Actions

سائنس

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’طبیعیات نے اپنے اساسی نظریات کی تنقید کی ضرورت کو محسوس کرکے آخر کار اپنے ہی بت کو پاس پاش کردیا ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۲)’’ جدید سائنس کی رو سے فطرت کوئی جامد شے نہیں جو لامتناہی خلا میں واقع ہو بلکہ یہ تو مربوط واقعات کی تنظیم ہے جن کے باہمی تعلقات زمان ومکان کے تصورات کو جنم دیتے ہیں‘‘ ( تیسرا خطبہ )

   مادی دنیا کے علم کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ بعض اہل دانش مادی ذریعہ علم کو باقی ذرائع پر ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مادّہ(matter) ہی ہماری باطنی کیفیات اور خارجی اثرات کا لازمی اور بنیادی سبب ہے۔ مادہ پرست حکما خدا کی طرح مادّے کو بھی ازلی اور ابدی قرار دیتے ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ مادہ مختلف اشکال تو اختیار کرسکتا ہے مگر یہ فنا نہیں ہوتا۔وہ اُسے ہی سرچشمہ حیات تصور کرتے ہیں۔سائنس دان اپنے نظریات کی خارجی مشاہدات‘حسّی تجربات اور محسوسات پر بنیاد رکھتے ہیں ۔اس لیے وہ حواس خمسہ ہی کو اوّلین ذریعہ علم سمجھتے ہیں۔وہ شعور اور روح کو بھی مادیت ہی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس حکماء کا دوسرا گروہ مادّے پر شعور، نفس اور روح کو فوقیت دیتے ہوئے مادی تغیرات اور خارجی اشیاء کے علم کو نفس اور شعور کے تحت خیال کرتا ہے ۔ علامہ اقبالؒ فلاسفہ اور مفکرین کے اس مکتب فکر کے حامی ہیں جو مادّے پر شعور کی برتری تسلیم کرتا ہے۔ وہ اپنے مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ع: جہانِ رنگ وبُو گلدستہ ما

( کلیات اقبال، فارسی،ص ۵۴۴)
وہ اس جہان رنگ وبو کو شوخی افکار کا نتیجہ اور ’’صنم خانہ پندار‘‘ قرا ردیتے ہیں۔اس سے پہلے ان کے مرشدِ روحانی مولانا رومؒ نے اس عقیدے کا یوں اظہار کیا تھا:

ع: بادہ از مامست شد نے ماازو

  علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا پہلے قول میں طبیعی علو م کے ایک اہم‘قدیم اور بنیادی نظریے یعنی تصور ِمادہ کی تردید کو بیان کیا ہے۔ طبیعیات اپنے تجربات اور مشاہدات کے لیے عالمِ محسوسات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھتی ہے۔اس کے سائنسی نظریات مادی دنیا کے عمیق مطالعہ ومشاہدہ پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔مادی اشیا کی نوعیت اور حقیقت کے بارے میں دو باتوں‘مادّہ اور اس کے خواص‘ کو مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔اشیاء کی پہچان ہم ان کی صفات کی بناء پر کرتے ہیں۔ مثلاًرنگ اور آواز اگرچہ خارجی وجود کی حامل ہیں مگر ان کی حقیقت ان کی صفات میں پنہاں ہے۔ کسی چیز کا محضوص رنگ ہمارے احساس پر مبنی ہوتا ہے جیسے کسی نیلی چیز کو دیکھ کر ہمارے احساس کے اندر وہ خاص رنگ پیدا ہوتا ہے جس کے سبب ہم اسے نیلگوں قرار دیتے ہیں۔اسی طرح آواز کا وجود بھی ہمارے احساس پر ہوتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ذہن نے اس شے کو اپنے رنگ میں پیش کیا ہے۔ مشہور انگریز فلسفی جان لاک نے علم کو حسّی تجربات پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا تھا:

"---There is nothing in the mind except what was first in the senses" (Will Durant,Outline of Philosophy,p.229)

مادہ پرستوں کی نگاہ میں ہمارا ذہن ہماری پیدائش کے وقت اُس سلیٹ کی مانند ہوتا ہے  جس پر ابھی کچھ لکھا نہ گیا ہو۔جوں جوں ہم اردگرد کی چیزوںکو دیکھتے‘سنتے‘چھوتے اور سونگھتے ہیں‘ توں توں ہمارے دماغ پر اُن کے خواص کے محسوسات ہمارے تصورات کا سبب بنتے ہیں ۔اس لیے مادّہ ہی ہماری معلومات کا اوّلین اور لازمی سرچشمہ ہے۔مادہ پرست شعور اور عقل کو بھی مادے کی کرشمہ سازی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے عالمِ محسوسات سے ماورا اشیا اور حقائق مثلاً روح‘ حیات بعد الموت‘وحی والہام اور خدا اُن کی رائے میں کوئی اہم اور مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔وہ روح کو مختلف عناصر کی خاص ترکیب اورمادّے کی ترقی یافتہ صورت سمجھتے ہیں۔
طبیعیات نے اشیائے کائنات کی دوگونہ تقسیم۔مادّہ اور اُس کی صفات کو تسلیم کیا تھا۔مادّے کے وجود کو اس کی خاص صفت کے ادراک سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔اگر غور کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ ادراک پرہی کسی شے کے وجودکا انحصار ہے۔ مثلاًاندھے کے لیے کسی تصویر کا وجود بے معنی ہوتا ہے گویا وہ اس کے وجود کا ادراک نہیں کرسکتا۔اسی طرح ایک بہرا شخص عمدہ گیت سے لطف نہیں اُٹھا سکتا۔ اس کی نظر میں گیت کا وجود ہی نہیں۔جان لاک نے مادّے کو شعور پر فوقیت دی تھی ۔آئر لینڈ کے ممتاز فلسفی جارج برکلے(۱۷۵۳۔۱۶۸۵) نے مادّے کے وجود کو ادراک کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے کہا تھا:’’To be is to be perceived‘‘) یعنی کوئی چیز اس وقت موجود ہوتی ہے جب اس کا ادراک کیا جائے(۔ اس طرح اس نے ثابت کردیا کہ مادّے کاوجود ایک خیالی شکل اور ادراک کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس نے مادّے کی بجائے شعور اور ادراک کے وجود کی حقیقت اورا ہمیت پر زور دیا اور مادہ پرستی کے اس قدیم بت کے تصور کو پاش پاش کردیا تھا۔علامہ اقبالؒ نے اسی لیے اپنے مندرجہ بالا پہلے قول میں انہی امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ برکلے کے بعد پروفیسر وہائٹ ہیڈ(۱۹۴۷۔۱۸۶۱) نے بھی مادّیت کو ردّ کرکے برکلے کی تائید کی تھی۔

مادہ پرستوں کی رائے میں مادہ(matter) زمان ومکان میں ایک ایسی چیز کا نام ہے جو اپنی ذات میں مستقل وجودکی مالک ہو۔وہ اسے فرد کی طرح ازلی اور ابدی تصور کرتے تھے۔انگلستان کے معروف ریاضی دان اور ماہر طبیعیات نیوٹن(۱۷۲۷۔۱۶۴۲ئ) کو جدید فزکس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔اس نے قانون کششِ ثقل کی رُو سے سّیاروں اور سورج کی گردش کی وضاحت کی تھی۔اس کے نظریے کے مطابق کائنات کی تمام اشیا اور واقعات کسی نہ کسی شکل میں حرکت کے حامل ہیں۔ جہاں تک اس کے نظریہ مادہ کا تعلق ہے وہ مکان(space) کو ایک وسیع خلا تصور کرتا تھا جس میں چیزیں واقع ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے مادہ زمان ومکان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی مختلف چیزوں کا مجموعہ تھا۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جدیدطبیعیات نے مادّے کے اس قدیم تصور کو غلط قرار دے کر ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کی رُو سے مادّہ آپس میںملے ہوئے واقعات کانظام اور حوادث کا مجموعہ ہے۔واقعات وحوادث کا یہ مجموعہ مسلسل تخلیقی رو کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں واقعات کا یہ نظام زمان ومکان کے مختلف نظریات کی تشکیل کے لیے اساس کاکام دیتا ہے۔مادیت کے حامیوں کی نگاہ میں زمان ومکان مادّے کی بنا پر معرض وجود میں آتے ہیں مگر علامہ اقبالؒ زمان ومکان اور مادّے کو خدا تعالیٰ کی تخلیقی قوت کی فکری تعبیریں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ خرد ہوئی ہے زمان ومکان کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں، لا اِلہٰ الّا اﷲ

علامہ اقبالؒپروفیسر وہائٹ ہیڈ کے ا س تصور سے کلیتہً اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت خلا میں جامد مادہ نہیں بلکہ یہ واقعات کا ایک ایسا نظام ہے جو تخلیقی رو کا حامل ہے اور جسے عقل جداگانہ غیرمتحرک اشیاء میں قطع کرتی ہے اور جس کے باہمی روابط سے زمان ومکان کے نظریات جنم لیتے ہیں۔

(۳)’’ فی الحقیقت مختلف فطریتی علوم لاتعداد گدھوں کی طرح ہیں جو فطرت کی لاش کو نوچ رہے ہیں اور ہر علم اس لاش کے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر الگ ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس مذہب کّلی حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔اُسے حقیقت مطلقہ کے جزوی نقطہ نگاہ یعنی سائنس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ ( دوسرا خطبہ) (۴)’’ سائنس کا یہ دعویٰ بالکل بے جا اور غلط ہے کہ وہ حقیقت الحقائق کے تمام پہلوئوں کو مطالعہ کا موضوع بنا سکتی ہے‘‘۔ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے ان دو اقوال میں سائنس کی جزئیت‘ محدودیت اور غلط نگری کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے مختلف علوم طبعی وظاہری کو ان گِدھوں سے تشبیہ دی ہے جو فطرت کی لاش کے مختلف ٹکڑوں کو انکشاف کلّی خیال کرتے ہیں۔طبیعیات،علم نباتات،علم حیوانات،علم کیمیا اور نفسیات وغیر ہ کسی ایک شعبہ حیات کے علم کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ علوم اپنے جزوی نظریہ کائنات کو مکمل نہیں سمجھ سکے۔اگر کوئی سائنس دان طبعی علوم کے کسی حصے کو حقیقت مطلقہ کے کّلی ادراک ومعرفت کا ذریعہ قرار دے تو یہ دعویٰ بالکل غلط اور بے جا ہوگا۔ایسے سائنس دان پر ہاتھی اور اندھوں والی مثال بالکل صادق آتی ہے جنہوں نے ہاتھی کے جسم کے ہر ایک حصے کو ہاتھی کی حقیقت کلّی قرار دیا تھا۔ یہ علوم زندگی کے تمام حقائق اور اُن کے باہمی ربط کی اصل نوعیت کے بارے میں کوئی جامع تصور پیش نہیںکرسکتے۔ اس کے برعکس دین اور مذہب کائنات، انسان اور خدا کے باہمی تعلقات کے بارے میں ہمیں جامع تصور دیتے ہیں۔وحی والہام کے حقائق کسی ایک شعبہ حیات پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ وہ ظاہر وباطن،مادہ و روح،دنیا وآخرت،فرد وجماعت کے حسین اور کامل امتزاج پرمبنی ہوتے ہیں۔خدائی دین ہی ان صفات کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ انسانی ذہن کے تراشیدہ اعتقادات وتصورات کلیت اور دوام کی صفت سے محروم ہوتے ہیں۔ سائنسی علم اور الہامی علم میں جزو وکل کافرق ملاخطہ ہو: (ا) سائنس کائنات کے ظاہری مطالعہ ومشاہدہ کی محتاج ہے۔اس کے برعکس مذہب کائنات اور زندگی کے ظاہری پہلوئوں کے ساتھ ساتھ باطنی حقائق اور محسوسات سے ماورا پہلوئوں کا بھی حامل ہوتا ہے۔ (ب) سائنس کائنات کے جزئی علم کی نشان دہی کرتی ہے جبکہ دین تمام گوشوں پر محیط ہوتا ہے۔ (ج) سائنس صرف عالم ِ محسوسات کا مطالعہ کرتی ہے۔دین عالم محسوسات کے علاوہ غیر طبیعی حقائق سے بھی باخبر کرتا ہے۔ (د) سائنسی قوانین جبر ومیکانیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔اس کے بر خلاف دینی قوانین انسانی اختیار کے بھی عکاس ہوتے ہیں۔ (ہ) سائنسی علم میکانکی اُصولوں کے تحت یکسانیت اور تکرار پر منحصر ہوتا ہے۔اس کے علی الرغم دین زندگی کو ارتقا پذیر‘ متنوع اور تغیر پذیر قرار دیتا ہے۔ (و) سائنس محض علم عطا کرتی ہے جبکہ مذہب ہم سے عمل کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ (ز) سائنس کائنات کی اشیا کے مطالعہ ومشاہدہ کے لیے محض عقل کی قیادت کو مانتی ہے جبکہ دین عقل کی محدودیت کے پیش نظر وحی والہام کی افادیت واہمیت پر زور دیتا ہے۔ (ح) سائنس مادی توجیہات پر تکیہ کرتی ہے جبکہ دین غیر مادی تعبیرات کا بھی قائل ہے۔ یہاں اس بات کی تشریح ضروری ہے کہ علامہ اقبالؒ سائنس کی اہمیت اور خارجی علوم کی افادیت کے ہرگز منکر نہیں تھے۔قرآن حکیم نے جابجا مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت پر زور دیا ہے۔قرآنی تعلیمات کے شارح ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ مطالعہ کائنات کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیںکرسکتے تھے۔ تاہم وہ سائنسی علم کی یک طرفہ ترقی اور کل حقیقت دانی کے زبردست مخالف تھے۔عقلیت اور مادیت چونکہ زندگی اور کائنات کے بارے میں محدود نظریات کی ترجمان ہیں اس لیے وہ ان کی بجائے دین کے آفاقی اور ابدی حقائق کے مدح خواں ہیں۔سائنس ایک طرف تو عقل کو مادی اور میکانکی ارتقا کی پیدا وار خیال کرتی ہے اور دوسری طرف اسے مادیت پر غور کرنے اور مکمل راہنمائی کا حق دینے پر بھی زور دیتی ہے۔اگر ہم عقل کی ماہیت کو مدنظر رکھیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ مادی اشیاء پر غور کرنے والی عقل خود مادے کی پید اوار نہیں ہوسکتی۔مادہ حواس اور میکانیت پر منحصر ہوتا ہے جبکہ عقل کو محسوس کرنے والا کوئی حاسّہ نہیں اور نہ ہی اس میں میکانیت موجود ہے۔اس کے علاوہ حواس کا دائرہ عمل بہت محدود ہے مگر عقل پاتال سے نیچے اور افلاک سے آگے بھی چلی جاتی ہے۔اگر یہ مادی ہوتی تو اس کی پرواز عالم مادی سے ماورا کیسے ہوسکتی تھی؟ اس لحاظ سے عقل خالص مادیت سے بلند تر ہوجاتی ہے۔ سائنس کا یہ دعویٰ کہ صرف یہی حقیقت کاملہ کے تمام پہلوئوں کو مطالعہ کے لیے منتخب کرسکتی ہے درست نہیں ہے۔علامہ اقبالؒ کے یہ الفاظ کس قدر حقیقت کشا اور بصیرت افروز ہیں۔وہ فرماتے ہیں:۔ "Natural science is by nature sectional; it cannot, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.41) )۵)’’ فطرت کا علم دراصل خدا کے طریق عمل کا علم ہے۔مشاہدہ فطرت کے وقت فی الحقیقت ہم انائے مطلق کے ساتھ گہرے تعلق کے طالب ہوتے ہیں اور خدا کے ساتھ یہ گہرا لگائو عبادت ہی کی دوسری شکل ہے‘‘

انسان کو علم کی بنا پر نہ صرف تما م جمادات ‘بناتات او رحیوانات پر فوقیت دی گئی ہے بلکہ اسے ملائکہ سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق جب آدم ؑکی تخلیق کی گئی تو فرشتوں کو اس کے سامنے سر بسجود ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اُنھوں نے خدا سے انسانی آفرنیش کا راز جاننے کی خواہش کی تو خدا تعالیٰ نے اس کے علم کو اس کی وجہ فضلیت بتایا۔ آدمؑ اور ملائکہ کاجب امتحان ہوا تو ملائکہ اشیاء کے نام نہ بتا سکے اور آدمؑ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔زمین پر خدا کی نیابت کے لیے علم کا حصول لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس قرآنی واقعہ سے علم کی فضلیت اور انسانی عظمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ خدا نے انسانوں پر اپنے احسانات گنواتے ہوئے یہ کہا ہے’’ وعلّم الا نسان بالقلم‘‘ )العلق ۹۶:۴)( اور خدا نے انسان کو قلم کے ذریعے علم دیا( ۔اشرف المخلوقات بننے کے لیے علم‘ عقل اور شعور لازمی تھے ‘جس دین نے انسانوں کو حصول علم کی اتنی تاکید کی ہو وہ مطالعہ فطرت اور مشاہدہ کائنات کی اہمیت اور افادیت کو کیسے نظرانداز کرسکتا تھا؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ ہم اپنی مادی اور ظاہری آنکھوں سے یہاں خداتعالیٰ کا دیدار نہیں کرسکتے ہیں؟ ایسی صورت میں خالقِ کائنات نے اپنے حسنِ لازوال کی نمود کے لیے یہ عالم مادی پیدا کیا تاکہ ہم مظاہر فطرت میں اس کے جمال بے مثال کا پرتو دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔ اس نقطہ نگاہ سے یہ کائنات ذات خدا وندی کی صفات کی جلوہ گاہ اور آئینہ حسن ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس کائنات کوخدا تعالیٰ کا طریق اور اس کی عادت کہا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں مذکور ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے کردار کو ہماری ذات کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ‘اسی طرح یہ کائنات بھی فعل ایزدی ہے۔ کسی کے کردار کو دیکھ کر ہی اس کی شخصیت کا اچھا یا برا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قرآن حکیم نے نیچر کو’’سُنتہ اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کی عادت اور طریق کہا ہے۔جب ہم کائنات کے مختلف مظاہر اور حوادث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ کی صفت، قدرت، حکمت اور ربوبیت کے قدم قدم پر آثار ملتے ہیں جو ہمیں اس کی کبریائی اور وجود کا احساس دلا کر اس کی اطاعت پر مائل کرتے ہیں۔اسی طرح علامہ اقبالؒ بجا فرماتے ہیں کہ’’فطرت کا علم دراصل خدا کے طریق عمل کا علم ہے‘‘۔

علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں مشاہدہ فطرت کو خدا کے ساتھ گہرے ربط کے مترادف قرار دیا ہے۔ جب ہم کائنات کے اسرار ِورموز کو جاننے اور اپنے ذوق تجسس کی تسکین کے لیے صحیفہ فطرت کاعمیق مطالعہ کرتے ہیںتو اس وقت اصل میں ہم خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرت ِکاملہ کی حیرت انگیز نشانیوں کو دیکھنے میں محو ہوجاتے ہیں۔ یہ محویت ہمیں اردگرد کے ماحول سے بے خبر کرکے اس کے حسنِ لازوال کی تجلیات دکھانے لگتی ہے۔اس عالمِ فراموشی میں ہمارا ظاہری رابطہ عالمِ مادی سے کٹ جاتا ہے اور ہم مادی اشیا کے پس پردہ کارفرما ذات کی نیرنگیوں میں کھو جاتے ہیں عالمِ مادیت اورظاہریت سے وقتی طور پر لاتعلق ہوجانے کے بعد ہم عالم باطن میں چلے جاتے ہیں جہاں ہم اس ذات کی کرشمہ سازیاں ملاخطہ کرتے ہیں جو بے جہت اور بے صورت ہے۔عالمِ مادی میں ہمیں اشیاء کی صورتیں دکھائی دیتی ہیں مگر محسوسات سے ماورا دنیا میں ان کاایسا وجود نہیں ہوتا۔ حقیقت کے طالبوں کے لیے مشاہدہ فطرت کے یہ فیضانی لمحات خدا سے گہرے ربط کا سبب بن جاتے ہیں۔ایسے عالم میں ہر ورق معرفت کردگار کا دفتر ثابت ہوتا ہے۔جہالت کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور طالب حقیقت اشیا کے پیچھے چھپی ہوئی ہستی مطلق کے یقین کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس گہرے ربط کو عبادت ہی کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ یہ گہرا ربط عبادت ہی کی ایک شکل کیسے ہے؟ ذیل میں چند توجہ طلب اُمور کا ذکر کیا جاتا ہے:۔ (۱) مشاہد ہ فطرت کے ذریعے ہم خدا کے ساتھ گہرے تعلق کے طالب ہوتے ہیں۔عبادت کے وقت بھی ہم اپنے خالق ‘مالک اور رازق سے گہرے ربط کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ (۲)عبادت کے وقت کامل محویت اور ماحول سے بے نیازی اّولین شرط ہے۔فطرت کا مشاہدہ کرتے وقت طالب حقیقت پر بھی محویت اور خود فراموشی کا طاری ہونا لازمی ہے۔ (۳) عبادت یکسوئی کا تقاضا کرتی ہے۔اسی طرح اسرارِ کائنات کا جویا بھی یکسوئی کے ساتھ نیچر کی اشیا کا مطالعہ اور تجربہ کرتا ہے۔ (۴) عبادت کے لیے ظاہری صفائی کے علاوہ قلب ونظر کی پاکیزگی بھی لازم ہے۔ جو انسان خدا کے عمل تخلیق یعنی فطرت سے گہرا لگائو رکھتا ہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تعصب کو چھوڑ کر نیک نیتی اور صفائے دل کے ساتھ اس کا مشاہدہ کرے۔ (۵) ہر عابد اپنے معبود کے وجود کا معترف ہوکر اس کی عبادت کیاکرتا ہے۔مطالعہ فطرت بھی اس صورت میں عبادت بن سکتا ہے جبکہ اس کا طالب حقیقت اسرارِ قدرت دیکھ کر خالقِ کائنات کے وجود پر بھی ایمان لے آئے۔ (۷)’’ جس طرح عبادت خدائی قرب کا ذریعہ ہے اسی طرح مطالعہ فطرت بھی خدائی قرب کا وسیلہ ہونا چاہیے۔