Actions

زندگی

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ شعور کا کام ایسا نقطہ نوری مہیا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔ اس طرح شعور زندگی کے خالصتاًروحانی اُصول کے تنوع کا نام ہے جو مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اُصول اور مخصول طریق عمل ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) انسان دیگر تما م مخلوقات پر برتری رکھتا ہے اس لیے اسے اشرف المخلوقات اور نائبِ حق کہا جاتا ہے۔اُسے یہ بلند مقام یونہی نہیں دیا گیا بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی اہم غرض وغایت ہے۔خدا نے اُسے عقل،فکر اور شعور کی نعمت سے بھی نوازا ہے تاکہ وہ اُن کو خدائی احکام کی روشنی میں استعمال کرکے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بناسکے۔شعور کا کام زندگی کی حرکت ِارتقا کو منور کرکے اُسے راستے کی دشواریوں اور اُلجھنوں سے باخبر کرنا ہے۔علامہ اقبالؒ نے شعور کو ایک نوری نقطے سے تشبیہ دے کر اس کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔زندگی چونکہ ارتقا پذیری، حرکت مدام، عمل مسلسل اور سعئی پیہم کا دوسرا نام ہے۔ بنابریں اس کی راہوں کو درخشاں بنانے والا شعور بھی ایک مقام پر نہیں رُک جاتا۔اس’’نقطہ نور‘‘ کو شاعر مشرقؒنے اپنی مشہور فارسی تصنیف ’’اسرارِ خودی‘‘ میں لفظ’’خودی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:۔ نقطہ نورے کہ نامِ اُو خودی است زیر خاک ما شرارِ زندگی است

اِز  محبت  می  شود   پایندہ  تر      زندہ تر،   سو   زندہ تر،   تابندہ   تر

عشق را از تیغ وخنجر باک نیست اصلِ عشق از آب وباد وخاک نیست (اسرار خودی،کلیات اقبال،ص۱۸)

نوری نقطہ ہونے کے سبب خودی انسانی جسم کے اندر زندگی کا شرارہ ہے۔اس لحاظ سے یہ روشن نقطہ زندگی کی تاریک راہوں کو روشن بناکر آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔شعور کی یہ تابانی اور حرارت دراصل جذبہ عشق پر منحصر ہیں جن کا مبداء جسم خاکی ہرگز نہیں۔آب ،باد اور خاک کی صفات کا حامل جسم تو ایک نہ ایک دن ختم ہوجاتا ہے مگر عشق پر مبنی یہ نورانی نقطہ اپنی درخشانی سے محروم نہیں ہوتا۔علامہ اقبالؒ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے زندگی کے روحانی اُصول کا تنوع قرار دیتے ہیں۔ اس کی اصل روحانی ہے اس لیے یہ شعور مادہ کی پیدا وار نہیں بلکہ یہ الگ وجود رکھتا ہے۔ وہ اپنے اس عقیدے کاان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں:

"--To deny it as an independent activity is to deny the validity of all knowledge which is only a systematized expression of consciousness" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.41) انسانی علم درحقیقت شعور کے باضابطہ اظہار کا دوسرانام ہے۔ اگر ہم شعور کو مادیت سے جدا تسلیم نہ کریں تو پھر ہمیں شعور سے پیدا ہونے والے علم کی صداقت سے بھی انکا رکرنا ہوگا۔علم صرف وہی نہیں جو عالم محسوسات سے حاصل ہو بلکہ اس کا ایک اہم منبع محسوسات کی دنیا سے ماورا بھی ہے۔جسم اور روح کی جداگانہ واردات بھی اُن کی دوئی کی ترجمان ہیں۔ جیسا کہ شاعر مشرقؒ ؒنے اپنی ایک رباعی میں کہا ہے: در و نم جلوئہ افکار ایں چیت برونِ من ہمہ اسرارایں چیت

بفر  ما   اے  حکیمِ  نکتہ پرداز!      بدن آسودہ ،جاں سیّار ،ایں چیت

یہ روشن نقطہ ہمارے تمام احساسات اور شخصیت کے مختلف عناصر کی شیرازہ بندی کرکے اپنی قوت ناظم کا بھی ثبوت مہیا کرتا ہے:۔ حیات کیا ہے؟خیال ونظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں ( بال جبریل ،کلیات اقبال،ص۳۱۹) (۲)’’اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مکانی پہلو بھی رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی کا یہ واحد پہلو نہیں‘‘۔ (تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ) علامہ اقبالؒ کائنات اور زندگی کی روحانی اساس کے زبردست قائل ہیں۔ یہ محض اُنکا مذہبی عقیدہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ اُن کے وسیع مطالعہ اور عملی تحقیق کا بھی لازمی ثمر تھا۔اس عقیدے کی تشکیل میں اُنھوں نے سائنس اور فلسفیانہ نظریات کے کافی گہرے مطالعہ سے مدد لی تھی۔ وہ حقیقت مطلقہ کے خارجی مظاہر اور مکانی اور زمانی پہلوئوں کے ہرگز منکر نہیں تھے مگر وہ اُنھیں ہی واحد معیار صداقت قبول کرنے کے خلاف تھے۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی حیران کن نشانیوں کو مادی اور روحانی دونوں دنیائوں میں ظاہر کرتا رہتا ہے۔ مادی دنیا کا تعلق ہمارے حواس خمسہ اور اُن سے پیدا شدہ تجربات ومشاہدات سے ہے۔اس کے برعکس روحانی دنیا کا ہمارے باطنی احساسات وتجربات سے ربط ہوتا ہے۔سائنس کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ صرف سائنسی معیار ہی صداقت کو واضح کرسکتا ہے کیونکہ سائنس ہمیں جزوی اور ظاہری نظریات دیتی ہے۔کائنات کی بنیاد روحانیت پر ہے۔ اس لیے مادی دنیا سے ماورا حقائق سائنس کی گرفت میں نہیں آسکتے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں سائنس کو حقیقت مطلقہ کے خاص پہلوئوں کو مطالعہ کے لیے منتخب کرنا چاہیے اور باقی نادیدنی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق کے صحیح ادراک کے بارے میں اپنے عجز کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں: "Science must necessarily select for study certain specific aspects of reality only and exclude others" (The Reconstruction of Religious Th ought in Islam, P.113) اگرچہ انسان اس خاکدانِ عالم میں اپنی زندگی گزارتا ہے مگر فی الحقیقت اس کا’’شرارِ زندگی‘‘ اور ’’نوری نقطہ‘‘ اس مادی دنیا کی پیدا وار نہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔

تری آگ اس خاک داں سے نہیں    جہاںتجھ سے ہے، تُو جہاں سے نہیں

( بال جبریل، کلیات اقبال، ص۴۲۰)

  انسان کاکام مختلف مراحلِ ترقی طے کرتے ہوئے’’منزل کبریا‘‘ تک پہنچنا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ کے روحانی مرشد مولانا رومؒ نے کہا تھا۔

؎ مابہ فلک بودہ ایم، یار ملک بودہ ایم باز ہماں جارویم باز کہ آں شہرِ ماست

ماز فلک برتریم، وز ملک افزوں تریم      زیں دوچرا نگذریم، منزلِ ماکبریاست
علامہ اقبالؒ بھی انسان کی روحانی بلندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
 ؎درد دشتِ جنوںِ من،جبریل ؑ زبوں صیدے   یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ!

قرآن حکیم نے انسان کی زندگی کے روحانی پہلو کو یوں بیان کیا ہے:

’’والیِ رّبک المنتھی‘‘ (النجم ۵۳:۴۲) (اور تیرے پرودگار کی طرف انتہا ہے)