Actions

سیاسی صورت حال

From IQBAL

Revision as of 17:14, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with " <div dir="rtl"> سب سے پہلے ہم مشرق وسطیٰ اور سلطنت عثمانیہ کی صورت حال کا تاریخی جائزہ لیں گے کیونکہ اق...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

سب سے پہلے ہم مشرق وسطیٰ اور سلطنت عثمانیہ کی صورت حال کا تاریخی جائزہ لیں گے کیونکہ اقبال کی طویل نظموں کے پس منظر میں عالم اسلام کے اس مرکزی خطے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ۱۳ ویں صدی عیسوی میں رکھی گئی۔ اس کا بانی عثمان اول (۱۲۸۸ئ۔۱۳۲۶ئ)تسلیم کیا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ ایک مضبوط اور ابھرتی ہوئی طاقت تھی اس لیے ترکی سے ملحقہ علاقے ۱۵ویں صدی میں رفتہ رفتہ اس کے سامنے سرنگوں ہو تے چلے گئے اور مختلف یورپی علاقے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گئے۔ سلطان محمد فاتح (۱۴۵۱ئ-۱۴۸۱ئ) کے ہاتھوں ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح ہوا اور بازنطینی سلطنت ختم ہو گئی۔ اس تاریخی شہر کی فتح سلطنت عثمانیہ بلکہ پوری اسلامی تاریخ میں ایک غیر معمولی او ر یادگار واقعہ ہے۔ اس فتح سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی پوری ہوگئی کہ :’’ خدا نے مجھے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی کنجیاں دے دی ہیں‘‘۔ ایران کے شاہانِ اکاسرہ کی بادشاہت تو خلفاے راشدین کے دور ہی میں ختم ہو گئی تھی، اب قیصر کی حکومت بھی ختم ہوئی۔آں حضورؐ نے قسطنطنیہ (موجودہ: استامبول یا استنبول)کی فاتح فوجوں کو مغفرت کی بشارت دی تھی۔ محمد فاتح ہی کے عہد میں بوسنیامفتوح ہو کر سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا (۱۴۶۳ئ)محمد فاتح ۱۴۸۱ء کے آغاز میں کسی اور بڑی مہم کے لیے فوجیں جمع کر رہا تھا مگر یکایک اسی برس ۳ مئی کو اس کا انتقال ہو گیا۔ معروف یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے کہ اس طرح محمد فاتح کی موت سے، یورپ تباہی سے بچ گیا۔ (بحوالہبوسنیا: جغرافیہ، تاریخ ، داستانِ جہاد: ص ۸۰) سلطان سلیم اول کے آٹھ سالہ مختصر دورِ حکومت ( ۱۵۱۲ئ- ۱۵۲۰ئ) میں عثمانی فتوحات کا دائر ہ او ر وسیع ہو گیا اور مصر ، شام ، ایران اور حجاز بھی ترکوں کے زیرنگیں آگئے۔ سلیمانِ اعظم یا سلیمانِ عالی شان(Sulaiman The Magnificient)کے دور (۱۵۲۰ئ- ۱۵۶۹ئ) میں مشرق و مغرب کے بہت سے علاقے( عراق، یمن ، عدن ، تیونس، الجزائر، ہنگری اور یوگو سلاویہ وغیرہ) فتح ہوئے اور ترکوں کی بحری قو ّت انتہائی عروج پر پہنچ گئی۔ سلیمان کے امیر البحر خیر الدین باربروسا نے بحیرۂ روم کے کئی جزیرے یورپی حکومتوں سے چھین لیے اور ان کے متحدہ بحری بیڑے کو پریویسیا کی جنگ ( ۱۵۳۸ئ)میں شکست دی۔ اس نے فرانس کے شہر طولون پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلیمان کی وفات پر سلطنت عثمانیہ کی حدیں ایک طرف دریاے ڈینیوب سے خلیج فارس تک اور دوسری طرف وسطِ ایشیا کے یوکرینی علاقے سے طرابلس اور الجزائر تک پھیل چکی تھیں۔ اس کے علاوہ بحیرۂ روم ، بحرِ ابیض ، بحرِ احمر اور بحرِہند (کے کچھ حصوں) میں واقع تجارتی شاہراہوں پر بھی اس کا مکمل کنٹرول تھا۔ ۱۶۸۳ء میں وی آنا کی تسخیر میں ناکامی‘ عثمانی زوال کا نقطۂ آغاز تھا۔ عثمانیوں نے پہلی بار ویانا کامحاصرہ ۱۵۲۹ء میںسلیمان اعظم کی سرکردگی میں کیا تھا مگر موسم کی شدت کے سبب سلیمان کو محاصرہ ختم کرکے واپس آنا پڑا۔ ۱۶۸۳ء میں دوسری بار وی آناکا محاصرہ کرکے انھیں ایک طرح سے یورپ کا دروازہ کھولنے کا موقع مل رہا تھا۔ مگر اب ان میں کوئی سلیمانِ اعظم نہ تھا بلکہ ان کی بدقسمتی کہ عثمان کا صدر اعظم قرہ مصطفی جیسا حریص، لالچی اور بدنیت شخص تھا۔ وہ حملہ کرکے بآسانی ویاناکوفتح کرسکتاتھا کیونکہ محصورین کی نصف آبادی فرار ہو چکی تھی لیکن و ہ منتظر رہا کہ اہلِ ویانا ہتھیار ڈال دیں تاکہ شہر کی تمام دولت پر وہ تنہا قبضہ کرلے۔ حملے کی صورت میں فوج کو مالِ غنیمت سے حصہ دینا لازم تھا۔ اس اثنا میں شاہ ِپولینڈ کمک لے کر ترکی لشکر کے عقب میں پہنچ گیا۔ ترکوں کو شکستِ فاش ہوئی اور ایک طرح سے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد وہ یورپ کی مسیحی قو ّت کے مقابلے میں پسپا ہی ہوتے چلے گئے۔ (بوسنیا: جغرافیہ، تاریخ ، داستان جہاد، ص ۱۱۶) ۱۶۹۹ء میں معاہدۂ کارلوٹز کی رو سے ہنگری ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد ان کی حکومت بتدریج کمزور او ر سلطنت محدود ہو تی چلی گئی۔ حتیّٰ کہ انیسویں صدی کے وسط تک ترکی کو The sick man of Europe ’’یورپ کا مردبیمار‘‘ کہا جانے لگا۔ زارِروس نکولاس اول نے ایک بار برطانوی نمایندے سے بات چیت کے دوران میں تجویز پیش کی کہ ’’ مردِ بیمار کی وفات سے پہلے ہی ہمیں اس کی جائیداد مناسب طریقے سے آپس میں تقسیم کر لینی چاہیے ‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یورپی طاقتوں کی نظروں میں سلطنتِ عثمانیہ کی کیا وقعت رہ گئی تھی۔ اس سلطنت میں شامل بعض علاقائی حکومتیں رفتہ رفتہ خود مختار ہوتی گئیں ، مگر ان کی آزادنہ حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی آزادی برقرار رکھ سکتیں‘ نتیجہ یہ کہ وہ مغرب کے استعماری عزائم کا نشانہ بن گئیں۔ چنانچہ برطانیہ نے ۱۸۱۵ء میں مالٹا پر اور ۱۸۷۸ء میں قبرص پر اپنا تسلط جمایا۔ ۱۸۸۳ء سے مصر پر بھی عملاً اسی کی حکمرانی تھی۔ سوڈان لارڈ کچنر کی کمان میں ۱۸۹۸ء میں فتح ہوا۔ فرانس نے الجزائر،تیونس اور مراکش پر قبضہ کر لیا۔ نو آبادیات کے معاملے میں اٹلی دوسری یورپی طاقتوں سے پیچھے تھا ۔ افریقہ کی ساحلی حکومتوں میںاب صرف طرابلس باقی رہ گیا تھا، اٹلی کو یہی غنیمت معلوم ہوا۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو اس نے طرابلس پر حملہ کر دیا اور ساتھ ہی جزائر دوازدگانہ (Dodecaness) اور روڈز(Rhodes)پر بھی قبضہ کر لیا۔ غازی انور پاشا بھیس بدل کر طرابلس پہنچے ۔ مقامی عربوں اور قبائلیوں کو فوجی تربیت دے کر منظم کیا۔ انھوں نے اطالویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ زیادہ تر اسلحہ انھی سے چھینا اور انھیں ساحلِ طرابلس سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ اسی اثنا میں جنگِ بلقان کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس لیے صلح نامہ لوزان (۱۸ اکتوبر ۱۹۱۲ئ)کی رو سے ترکوں کو مجبوراً طرابلس سے دستبردار ہونا پڑا۔ سلطنتِ عثمانیہ داخلی طور پر بھی شدید خلفشار کا شکار تھی۔ ۱۹۰۸ء میں نوجوان ترکوں کی بغاوت کے نتیجے میں سلطان عبدالحمید ثانی دستوری اصلاحات کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ۱۹۰۹ء میں اسے معزول کر دیا گیا۔ اب اقتدار نوجوان ترکوں کے ہاتھ میں چلا گیامگر وہ آپس میں بھی متحد نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ ہاے بلقان میں ترکوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور سلطنت کے بہت سے حصے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ترکی اس غیر متوقع شکست سے استعماریوں پر اس کی کمزوری واضح ہوگئی اور ترکوں کا رہا سہا وقار بھی ختم ہو گیا۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم کا آغاز ہو ا تو یورپ میں صرف مشرقی یونان ترکی کے قبضے میں تھا۔ سلطنت عثمانیہ غیر جانب دار رہنا چاہتی تھی مگر حالات کے دباؤ سے مجبور ہو کر اسے جنگ میں شریک ہونا پڑا۔ نوجوان ترکوں کا ایک گروہ ، جس کی قیادت غازی انورپاشا کے ہاتھ میں تھی، جرمنی سے اتحاد کا زبردست حامی تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جرمنی روس کا مخالف تھا اور روس سلطنت عثمانیہ کا قدیم دشمن تھا ۔ بہر حال جب ترکوں نے جرمنی کی حمایت کا فیصلہ کر لیا تو اتحادیوں( برطانیہ، روس، فرانس) نے اکتوبر ۱۹۱۴ء میں ترکی کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا۔ نوجوان ترکوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کی مخالفت کے باوجود شاہ حسین کو ۱۹۰۸ء میں مکہ کا شریف (گورنر) مقرر کیا تھا۔ انگریزوں نے کرنل لارنس المعروف بہ ’’ لارنس آف عریبیا‘‘ کو ممالکِ عربیہ بھیجا۔ اس کا مشن یہ تھا کہ عربوں اور ترکوں کے درمیان افتراق پیدا کیا جائے۔ لارنس نے کمال حسن و خوبی سے اپنا مشن پوراکیا۔ ایک طرف تو انگریزوں نے عربوں کے اندر قوم پرستی کے جذبات بھڑکائے، دوسری طرف شاہ حسین کو حجاز کی بادشاہت کا سہانا خواب دکھایا۔ ان کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور شاہ حسین نے ۱۰ جون ۱۹۱۶ء کو ترکوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ عین اسی زمانے میں ( ۱۶ مئی ۱۹۱۶ء کو) اتحادیوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدے ( موسوم بہ :The Sykes Picot Agreement)کی روسے طے پایا کہ جنگ کے خاتمے پر ممالکِ عربیہ کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ حسین کو اس معاہدے کا پتا چل گیا۔ ترکوں نے بھی اسے انگریزوں کے فریب کارانہ عزائم کی طرف متوجّہ کیا۔ اور غیرتِ ملی کا واسطہ دے کر اسے علاحدگی سے روکنے کی کوشش کی مگر اقتدار کی ہوس نے شاہ حسین کو اندھا کر دیا تھا۔ اس نے اکتوبر ۱۹۱۶ء میں اپنے شاہِ حجاز ہونے کا اعلان کر دیا۔ انگریزوں نے اس کی مستقل بادشاہت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ۔ حسین کے بیٹے فیصل نے کرنل لارنس کی مدد سے شام سے بھی ترکوں کو نکال دیا۔ اگلے سال شام اور فلسطین کے اہم مقامات پر انگریزی قبضہ مکمل ہو گیا۔ سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنر ل ارل ایلن بی فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوا اور اس نے فخریہ اعلان کیا کہ ’’ آج کروسیڈ(صلیبی جنگوں)کا خاتمہ ہوا‘‘۔ صلاح الدین ایوبی کی فتح یروشلم (۱۱۸۷ئ) کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بیت المقدس دوبارہ عیسائیوں کے قبضے میں چلاگیا تھا۔ اس اندوہناک حادثے پر ہندستان کے مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے آخر تک حجاز، شام ، لبنان ، عراق اور عرب کے تمام علاقے ترکوں کے ہاتھ سے نکل کر اتحادیوں ، خصوصاً انگریزوں کے قبضے میں آگئے۔ انجمن اتحاد و ترقی کے اہم لیڈر (انور پاشا، جمال پاشااور طلعت پاشا وغیرہ)بددل ہو کر ترکی سے باہر چلے گئے۔ ملک میں اور زیادہ مایوسی ، بددلی اور انتشار پھیل گیا۔ تاہم سمرنا میں یونانیوں کی بے دریغ قتل و غارت اور لوٹ مارکے ردّ ِ عمل میں‘ ترکوں میں ایک بار پھر جوش و خروش پیدا ہوا ، وہ پلٹ کر دیوانہ وار لڑے اور سمرنا سے یونانیوں کو نکال باہر کیا۔ درۂ دانیال پر بھی ان کا قبضہ بحال ہو گیا۔ اقتدارِ حکومت مصطفی کمال اور عصمت انونو کے ہاتھ میں آگیا۔ ان لوگوں ، خاص طور پر کمال اتاترک کا مزاج لادینی تھا۔ اس لیے انھوں نے پہلے تو خلافت کو غیر مؤثر کر دیا اور پھر ۱۹۲۴ء میں چھے سو سالہ قدیم عثمانی خلافت اچانک ختم کرکے ترکی کو ’’جمہوریہ ‘‘قرار دیا۔ جنگِ عظیم کے خاتمے (۱۹۱۸ئ)پر انگریزوں کے وعدے کے مطابق ممالک عربیہ پر شاہ حسین کا حق تھا مگر ایک وسیع اور متحدہ عرب ریاست کاوجود مغربیوں کے استعمارانہ عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتا تھا ‘ اس لیے انگریز اپنے وعدوں سے منحرف ہو گئے اور ممالک عربیہ کی بندر بانٹ اس طرح کی گئی: ۱۔ لبنان اور شام کو فرانس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ۲۔ برطانیہ کی زیر نگرانی شاہ حسین کے ایک بیٹے فیصل کو اگست ۱۹۲۱ء میں عراق کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ فیصل کو پہلے شام کا بادشاہ بنایا گیا تھا مگر فرانسیسیوں نے اسے وہاں سے نکال دیاتھا۔ ۳۔ دریاے اردن کے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹی سی ریاست شرق اردن کے نام پر قائم کرکے حسن کے دوسرے بیٹے امیر عبداللہ کو اس کا بادشاہ مقرر کیا گیا( اپریل ۱۹۲۱ئ)۔ ۴۔ حجاز میں شاہ حسین کی بادشاہت تسلیم کرلی گئی۔ (قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ کچھ عرصے کے بعد شاہ حسین حجاز سے جلا وطن کر دیا گیا ۔ اس کا بیٹا علی تخت پر بیٹھا۔ مگر ابن سعود نے اس سے حکومت چھین لی اور علی کو بھی حجاز سے نکلنا پڑا۔آرم سٹرانگ اپنی کتاب Lord of Arabiaمیں لکھتا ہے کہ حسین کے بیٹوں نے شاہ سعود کے مقابلے میں انگریزوں سے مدد کی درخواست کی تھی مگر وہ شاہ حسین سے اکتا چکے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۲۵ء تک حجاز کے پورے علاقے پر ابن سعودکا قبضہ ہو گیا۔ ) ۵۔ فلسطین پر براہِ راست برطانوی تسلط قائم ہو گیا تاکہ اسے یہودیوں کاقومی وطن بنانے میں آسانی ہو۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے ذریعے ( تفصیل آیندہ صفحات میں) برطانیہ اس کا وعدہ کر چکا تھا‘اس صورت حال پر عربوں نے احتجاج کیا مگر بے سود۔ دنیاے اسلام کے باقی حصوں میں ایران اور ہندستان کو نسبتاً زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ ایران سے ملحقہ روس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ ایران کی طرف اپنی سرحدوں کی توسیع کرکے خلیج فارس کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرے۔ مگر برطانیہ ‘روس کی ہر ایسی کوشش میں سدّ ِر اہ بنا رہا ۔ انیسویں صدی میں روسی برطانوی کشمکش کو ایرانی علاقے کی سیاسی صورتِ حال میں ایک اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ روس اور برطانیہ کا دباؤ اور سازشیں جاری رہیں اور ان دو پاٹوں کے درمیان ایران پستا چلا گیا۔ ۱۹۰۷ء میں انھوں نے ایک معاہدے کے ذریعے ایران کو دو دائروں میں تقسیم کر لیا۔ اس کے تحت شمالی ایران روسی حلقۂ اثر میں آگیا اور جنوبی ایران اور خلیج فارس پر برطانوی تفو ّق تسلیم کر لیا گیا۔ اس سے ایران میں ناراضی اور اضطراب کی ایک شدیدلہر دوڑ گئی۔ ۱۹۰۸ء میں تیل کی دریافت سے ایران کی اہمیت بڑ ھ گئی۔ ایران نے عالم مایوسی میں جرمنی کی طرف دیکھا۔جرمنی نے روس سے ساز باز کرکے ایران میں اپنے اثرات کے نفوذ کی کوشش شروع کردی۔ ۱۹ اگست ۱۹۱۱ء کو سینٹ پیٹرزبرگ میں روس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے جرمنی نے ایران میں روس کے حلقۂ اثر کو تسلیم کر لیا۔ جواباً جرمنی کو اپنی بغداد ریلوے شمالی ایران تک بڑھانے کے حقوق مل گئے۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو ایران کا سولہ سالہ شاہ احمد نوعمری کے باعث کوئی اقدام کرنے سے قاصر تھا۔ ایرانی فوج غیر ملکی افسروں کے ماتحت تھی۔ روس اور برطانیہ کے کچھ فوجی دستے ایران میں قیام پذیر تھے۔ اس بے بسی کے عالم میں اور غیر ملکی دباؤ کی وجہ سے بھی جنگ میں کسی فریق کی حمایت اس کے لیے بے معنی بات تھی‘ چنانچہ اس نے غیر جانب دار رہنے کا اعلان کر دیا۔ مگر بڑی طاقتوں نے اپنی اپنی ضروریات اور مفادات کے مطابق سرزمین ایران کو میدانِ جنگ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۹۱۹ء میں برطانیہ نے ایران کو اپنا (Protectorate)بنانا چاہا مگر ایرانی پارلیمنٹ نے شدت سے اس کی مخالفت کی ۔ ایران کا ردّعمل اس قدر شدید تھا کہ برطانوی فوجوں کو ۱۹۲۱ء میں ایران سے مکمل طور پر نکل جانا پڑا۔ اگلے سال ایران نے روس سے دوستی کا ایک معاہدہ کیا۔ یوں ایران نے سات سال کے بعد ( جنگِ عظیم کے آغاز سے ۱۹۲۱ء تک ) قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ سات سالہ لڑائیوں ، قبائلی بغاوتوں ، بیرونی دباو اور داخلی طوائف الملوکی کے بعد اب اسے آزادی ملی تھی۔ فروری ۱۹۲۱ء میں ایرانی فوج کے ایک افسر رضاخان نے برطانوی افسروں کی مدد سے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ وہ پہلے وزیر جنگ اور سپہ سالارِ اعلیٰ بنا‘ پھر اس نے احمد شاہ قاچار کو معزول کرکے ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو ایران کی بادشاہت سنبھال لی۔ ادھر ہندستان میں ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے اثرات مسلمانوں کے لیے خاصے نقصان دہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوئے۔ وہ انگریزوں کے انتقام کا خصوصی نشانہ بنے۔ انھیں ہر میدان میں ہندوؤں کے مقابلے میں نظر انداز کیاگیا اور وہ ایک عرصے تک ایک مؤثراقلیت بھی نہ بن سکے۔ دیوبند، ندوہ اور علی گڑ ھ کی کوششوں کے نتیجے میں بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم بیداری کے کچھ آثار نظر آنے لگے۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ قائم ہوئی‘ مگر یہ ایک بے جان سی تنظیم تھی۔ بحیثیتِ مجموعی مسلمان ملک کے سیاسی دھارے اور جدوجہد میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ ۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کا نفاذ مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوا مگر بہت سے دوسرے عوامل ان کے خلاف تھے۔ اسی زمانے میں مسلمان علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے کوشاں تھے مگر حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔ ۱۹۱۳ء میں جلیانوالہ باغ کے سانحے سے ملک میں عمو می اضطراب پھیل گیا۔ کان پور میں مسجد کے جزوی انہدام کا واقعہ اور احتجاج کرنے والوں کی شہادت نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ اس کی تفصیل یوں ہے کہ کان پور میں مچھلی بازار کے موڑ پر ایک مسجد واقع تھی۔ جولائی ۱۹۱۳ء میں حکام نے موڑسیدھا کرنے کے بہانے مسجد کا ایک حصہ گرادیامگر سڑک کے درمیان واقع ایک مندر کو گرانے سے صرف نظر کیا۔ انگریزوں کے اس امتیازی سلوک پر مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا ، احتجاج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی مسلمان فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ بعد میں جا کر قضیہ طے ہوا ۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس سانحے سے متاثر ہو کر دو درد انگیز نظمیں لکھیں۔ ایک: علماے زندانی اور دوسری: ہم کشتگان معرکۂ کان پور ہیں۔شہدا میں بچے بھی شامل تھے۔ شبلی نے بچوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : عجب کیا ہے جو نو خیزوں نے سب سے پہلے جانیںدیں کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سوجانے کی عادت ہے اس کے علاوہ طرابلس پر اٹلی کا حملہ اور جنگ ہاے بلقان کا آغاز بھی ایسے واقعات تھے جنھوں نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔مولانا ابوالکلام آزادکے الہلال اور مولانا ظفر علی خان کے زمیندارنے ان واقعات پر نہایت درد انگیز مضامین اور جذباتی نظمیں شائع کیں جس ملک بھر میں ترکوں کی حمایت میں ایک زبردست تحریک شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا گیا۔ لاکھوں روپے کا چندہ بھی جمع کرکے روانہ کیا گیا۔ ہندی مجاہدین لڑائی میں حصہ لینے کے لیے بلقان جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اس کی اجازت نہ دی۔ جن علما نے ترکوں کی امدادی مہم میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیا ، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ پیش پیش تھے۔ آپ نے ہندستان سے ایک خطیر رقم جمع کرکے ترکی بھجوائی۔ جب آپ حجاز پہنچے تو شاہ حسین نے آپ سے ترکوں کی تکفیر کے فتوے پر دستخط لینا چاہے اور آپ کے انکار پر کئی ساتھیوں سمیت آپ کو انگریزوں کے حوالے کردیاجنھوں نے آپ کو مالٹا میں نظر بند کر دیا۔ اگرچہ ہندستان کبھی عثمانیہ خلافت کے ماتحت نہیں رہا ، تاہم خلافت سے مسلمانوں کو ایک جذباتی تعلق ضرور تھا۔ چنانچہ خلافت اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مجلس ِ خلافت قائم ہوئی۔ مسلمان خطیبوں نے اپنی جذباتی تقریروں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک آگ لگادی۔ خانہ نشین عورتوں نے اپنے زیورات تک امدادی فنڈ میں دے دیے۔ علی برادران اس مہم میں پیش پیش تھے۔ ان کی والدہ ’’ بی اماں‘‘ بھی تحریک خلافت کی مؤید تھیں  : بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو سے پورا ملک گونج رہا تھا۔ محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد برطانیہ گیا مگر ناکام واپس آیا۔ اسی اثنا میں ہجرت کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہندستان کو ’’ دارالحرب‘‘ قرار دیا گیا۔ چنانچہ ہزاروں مسلمان اپنی جایدادیں ہندوؤں کے ہاتھ اونے پونے بیچ کر افغانستان کی طرف جانے لگے۔ افغانوں نے شروع میں تومہاجرین کو خوش آمدید کہا مگر ان کے وسائل محدود تھے اس لیے جلد ہی مسلمانوں کے خستہ حال و پریشاں روزگار قافلے واپس آنے لگے۔ مسلمانوں کو اپنے غیر دانش مندانہ اور جذباتی اقدام کی وجہ سے سخت نقصان ہوا۔ اب عدم تعاون اور ترک موالات کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ولایتی مال کا بایکاٹ شروع ہوا اور سول نافرمانی کی تحریک چل پڑی۔ محمد علی جوہر اور دوسرے لیڈر جیل میں تھے اس لیے تحریک کی قیادت گاندھی نے سنبھال لی۔ وہ عدم تشدّد کے قائل تھے۔ جب بعض جگہ تشدّد کے واقعات پیش آئے تو انھوں نے اچانک تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ( ۱۹۲۲ئ)۔ ادھر ترکوں نے خلافت کا خاتمہ کر لیا تھا ( ۱۹۲۴ئ)۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے شدید ذہنی صدمے کا باعث ہوئی۔ ان کی حالت اس گم کردہ راہ مسافر کی سی تھی جسے اپنی منزل کا پتا نہ ہو۔ یہ سب کچھ نتیجہ تھا مسلم راہ نماؤں کے جذباتی اور غیر دانش مندانہ فیصلوں کا ۔ خلافت ، ہجرت اور ترک موالات کی تحریکوں میں بنیادی خرابی یہ تھی کہ یہ تحریکیں بلاسوچے سمجھے‘ محض وقتی جوش و جذبے کی بنیاد پر شروع کی گئی تھیں۔ نہ منظم منصوبہ بندی کی گئی اور نہ اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ مستقبل کی امکانی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی کیا شکل ہوگی۔ ۱۹۲۸ء کی آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں نہرو رپورٹ مسلمانوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوئی۔ اسی طرح ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۱ء کی گول میز کانفرنسیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔