پانچواں خطبہ)
 +
علامہ اقبالؒ نے ہادئی اعظم اور محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات کے کمالات نبوتّ اور صفات حسنہ کا بار بار اپنی شاعری اور نثر میں بڑے احترام کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔محبوبؐ خداکا ذکر کرتے ہی اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رسول کریمؐ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اُنھوں نے ذاتِ محمدیؐ کے گوناگوں محاسن کا محض جذباتی انداز ہی سے نہیں بلکہ فکری اور تاریخی طور پر بھی بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔جوں جوں وہ محمدیؐ تعلیمات اور کردارِ رسول کریمؐ کا مطالعہ کرتے گئے تو ں توں اُن پر عظمت رسولؐ کے اسرار منکشف ہوتے گئے۔اس لحاظ سے اُن کا تذکرہ رسولؐ جذ بہ و فکر کا حسین اور روح پرور امتزاج ہے۔
 +
پیغمبر اسلام  ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو علامہ اقبالؒ نے قدیم اور جدید دنیائوں کے درمیان مقام اتصال قرار دیا ہے۔ اُن کی رائے میں رسول کریمؐ کی نبوت ماضی اور حال دونوں سے پیوستہ ہے کیونکہ اپنے سرچشمہ الہام کی بدولت وہ دنیائے قدیم سے تعلق رکھتے ہیں مگر اپنے الہام کی سپرٹ کی رُو سے وہ دنیائے جدید کے بھی قائد ہیں۔شاعر مشرق اور مفکر اسلامؒ کا خیال ہے کہ نبی کریمؐ کی ختم نبوتّ نے ہمیں اس بات کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے کہ انسانیت ذہنی بلوغ کی حامل ہوگئی ہے اس لیے اب انسانوں کو خدائی ہدایت کے ابد ی اُصولوں کی روشنی میں جدید مسائل کے حل کے لیے فکر وتدبر‘ مطالعہ کائنات اور تاریخ سے بھی کام لینے کی اجازت مل گئی ہے۔دوسرے لفظوں میں نبوتّ محمدیؐ موجودہ اور آئندہ ادوار کے لیے بھی روشنی کا عظیم ترین مینار ثابت ہوگی۔ آئیے پیغمبر اسلام ؐ سے پہلے کی قدیم دنیا اور جدید دنیا کے اختلاف اور رحمتِ دوعالم  ﷺ کی مرکزی حیثیت کا اجمالی جائزہ لیں:
 +
(۱) ازمنہ قدیم میں انسانی ذہن طفولیت کے عالم میں تھا اس لیے وہ اسرارِ کائنات اور ادق مسائل حیات کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ان حالات میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انبیائے کرام  ؑکا سلسلہ جاری کیا گیا ۔
 +
(۲) دنیائے قدیم کے لوگوں کے لیے خدائی ہدایت کی رُو سے الہام ووحی پر مبنی احکام دئیے گئے تاکہ لوگ ان بنے بنائے اُصولوں پر بلاچون وچرا عمل کرتے جائیں۔
 +
(۳)رسول کریم  ﷺ کی نبوتّ اس بات کی غماز تھی کہ اب انسانوں کو ذہنی بلوغت حاصل ہوچکی ہے اس لیے وہ الہام کے ساتھ ساتھ وحی کی روشنی میں اپنے نئے نئے مسائل کی گرہ کشائی کے لیے غور وفکر‘مشاہدہ کائنات اور مطالعہ فطرت سے بھی کام لے سکتے ہیں۔
 +
(۴) قرآن مجید کا نزول فی الحقیقت عقل استقرائی اور تفکر وتدبر کا آغاز ہے۔قرآن مجید نے جا بجا ہمیں کائنات کے عمیق مشاہدے اور تاریخ کے گہرے مطالعہ کی دعوت دی ہے تاکہ ہم تسخیر کائنات کے لائق بن جائیں۔ اس قرآنی تعلیم کی بدولت مسلمان تجرباتی سائنس کے بانی بنے اور بعد ازاں مغربی ملکوں نے اُن سے فیض حاصل کرکے جدید علوم کو بہت فروغ دیا۔
 +
(۵) سابقہ انبیائے کرامؑ کی طرح رسول کریمؐ بھی سرچشمہ الہام سے فیض یاب ہوئے مگر اُنکی نبوتّ مقامی اور ہنگامی نہیں کیونکہ اب اُن کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔موجودہ اور آنے والے ادوار کے انسان اب نبوتّ محمدیؐ ہی کے زیر اثر رہیں گے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی ملاخطہ ہوں۔و ہ کہتے ہیں:
 +
  ؎پس خدا بر  ما شریعت ختم کرد    بررسولؐ  ما  رسالت ختم کرد
 +
  رونق  ازما  محفل  اّیام  را      او  رسل  را ختم و  ما اقوام را 
 +
(کلیات اقبال،(فارسی،ص۱۰۲)
 +
</div>

Latest revision as of 01:03, 20 July 2018

(۱)’’عبدالقدوس گنگوہیؒ نے کہا تھا:’’ محمد عربیؐ عر شِ معلّٰی پر پہنچ کر واپس آگئے تھے لیکن اگر میں اُس مقام تک پہنچتا تو خدا کی قسم ہرگز واپس نہ آتا‘‘ (پانچواں خطبہ)

برصغیر پاک وہند کے ایک مشہور ولی عبدالقدوس گنگوہیؒ تصوف اور معرفت کے اسرار ورموزِ سے باخبر تھے۔اُنھوں نے ایک بار قلبی واردات اور روحانی مکاشفات کی اہمیت اور غایت الہٰی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجھے مقام نبوت عطا ہوتا اور میں رسول کریمؐ کے مانند معراج کے لیے عرش معلّٰی تک پہنچتا تو میں ہرگز وہاں سے واپس نہ آتا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ ذیل قول میں اسی صوفیانہ شعور اور شعور نبوت کے بنیادی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

صوفی کامقصد حیات خدا تعالیٰ کا وصال اور ذاتِ الہٰی میں ادغام ہوتا ہے۔ تمام صوفیانہ تربیت اور روحانی مدارج کا نقطہ کمال ذاتِ خداوندی میں اس طرح مل جانا ہے جیسے قطرہ سمندر میںجاکر مل جاتا ہے۔تصوف ومعرفت کا یہی سب سے بڑا نصب العین قرار دیا جاتا ہے۔اس کے برعکس نبی اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے بعد واپس آجاتا ہے تاکہ وہ خدائی قرب کی بدولت حاصل ہونے والے فیوض واثرات سے سب انسانوں کی زندگیوں میں تعمیری اور دیرپا انقلاب پیدا کرسکے۔ صوفی اور نبی کے فرق مقاصد کے اہم پہلو درج ذیل ہیں: (۱) صوفی کی نظر میںقلبی واردات اور وجدانی کیفیات کی غایتِ اُولی محض دیدار الہٰی اور وصال ابدی ہے۔اس کے برعکس نبی یا پیغمبر دیدار خداوندی اور قرب الہٰی کو منتہائے مقصود سمجھ کر اسی دنیا میں گم نہیں رہتا بلکہ وہ معاشرے میں حیرت انگیز انقلاب کا علم بردار بن جاتا ہے۔ (۲) صوفی صرف اپنی ذاتی نجات کے لیے زیادہ تر تگ ودو کرتا ہے جبکہ نبی باقی انسانوں کی نجات اور فلاح کے لیے سرگرمِ عمل رہتا ہے۔ (۳)صوفی خدا کا قرب پانے کے بعد دنیا میں رجعت کا خواہاں نہیں ہوتا۔اس کے برعکس نبی کی رجعت انسانیت ساز، تعمیری،دیرپاا ور عظیم معاشرتی اور ذہنی انقلاب کی تخلیق کا باعث بن جاتی ہے۔ (۴) نبی یاپیغمبر اپنی وجدانی کیفیات اور روحانی واردات کو ایک عملی اور زندہ شکل میں دیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔یہی اس کے روحانی مکاشفات اور عہد آفریں کمالات کی قدر وقیمت کا عملی امتحان ہوتا ہے۔ (۵) صوفی خلوت پسندی کا دلدادہ ہوتا ہے جبکہ نبی جلوت آرائی کو بھی پسند کرتا ہے۔ (۶) صوفی زیادہ تر روحانی تطہیر پر زور دیتا ہے۔نبی روحانی پاکیزگی کے علاوہ باقی شعبہ جات زندگی میں بھی تطہیر چاہتا ہے۔

علامہ اقبالؒ اس بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔

"The Prophet's return is creative" (The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.124) علامہ اقبالؒکے مندرجہ ذیل اشعار نبوت کے چند اہم اور نمایاں پہلوئوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:۔ ؎ پختہ ساز و صحبتش ہر خام را تازہ غوغائے دہد اّیام را

  حکمتش  برتر  زعقلِ ذوفنون     از  ضمیرش  اُمّتے  آید بروں
 بحر و  بر از  زورِ طوفانش خراب     در   نگاہ   اُو   پیام انقلاب
   من  نمے دانم  چہ  ا فسون می کند     روح  را   در تن دگرگوں می کند

(کلیات اقبال، (فارسی )،ص ۸۰۹۔۸۰۸) (۲)پیغمبر اسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے ہادئی اعظم اور محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات کے کمالات نبوتّ اور صفات حسنہ کا بار بار اپنی شاعری اور نثر میں بڑے احترام کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔محبوبؐ خداکا ذکر کرتے ہی اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رسول کریمؐ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اُنھوں نے ذاتِ محمدیؐ کے گوناگوں محاسن کا محض جذباتی انداز ہی سے نہیں بلکہ فکری اور تاریخی طور پر بھی بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔جوں جوں وہ محمدیؐ تعلیمات اور کردارِ رسول کریمؐ کا مطالعہ کرتے گئے تو ں توں اُن پر عظمت رسولؐ کے اسرار منکشف ہوتے گئے۔اس لحاظ سے اُن کا تذکرہ رسولؐ جذ بہ و فکر کا حسین اور روح پرور امتزاج ہے۔

پیغمبر اسلام  ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو علامہ اقبالؒ نے قدیم اور جدید دنیائوں کے درمیان مقام اتصال قرار دیا ہے۔ اُن کی رائے میں رسول کریمؐ کی نبوت ماضی اور حال دونوں سے پیوستہ ہے کیونکہ اپنے سرچشمہ الہام کی بدولت وہ دنیائے قدیم سے تعلق رکھتے ہیں مگر اپنے الہام کی سپرٹ کی رُو سے وہ دنیائے جدید کے بھی قائد ہیں۔شاعر مشرق اور مفکر اسلامؒ کا خیال ہے کہ نبی کریمؐ کی ختم نبوتّ نے ہمیں اس بات کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے کہ انسانیت ذہنی بلوغ کی حامل ہوگئی ہے اس لیے اب انسانوں کو خدائی ہدایت کے ابد ی اُصولوں کی روشنی میں جدید مسائل کے حل کے لیے فکر وتدبر‘ مطالعہ کائنات اور تاریخ سے بھی کام لینے کی اجازت مل گئی ہے۔دوسرے لفظوں میں نبوتّ محمدیؐ موجودہ اور آئندہ ادوار کے لیے بھی روشنی کا عظیم ترین مینار ثابت ہوگی۔ آئیے پیغمبر اسلام ؐ سے پہلے کی قدیم دنیا اور جدید دنیا کے اختلاف اور رحمتِ دوعالم  ﷺ کی مرکزی حیثیت کا اجمالی جائزہ لیں:

(۱) ازمنہ قدیم میں انسانی ذہن طفولیت کے عالم میں تھا اس لیے وہ اسرارِ کائنات اور ادق مسائل حیات کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ان حالات میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انبیائے کرام ؑکا سلسلہ جاری کیا گیا ۔ (۲) دنیائے قدیم کے لوگوں کے لیے خدائی ہدایت کی رُو سے الہام ووحی پر مبنی احکام دئیے گئے تاکہ لوگ ان بنے بنائے اُصولوں پر بلاچون وچرا عمل کرتے جائیں۔ (۳)رسول کریم ﷺ کی نبوتّ اس بات کی غماز تھی کہ اب انسانوں کو ذہنی بلوغت حاصل ہوچکی ہے اس لیے وہ الہام کے ساتھ ساتھ وحی کی روشنی میں اپنے نئے نئے مسائل کی گرہ کشائی کے لیے غور وفکر‘مشاہدہ کائنات اور مطالعہ فطرت سے بھی کام لے سکتے ہیں۔ (۴) قرآن مجید کا نزول فی الحقیقت عقل استقرائی اور تفکر وتدبر کا آغاز ہے۔قرآن مجید نے جا بجا ہمیں کائنات کے عمیق مشاہدے اور تاریخ کے گہرے مطالعہ کی دعوت دی ہے تاکہ ہم تسخیر کائنات کے لائق بن جائیں۔ اس قرآنی تعلیم کی بدولت مسلمان تجرباتی سائنس کے بانی بنے اور بعد ازاں مغربی ملکوں نے اُن سے فیض حاصل کرکے جدید علوم کو بہت فروغ دیا۔ (۵) سابقہ انبیائے کرامؑ کی طرح رسول کریمؐ بھی سرچشمہ الہام سے فیض یاب ہوئے مگر اُنکی نبوتّ مقامی اور ہنگامی نہیں کیونکہ اب اُن کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔موجودہ اور آنے والے ادوار کے انسان اب نبوتّ محمدیؐ ہی کے زیر اثر رہیں گے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی ملاخطہ ہوں۔و ہ کہتے ہیں:

  ؎پس خدا بر  ما شریعت ختم کرد     بررسولؐ  ما  رسالت ختم کرد
  رونق  ازما  محفل  اّیام  را      او  رسل  را ختم و  ما اقوام را  

(کلیات اقبال،(فارسی،ص۱۰۲)