Actions

Difference between revisions of "زمان"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ جب صوفی کو خدا کی ذات سرمدی کیساتھ گہری وابستگی نصیب ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُسے زما...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(One intermediate revision by one other user not shown)
(No difference)

Latest revision as of 01:03, 20 July 2018

(۱)’’ جب صوفی کو خدا کی ذات سرمدی کیساتھ گہری وابستگی نصیب ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُسے زمانِ مسلسل کے عدمِ حقیقت کا احساس ہوتا ہے‘‘ (پہلا خطبہ) (۲)’’ وہ نظریہ جو وقت کو مکان کا چوتھا بُعد قرار دے وہ لازماً ماضی کی طرح مستقبل کو بھی پہلے سے متعین سمجھے گا… آئن سٹائن کے اس تصور کو پڑھ کر یہ حقیقت نکھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ اس کا وقت برگساں کے زمان کی مانند مرورِ خالص نہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر وقت کو مکان کا چوتھابُعد خیال کیاجائے تو وہ حقیقت میں وقت نہیں رہتا‘‘ (دوسرا خطبہ) (۳)’’ وقت کے بغیر مسلسل تغیر وتبدل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ہم اپنے باطنی تجرنے کی مثا ل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ شعوری زندگی کا مطلب ہے حیاتِ فی الّزمان‘‘ (ایضاً) (۴)’’ یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ وقت کے بغیر حرکت کا تصور ناممکن ہے اور چونکہ وقت کو نفسی زندگی جنم دیتی ہے اس لیے وقت حرکت سے زیادہ اساسی ہے‘‘ (تیسرا خطبہ)

تصوف ا ور معرفت کی راہ پر گامزن ہونے والوں کی زندگی کا عظیم ترین نصب العین خدا تعالیٰ کا قرب ووصال ہے۔اس خدائی تقرب اور گہری وابستگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ مختلف مراحل ومراتب سے گزر کر وہاں پہنچا کرتے ہیں۔ جب اُنھیں کائنات کی حقیقت مطلقہ اور روح الارواح یعنی خدا تعالیٰ کا وصل نصیب ہوجاتا ہے تو اُن کی زندگی کے اعلیٰ مقصد کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ایسے عالم میں وہ اپنے آپ کو فنا فی اﷲ تصور کرکے خدائی صفات کے حامل ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے وہ دنیا ومافیہا سے لاتعلق ہوکر اس کے ظاہری اثرات کو بھی بھول جاتے ہیں۔خود فراموشی کی ایسی حالت میں صوفی کو یہ احساس بھی ہوجاتا ہے کہ زمان ومکان اس کے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے صوفیاء کی اس حالت جذب پر روشنی ڈالتے ہوئے  یہ کہا ہے کہ خدا کی ذات سرمدی سے واصل ہونے کے وقت صوفی کو شب وروز کے تسلسل اور لیل ونہار کی گردش کی حقیقت کا کوئی احساس نہیں ہوتا حالانکہ عام انسان اس وقت زمان ومکان کی حدود سے اپنے آپ کو باہر خیال نہیںکرتے۔علامہ اقبالؒ اپنے مندرجہ ذیل شعر میں زمان ومکان کی پابند عقل اور لازمانی عشق کی واردات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

؎خرد ہوئی ہے زمان ومکاں کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں، لا اِلہٰ اِلّا اﷲ

یہ شعر بھی ایسے صوفیاء کے تصور زمان مسلسل کا بخوبی آئینہ دار بن جاتا ہے۔شاعر مشرق کا یہ قطعہ بھی زمان کے خارجی پہلو کی عکاسی کرتا ہے:
جہانِ ما کہ پایا  نے  ندارد     چوماہی دریمِ اّیام غرق  است
یکے  بردل نظر واکن کہ بینی     یمِ اّیام دریک جام غرق است

(پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۱۷)

آئن سٹائن(۱۹۵۵۔۱۸۷۹) مشہور امریکی ماہر طبیعیات تھا۔وہ اگرچہ جرمنی میں پیدا ہوا تھا تاہم اس نے بعد ازاں امریکی شہریت حاصل کرلی تھی ۔اس لیے اُسے امریکی سائنس دان ہی تصور کیا جاتا ہے۔اس کا نظریہ اضافیت سائنسی اور فلسفیانہ لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اُس کی رائے تھی کہ کسی چیز کے وجود اور اہمیت کا دارو مدار دیکھنے والے کی حالت اور خیال پر ہوا کرتا ہے۔ اس لیے اس چیز کا بذات خود کوئی وجود نہیں۔آئن سٹائن سے قبل ایک نامور انگریز طبیعیات دان نیوٹن(۱۷۲۷۔۱۶۴۲) نے مادے(matter) کو خلا میں واقع ایک مستقل بالّذات شے قرار دیا تھا۔آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے اس قدیم تصورِ مادہ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔اب مادہ خود کوئی مستقل وجود رکھنے والی چیز نہیں رہا۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں آئن سٹائن کا یہ علمی کارنامہ بہت بڑا انقلاب ہے کیونکہ اس نے مادیت کے پرانے نظریے کا ابطلال کردیا ہے۔اس کے باوجود اُنھیں آئن سٹائن کے نظریہ زمان سے اتفاق نہیں۔ آئن سٹائن نے وقت کو مکان کاچوتھا بُعدقراردے کرعلامہ اقبالؒکی رائے میںبے حقیقت بنادیا ہے۔  مکان(space) کے ابعاد ثلاثہ(طول،عرض اور گہرائی) کی طرح اگر زمان(time) بھی اس کا جزو بن جائے تو پھر وہ ماضی کی طرح متعین مستقبل کا حامل ہوکر حرکت وارتقاسے عاری ہوجائے گا۔اقبالیات سے شغف رکھنے ولے حضرات سے یہ امر مخفی نہیں کہ حرکت وارتقا کو علامہؒ کے فکری نظام سے خاص ربط ہے۔وہ تو حرکت وعمل کو زندگی کی نمایاں ترین خوبی خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
  ؎ جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے و ہ زندگی    روحِ اُمم کی حیات ،کشمکش انقلاب

ع: ہستم اگرمی روم،گرنروم نیستم (اگر میں حرکت کروں تو میں زندہ ہوں وگرنہ میں مردہ ہوں)

  قرآن حکیم نے زمانے کی حرکت اور تبدیلی کی اہمیت کو اپنے ان فکر انگیز اوردائمی الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ تِلک الاّیام نُدا ولھاِ بین النّاس‘‘(آل عمران۳:۱۴۰)( ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان گھماتے رہتے ہیں)۔ مشہور فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں (۱۹۴۱۔۱۸۵۹) نے اپنے اُصول ارتقا کی بنیاد پر زمانے کو ارتقا  پذیر اور حرکی قرار دیا تھا۔مزید برآں اس نے اسے ناقابل تقسیم اور تخلیقی  بھی کہا تھا ۔اس لیے علامہ اقبالؒ نے وقت کو چوتھا بُعد بنانے پر تنقید کی اور برگساں کے حرکی‘تخلیقی اور ارتقا پذیر نظریہ وقت کو سراہاہے۔
وقت اور انسانی زندگی کا آپس میںبہت گہرا تعلق ہے۔وقت کے سبب ہی یہاں ہر لمحہ نئے نئے واقعات اور انقلابات آتے رہتے ہیں۔اس لحاظ سے علامہ اقبالؒ کا یہ کہنا کس قدر حقیقت افروز ہے:’’ وقت کے بغیر مسلسل تغیر وتبدل کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اگر غور کیاجائے تو پتہ چلے گاکہ ہماری زندگی دم بدم وقت کے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ یہ ’’حیات فی الزماں‘‘ یقینا ہماری شعوری زندگی کی ترجمان اور مقصد کوش ہے۔اس زاویہ نگاہ سے وقت کے بغیر نہ تو کسی تبدیلی کا تصور کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی حرکت کا۔ چونکہ وقت تبدیلی اور حرکت کا باعث بنتا ہے اس لیے وہ حرکت اور تبدیلی سے زیادہ اساسی ہے۔علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اشعار وقت کی انہی صفات پر روشنی ڈالتے ہیں۔وہ اپنی نظم’’ ساقی نامہ میں کہتے ہیں:

دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی

فریب نظر ہے سکون وثبات       تڑپتا  ہے  ہر  ذرّہ  کائنات
ٹھہرتا نہیں   کاروان ِوجود      کہ ہر لحظ ہے  تازہ شانِ وجود

(بال جبریل،کلیات اقبال،ص۴۱۸۔۴۱۷) (۵)’’قرآن حکیم میں ایسی آیات موجود ہیں جو ہمارے شمارِ وقت کی طرف اشارہ کرتی ہوئی شعور کی دیگر نامعلوم سطحوں کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں۔دور حاضر کے مفکرین میں سے صرف برگساں ہی ایسا مفکر ہے جس نے مرورِ خالص کے مظہرکا عمیق مطالعہ کیا ہے‘‘۔ (دوسرا خطبہ) (۶)’’ قرآن مرورِ خالص کے مسلسل اور غیر مسلسل پہلوئوں کیطرف اپنے مخصوص سادہ انداز میں اشارہ کرتا ہے۔ اگر ہم تخلیق کے عمل میں مخفی حرکت پر خارج سے نظر ڈالیں یعنی ہم اس کا عقلی طور پر ادراک کریں تو پھر یہ ہزاروں سالوں پر مشتمل طریق کار معلوم ہوتا ہے۔اس کے برعکس اگر ہم باطنی طور پر اس طریق تخلیق پر نگاہ ڈالیں جو ہزاروں سالوںپر منحصر ہے تو یہ واحد ناقابل تقسیم عمل دکھائی دیتا ہے اور یہ چشم زدن میں وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ مرور ِ خالص کے اس باطنی تجربے کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے‘‘ (ایضاً) (۷)’’ وقت کی ماہیت کو سمجھنے میں خالصتاً معروضی زاویہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں صحیح طریق یہ ہے کہ ہم اپنے اُن شعوری تجربات وواردات کا بڑی احتیاط سے نفسیاتی جائزہ لیں جو وقت کی اصلیت کوظاہر کرتے ہیں‘‘ ( تیسرا خطبہ)

گردش شمس وقمر کی بدولت معرض وجود میں آنیوالا وقت صدیوں‘سالوں‘مہینوں‘ہفتوں اور دنوں میں تقسیم ہوجاتا ہے لیکن حقیقی وقت کو اس طرح تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔جس طرح حصول علم کے لیے مطالعہ کائنات کے ساتھ ساتھ مطالعہ باطن بھی لازمی ہے اسی طرح وقت کو بھی خارجی اور داخلی پہلوئوں کا آئینہ دار خیال کیاجاتا ہے۔خارجی وقت کو ہم زمان مسلسل،مرورِ زماں، جوہری وقت، غیر حقیقی، سطحی، تقسیم پذیر اور مکانی وقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعینہٖ ہم باطنی وقت کو زمان غیر مسلسل، زمانِ ایزدی، زمان خالص،حقیقی،تقسیم ناپذیر اور لامکانی جیسے الفاظ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔قرآن حکیم کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ دو پہلو رکھتا ہے ۔خارجی اور باطنی،انسانی ا ور ایزدی۔شب وروز کے بندحصاروں میں گرفتار انسان وقت کے خارجی پہلوئوں کو ہی اصلی اور اہم سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقی وقت لیل ونہار کی گردش کی گرفت سے بالکل آزا دہے۔خارجی وقت میں تواتر وتسلسل کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس باطنی وقت میں واقعا ت وحوادث ایک’’ابدی لمحہ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔قرآن حکیم نے آفاق اور انفس دونوں کو لائق مطالعہ اور قابل مشاہدہ کہا ہے۔اس لحاظ سے خالق ارض وسماوات اپنی حکمت اور قدرت کی نشانیاں ظاہری دنیا میں بھی دکھاتا ہے اور باطنی دنیا میں بھی۔ ایک شمارِ وقت تووہ ہے جس سے ہمارا شعور آشنا ہے اور دوسرا وقت وہ ہے جس کے امکان کو ہمارے شعور کی دیگر نامعلوم سطحیں ظاہر کرتی ہیں۔کیا انسان پر ایسا وقت نہیں آیا جبکہ اس کا کوئی ذکروجود ہی نہیں تھا۔یہ قرآنی آیت اس امر کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتی ہے’’ھل اتیٰ علی الاِ نسان حینُ مّن الدھرِلم یکن شیئا مّذکورا‘‘(الدھر ۷۶:۱) خارجی وقت کو تو ہم عقل وشعور کے ذریعے محسوس کرتے ہیں مگر باطنی وقت کو بقول برگساں ہم وجدان کے ذریعے محسوس کرسکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک فارسی نظم’’پیغام برگساں‘‘ میںفرانس کے مشہور ومعروف فلسفی کی عظیم شخضیت اور اس کے نظریہ زمان کے چند گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا:
تابر  تو  آشکار   شود   رازِ زندگی         خودرا   جدا   ز   شعلہ   مثالِ  شرر مکن
بہر  نظارہ    جز   نگہِ  آشنا میار         در مر ز و  بومِ  خود چوں  غریباں گذر مکن  
نقشے کہ بستہٰ ہمہ اوہام باطل  است         عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہ  دلِ است

(پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۳۷۷)

شاعر مشرقؒ کا ایک اور شعر عقل پر عشق کی ترجیح اور عشق کی حقیقت کشائی کی یوں ترجمانی کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں:

؎ رہِ عاقلی رہا کن کہ باوُ تواں رسیدن بدلِ نیاز مند ے، بہ نگاہِ پاکبازے (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص ۳۲۰) قرآن پاک میں انسانی تصورِ زمان اور زمانِ ایزدی کی ماہیت کے صحیح ادراک میں واضح تفاوت کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خدا کا ایک دن ہمارے عام ہزاروں سالوں کی مقدار کے برابر ہے۔وہ قرآنی آیت یہ ہے:’’یوم کان مُقداررُہ‘ الف سنتہ مّما تَعُدون‘‘ (۵:۳۲)(خدا کے ایک دن کی مقدار تمہاری گنتی کے ہزارسالوں کے برابر ہے)۔ایک او ر قرآنی آیت ہے(۴:۷۰) میں ’’خدائی یوم‘‘ کوپچاس سالوں پر مشتمل قرار دیا گیا ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اگر ہم خدا کے تخلیقی عمل پر خارج سے نظرڈالیں یعنی ہم اس کا عقلی طور پر ادراک کریں تو پھر یہ عمل ہزاروں سالوں پرپھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔وقت کا یہ عقلی اور شعوری ادراک ایک لمبی مدت پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے علی الرغم اگر ہم اس تخلیقی عمل پر باطنی انداز سے نگاہ ڈالیں تو یہ طریق ایک واحد، ناقابل تقسیم اور فوری واقعہ معلوم ہوتا ہے۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے کہ ’’جب خالقِ کائنات کسی شے کو پردئہ عدم سے منّصئہ شہود پر لانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس شے سے کہتا ہے کہ’’کُن‘‘ (ہوجا) تو وہ شے فوراًہی لباسِ وجود سے آراستہ ہوجاتی ہے‘‘۔ہم انسانوں کو اشیا بنانے کے لیے کافی وقت لگتا ہے مگر خدا کے لیے لمبی مّدت درکار نہیں ہوتی۔ ہم مخلوق ہیں اور وہ ہمارا خالق ہے۔اس لیے مخلوق کے طریق تخلیق اور خالق کے عملِ تخلیق میں لازماً فرق ہونا چاہیے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کی اس فوری اور حیرت انگیز خلاقی صفت کو ان الفاظ میں بیان کرتاہے’’ واِذا قضٰی امراً فاِ نّما یقُول لہ‘کُن فیکُون‘‘(آل عمران ۳:۴۷)( جب وہ کسی ’’امر‘‘ کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اُسے کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے )۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ عالم امر میں اشیا بے صورت رہتی ہیں لیکن جب وہ عالم خلق میں آتی ہیں تو اُنھیں صورت عطا کی جاتی ہے۔خدا حجاب میں ہونے کے باوجود بے حجاب ہونے میں لذت محسوس کرتا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: ؎ حقیقت روئے خود را پردہ باف است کہ او را لذّتے در انکشاف است ( زبو عجم،کلیات اقبال،ص ۵۴۷)

علامہ اقبالؒ کے نقطہ نظر سے وقت کی اصلیت کو جاننے کے لیے خالصتاً معروضی یا خارجی طریق فہم  بھی مفید اور ضروری ہے لیکن یہ ہمیں پوری حقیقت سے آگاہ نہیں کرتا۔ یہ عقلی طریقہ’’چراغ راہ‘‘ تو ضرور ہے مگر اسے’’منزل‘‘قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ وقت کی ماہیت کو ظاہر کرنے والے شعوری تجربات وواردات کا بڑی احتیاط سے نفسیاتی جائزہ لینا چاہیے۔لامکان میں مکانیت کی متلاشی اور مہ وسال کی زنجیروں میں اسیر عقل کو چاہیے کہ وہ اپنے سوا انکشاف حقیقت کے دوسرے ذرائع کے وجود کی اہمیت کو بھی تسلیم کرے۔علامہ اقبالؒ اس ضمن میں کیا خوب فرماتے ہیں:

خرد در لامکان طرحِ مکاں بُست چو زناّ رے زماں رابر میاں بُست زماں دا د ر ضمیر خود ندیدم مہ و سال و شب و روز آفریدم بخود رس ازسر ہنگامہ برخیز تو خو د را درِ ضمیر خود فرو ریز (زبور عجم،کلیات اقبال،ص۵۴۷) (۸)’’نفس انسانی کے دو پہلوہیں۔ فعّال پہلو اور قدر آشنا پہلو۔اپنے فعّال پہلو کے لحاظ سے نفسِ انسانی(خودی) کا مکانی دنیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لیے وہ وقت جس میں نفس فعّال رہتا ہے اُسے ہم طویل اور مختصر کہہ سکتے ہیںلیکن برگساں کے خیال میں اس قسم کا وقت حقیقی وقت نہیں ہوتا۔مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۹)’’ وقت دراصل ممکنات کے پردئہ عدم سے جلوہ گاہِ شہود پر آنے کا نام ہے۔ یہ اس مفہوم میں بامقصد ہے کہ قوت انتخاب اس کی سرشت میں داخل ہے۔ یہ ماضی کو محفوظ رکھ کر اور اس میں اضافہ کرکے حال میں ناممکن الحصول بنتا ہے‘‘ (ایضاً) (۱۰)’’ زمان ومکان توانائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں۔ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زما ن ومکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں‘‘۔(ایضاً) (۱۱)’’ زمان ومکان اور مادہ خدا کی آزادانہ تخلیقی قوت کی فکری تعبیریں ہیں‘‘۔

(تیسرا خطبہ)

  مادی دنیا سے تعلق رکھنے والا وقت اور عالم اقدار پر منحصر وقت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔انسانی ذات یا نفسِ انسانی کا وقت بھی دو مختلف حیثیتوں کا حامل ہوتا ہے۔خودی کے فعال پہلو کا مادی دنیا اور وقت کے خارجی پہلو سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خودی کا قدر آشنا پہلو باطنی دنیا یا عالمِ اقدار اور وقت کے اندرونی پہلو پر انحصار رکھتا ہے۔جب خودی مکانی دنیا سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کا وقت طویل بھی ہوتا ہے اور مختصر بھی۔کہیں مختصر دن اس کی تشکیل کرتے ہیں اور کہیں یہ سالوں پر محیط ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں برگساں اس قسم کے وقت کو حقیقی وقت خیال نہیں کرتا تھا کیونکہ مکانی اور خارجی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔زمانِ مسلسل میں واقعات یکے بعد دیگرے تقسیم پذیر ہوکر غیر حقیقی بن جاتا ہے۔ جس قدر کوئی چیز مادیت اور کثا فت سے دُور ہوتی جائے گا‘وہ اسی قدر تغیر ناآشنا اور مظہر حقیقت بنتی جائے گی۔علامہ اقبال برگساں کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"It is the essence of matter to submit to the law of change: the freer a thing is from matter, the less liable it is to chanqe, God therefore, being absolutely free from matter, is absolutely changeless" (The Development of Metaphysics In Persia,p.26)

مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمانِ حقیقی امروز ِو فردا کے پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا کیونکہ بقول برگساں’’یہ ایک تخلیقی رو ہے جسے ہم ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم نہیں کرسکتے۔حضرت علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس موضوع کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں:
 ؎ تو اسے پیمانہ امروز وفردا سے نہ ناپ          جاودواں پیہم رواں، ہر دم جواں زندگی

(بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۲۵۹) ؎ تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو‘ جس میں نہ دن ہے نہ رات (بال جبریل،کلیات اقبال،ص ۳۸۵)

اشیائے کائنات کی تخلیق کے بارے میں عام طور پر دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں…مادی نظریہ کائنات اور روحانی نظریہ کائنات۔مادی نظریہ کائنات کی رُو سے مادہ بھی خدا کی طرح ازلی وابدی ہے۔ یہ کسی صورت میں بھی ختم نہیں ہوتا۔مادہ مختلف چیزوں میں مختلف شکلیں اختیار تو کرسکتا ہے لیکن یہ خود ہمیشہ موجود رہتا ہے۔اس کے برعکس روحانی نظریہ تخلیق اشیائے عالم کی آفرنیش کا باعث مادّہ کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ خدا کے جذبہ نمود یا عشق کو اس کا محرک قرار دیتا ہے۔روحانی تصورِ کائنات کے مطابق ظاہری اشکال اختیار کرنے سے پہلے اشیا علمِ الہٰی میں تو موجود تھیں لیکن وہ ہنوذ پردئہ غیب میں تھیں۔اس حالت کو ’’عالم امر‘‘ کہا جاتا ہے۔جونہی وہ علمِ الہٰی سے باہر آکر صورت اختیار کرتی ہیں تو اُنکا تعلق’’عالم خلق‘‘ سے ہوجاتا ہے۔ جب کوئی چیز لباسِ وجود سے آراستہ ہوجاتی ہے تو مکانی زمان بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ مکانی زمان حقیقی زمان کی خارجی شکل اور شاخ کی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں’’ وقت دراصل ممکنات کے پردئہ عدم سے جلوہ گاہِ شہود پر آنے کا نام ہے‘‘ علامہ اقبالؒ کا یہ شعر یہاں بے محل نہ ہوگا۔وہ باطن میں مضمر سینکڑوں جہانوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

؎ چہ غم گریک جہاں گم شد زچشمم ہنوز اندر ضمیرم صد جہان است

(پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۳۲)
 اقبالؒ کے مرشد مولانا رومؒ کے خیال میں کائنات کی تمام رونق اور حرکت عشق کی بدولت ہے۔اس زاویہ نگاہ سے وہ جذبہ عشق کو باعث تخلیق حیات تصور کرتے ہیں۔وہ عشق کو تمام اشیائے کائنات کی اصل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں’’صورت‘فرعِ عشق است کہ بے عشق این صورت را قدر نبود۔فرع آں باشد کہ بے اصل نتواند بودن پس اﷲ را صورت نگویند‘‘

(ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم،حکمت رومی،ص۱۸۹)

علامہ اقبالؒ مولانا روم سے ہمنوا ہوکر کائنات کی روحانی بنیاد کی ترجمانی کرتے ہیں۔ برگساں کے تصورِ زمان کے مطابق وقت کی ارتقائی اور تخلیقی رو کسی مقصد کی حامل نہیں۔علامہ اقبالؒ کو برگساں کی اس رائے سے شدید اختلاف ہے کیونکہ وہ تو مقاصد کی تخلیق کو اشیا اور زندگی کی نمایاں ترین صفت خیال کرتے ہیں:

؎ جہاں یک نغمہ زارِ آرزوئے بم و زیرش زتارِ آرزوئے

 بہ چشمم  ہرچہ ہست  و  بُود  باشد         دمے   از   روز گا رِ   آرزوئے

(پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۳۳)

اُنھیں برگساں کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کہ زمانہ ماضی اور حال کی کیفیات کا تو آئینہ دار ہوتا ہے لیکن مستقبل کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔حضرت علامہ اقبالؒ آرزو کی مستقبل آفرینی کے بھی زبردست قائل تھے۔وہ وقت اور مقصدیت وآرزو کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہیں:
زندگی   د ر  جستجو  پوشیدہ  است        اصل  ِ اُو  در  آرزو  پوشیدہ است
آرزو  را  در  دلِ  خود  زندہ دار        تانگرد     مشت   خاک  تو  مزار

آرزو جانِ جہان رنگ وبو است فطرتِ ہر شے امینِ آرزو است (اسرار خودی،کلیات اقبال،ص۱۶۔۱۵)

  خدا تعالیٰ ہر لمحہ کائنات کو ارتقا پذیر‘ حرکی اور تخلیقی سرگرمی کی حامل بنانے کے لیے نئے نئے حوادث معرض وجود میں لاتا رہتا ہے۔اس کی خلاقی صفت کا تقاضا نئی جلو ہ گری میں مصروف ہوکر کائنات کے تنوع اور حسن میں اضافہ کرنا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے کہ :’’کُل      یوم ُھو فی شانِ‘‘(۲۹:۵۵)(وہ ہر روز نئی شان کا اظہار کرتا ہے )۔جب خدا کی تخلیقی صفت کا اظہارہوتا ہے تو اشیا اور واقعات معرض وجود میں آکر مختلف اشکال اور مختلف صفات اختیار کرلیتے ہیں۔ زمان ومکاںبھی خدا کی خلاقی صفت کے مظہر ہیں۔ انسانی عقل زمانِ ایزدی کے معجزات کو سمجھنے سے قاصر ہے اس لیے وہ اپنی سہولت اور حدود کے مطابق انائے مطلق یعنی خدا کی تخلیقی سرگرمیوں اور طریقہ ہائے آفرنیش کی فکری تعبیریں پیش کرنے پر مجبور ہے۔ یہ کائنات چونکہ حقیقت کا پرتو ہے بنابریں اسکی فکری تعبیرات روحِ کائنات کی صحیح طور پر آئینہ دار نہیں ہوسکتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل کی تگ وتاز جزوی طور پر اس کا ادراک کرسکتی ہے۔ ہم شب وروز کے تغیر وتبدل اور گردشِ ماہ ومہر کو اپنے ریاضیاتی زمان اور مکان کی مدد سے کسی قدر محسوس کرکے اس احساس کو اپنے افکار ونظریات میں بیان کرنے کے عادی ہیں۔ غالباًاسی لیے علامہ اقبالؒ نے یہ کہا تھا:

؎ ایں جہاں چیت؟صنم خانہ پندارِ من است جلوئہ اُو گر وِ دیدئہ بیدارِ من است

  ہستی  و  نیسی  از  دیدن  و  نادیدنِ  من     چہ زمان وچہ مکان شو خی افکارِ من است    
اے من از فیضِ تو  پائندہ!نشانِ تو کجاست     ایں دو گیتی اثرِ ماست،جہانِ تو کجاست

(زبو عجم،کلیات اقبال،ص۴۰۹)

   دنیا کی موجودات اور یہ ہنگامہ ہائے نو بہ نو دراصل ہمارے افکار وخیالات کا عکس ہیں۔ہم  محدود ہستی کے حامل خدائے لامحدود کا کماحقہ ادراک نہیں کرسکتے۔ اُس وقت ہم اپنی عقل محدود سے کام لے کر ظن وتخمین کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ یہ زمان ومکان بھی ہماری شوخی افکار کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہیں۔خدا کی ہستی بے جہت اور بے رنگ ہے۔چونکہ ہم جہات سِتّہ اوررنگ وبو کی دنیا میں مقید ہوتے ہیں اس لیے ہم خدا کو اپنے وہم وقیاس میں لانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ خدا کے بارے میں ہماری قیاس آرائی اور خود پرستی کی طرف اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں اشارہ کرکے بجا کہتے ہیں:

تراشیدم صنم برصورتِ خویش بشکل خود خدا را نقش بستم مرا ازخود بروں رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم، خو د پرستم (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۳۸)

  کائنات کی چیزوں اور حوادث کی تہ میں تو وحدت کا اُصول کارفرما ہے مگر ہم اپنی تجزیاتی فکر کے ہاتھوں مجبور ہوکر وحدت کو کثرت اور عدمِ جہات کو بالا وپست اور چپ وراست پر قیاس کرنے  لگتے ہیں۔شاعر مشرق انسانی فکر کی اس تنگ نظری اور بے چارگی اور انائے مطلق(خدا تعالیٰ) کی حقیقت کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں:

مجو مطلق دریں دیرِ مکافات کہ مطلق نیست جُز نور الّسمٰوات

حقیقت  لازمان  و لامکان  است        مگو   دیگر  کہ  عالم بیکراں   است
کرانِ اُو دردنِ است وبروں نیست       درونش  پست  و  بالا کم فزوں  نیست  
در  ونش  خالی  از   بالا  وزیر است        ولے  بیرونِ اُو  وسعت پذیر  است
ابد را  عقل  ما  نا  ساز گار   است        ’یکی‘  از گیر  و  دارِ  اُو  ہزار  است

حقیقت را چوما صد پارہ کردیم تمیز ثابت و سّیار کردیم

            (زبو رعجم،کلیات اقبال،ص۵۴۷۔۵۴۶)

(۱۲)’’ اگر ہم مقصد سے یہ مراد لیں کہ وہ ایک متعین منزل ہے جس کی جانب مخلوقات رواں دواں ہیں تو پھر کائنات کی حرکت زمانی مقصد سے عاری ہوجاتی ہے۔ہم وقت کی حرکت اور طریق کو پہلے سے کھینچا ہوا خط خیال نہیں کرسکتے بلکہ یہ ایک ایسا خط ہے جو ہمیشہ معرض وجود میں آتا رہتا ہے‘‘

(دوسرا خطبہ)

(۱۳)’’ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مستقبل خدا کی نامیاتی تخلیقی زندگی میں پہلے سے موجود ہے لیکن یہ ایک واضح امکان کے طور پر موجود ہے نہ کہ محضوص خدوخال رکھنے والے واقعات کے متعینہ نظام کی حیثیت سے‘‘ (تیسرا خطبہ) (۱۴)’’ اگر ہم تاریخ کو پہلے سے متعین واقعات وحادثات کے نظام کی ایک ایسی تصویر خیال کریں جو بتدریج ظہور پذیر ہوتی ہو تو پھر اس میں جدت اور تازہ کاری کے واسطے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی‘‘ (تیسرا خطبہ) (۱۵)’’ ابن خلدون کا نظریہ تاریخ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تاریخ کو پہلے سے مقرر کردہ راستے کی بجائے مسلسل حرکت ِزمانی اور صحیح طور پر تخلیقی رو سمجھتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ کے فلسفیانہ نظام میں حرکت‘عمل ‘سعی‘ خودی کے استحکام‘آزادی انتخاب اور زندگی کی ارتقا پذیر ی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔تقدیر کے بارے میں بھی اُن کا تصور روایتی انداز کا نہیں ہے۔وہ زمانے کو حرکی اور ارتقا پذیر سمجھتے ہوئے اس کی مقصدیت کے تو زبردست قائل ہیںلیکن وہ اسے پہلے سے معین نقشے کی ہوبہو نقل تصور کرنے کے شدید مخالف ہیں۔اگر ہم وقت کی گردش کے مقصد سے یہ مراد لیں کہ وہ ایک معین منزل کی طرف رواں دواں ہے تو پھر حرکت و ارتقا کا کیا فائدہ؟اگر ہمارے مقاصد حیات روز ازل سے ہی مقرر کردئیے گئے ہیں تو پھر ہم آزادی انتخاب اور آزادی عمل کے مالک کب ٹھہرتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری زندگی نئے نئے مقاصد کی تولیدو تخلیق پر منحصر ہے۔ جب ہم ایک مقصدحاصل کرلیتے ہیں تو دوسرا نیا مقصد پیدا ہوکر ہمیں سرگرم عمل رکھتا ہے۔مقاصد کی تخلیق کا یہی سلسلہ انسانی حیات کے لیے تارو پود کی حیثیت رکھتا ہے۔ان مقاصد کا زیادہ تر تعلق ہمارے مستقبل کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ حرکی اور ارتقائی سلسلہ ہی ہماری شخصیت کے اثبات، ہماری فکری عظمت اور ہماری زندگی کی خوشگواریوں پر دلالت کرتا ہے۔اگر ہمارا مستقبل ہمارے ماضی اور حال سے بہتر نہیں اور وہ ان کی تکرار کا آئینہ دار ہو تو یہ امر حیات جادواں کا غماز نہیں بن سکتا بقول اقبالؒ: دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بیک صورت قرارِ زندگی نیست

اگرامروز تو تصویرِ دوش است      بخاک  تو شرارِ زندگی  است

( پیام مشرق، کلیات اقبال،ص۲۰۷)

انسانی زندگی اگر خیر وشر کو انتخاب کرنے کی آزادی اور اختیار سے عاری ہوجائے اور وقت کی حرکت پہلے سے کھنچے ہوئے خط پر ہی جاری رہے تو پھر انسان مجبور محض ہوکر کچھ نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیں خدا کی خلاقی صفت بھی ختم ہوجائے گی۔خدا جب کائنات کو ایک ہی بار بناکر فارع ہوگیا تو پھر تخلیقی سرگرمی کا حامل کیسے رہا؟ قرآن حکیم کا ارشاد ہے : ’’ یزِ یُد فیِ الخلق ما یشائ‘‘(۱:۳۵) (خدا جس طرح چاہے اپنے عمل تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے) ۔ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا اور اس کی صفات ازلی اور ابدی ہیں۔ اگر خدا کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ ماضی میں کائنات کو مکمل کرکے بیٹھ گیا ہے تو پھر اس کی صفتِ تخلیق معطل ہوجاتی ہے۔ایسا خیال کرنا تو قرآن حکیم کی رو سے غلط ہوگا۔لامحالہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خدا اب بھی ہر لمحہ تخلیقی عمل اور جلوہ گری میں لگا ہوا ہے۔ ایک حدیث مبارک میں ہمیںحکم دیا گیا ہے:  ’’ تخلّقوا باِ خلاقِ اﷲ‘‘  (تم اپنے اندر خدائی اخلاق پیدا کرو)۔جب خدا خّلاق ابدی ٹھہرا تو پھر اس کے بندوں میں بھی اس خدائی صفت کا عکس پایا جانا چاہیے۔اس لحاظ سے انسان کے لیے آزادی عمل اور ارتقائی سرگرمی کا لزوم ماننا پڑے گا۔ جب انسان کو اِزل سے متعین پروگرام کا اندھا دھند عامل قر ار دیا جائے تو اُس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی جیسی ہوجاتی ہے۔ایسی بے جان اور بے اختیار مخلوق سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ زمین پر نیابت الہٰی کا فریضہ سرانجام د ے سکے؟ علامہ اقبال ؒکی رائے میں گردش لیل ونہار کا مقصد تو انسانی خودی کی نمود کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ ساقی نامہ میں کہتے ہیں:

؎ یہ ہے مقصد ِ گردشِ روز گار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار (بال جبریل،کلیات اقبال،ص۴۲۱)

خدا تعالیٰ کے علم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حضرت علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ وہ’’عالمِ الغیب والشہادہ‘‘ ہونے کے لحاظ سے مستقبل سے بخوبی آگاہ ہے۔مستقبل سے پوری آگاہی کے باوجود اس نے اُسے مخصوص خدو خال رکھنے والے واقعات کا متعینہ نظام نہیں بنایا بلکہ یہ ایک واضح امکان کے طور پر علمِ الہٰی میں موجود ہے۔اُنھوں نے خدا کے تخلیقی عمل کو’’نامیاتی‘‘ کہہ کر اُسے پودے کے بیج سے تشبیہ دی ہے جو اپنے اندر مستقبل کی نشو ونما کے تمام  امکانات کا حامل ہوتا ہے۔ جس طرح بیج میں پودے کی نشو ونما کی تمام صلاحتیں مخفی ہوتی ہیں‘اسی طرح مستقبل بھی پورا پورا نہیں بنایا جاتا بلکہ اس کے اندر آئندہ ترقی وارتقا کے امکانات پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔خدا کے اس نامیاتی تخلیقی عمل کا مقصد انسانی زندگی کو حرکی‘ ارتقا پذیر ‘باعمل اور بااختیار بنانا مقصود ہے تاکہ انسان آزادی عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے بہر ہ ور ہوکر تسخیر کائنات کا فریضہ سرانجام دے اور صحیح معنوں میں خدا کا نائب ثابت ہوسکے۔ اُن کا یہ قطعہ اس امر کا آئینہ دار ہے:

جہان ما کہ جز انگارئہ نیست اسیرِ انقلاب صبح و شام است

زسوہانِ  قضا  ہموار  گردو       ہنوز  ایں  پیکر گل  ِ نا تمام   است

(پیام مشرق، کلیات اقبال،ص۲۲۸) تاریخ کو بھی علامہ اقبالؒ پہلے سے مقررہ کردہ واقعات وحادثات کی نقل خیال نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اسے جرمن فلسفی نطشے(۱۹۰۰ئ۔۱۸۴۴ئ) کی طرح’’تکرار ابدی‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔اُن کی رائے میں اگر تاریخ کو پہلے سے طے شدہ واقعات کی تکرار اور نقل مانا جائے توپھر اس میں جدت طرازی اور تازہ آفرینی کی گنجائش نہیں رہتی اور انسان حادثات عالم کا محض تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔اگر انسان کو مجبور محض اور تاریخ کو انسانی تخلیق سے عاری خیال کیا جائے تو ایک طرف خدا تعالیٰ اور دوسری طرف انسان تماشا گاہ عالمِ کے ناظر بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کوشہرہ آفاق عرب تاریخ دان ابن خلدون(۱۴۰۶ئ۔۱۳۳۲ئ) کے نظریہ تاریخ کے حرکی اور تخلیقی پہلو کے بہت زیادہ مداح ہیں کیونکہ اس نے تاریخ کو مسلسل حرکتِ زمانی اور تخلیقی رُو قرار دیا تھا۔زمانے کا یہ تصور قرآنی تعلیمات سے کامل ہم آہنگی رکھتا ہے اس لیے حضرت علامہ اقبالؒ نے اُسے درست خیا ل کرتے ہوئے ابن خلدون کو مشہور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں کا پیش رو کہا ہے۔ (۱۶)’’ وقت کے راز ِسر بستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں‘‘ (دوسرا خطبہ) (۱۷)’’ جہاں تک وقت کی ماہیت واصلیت کا تعلق ہے‘میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہ کرسکا‘‘۔ (امام فخر الدین رازی کا قول) (تیسرا خطبہ) (۱۸)’’ زمان ومکان کا مسئلہ زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم ونثر میں زمانے اور وقت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ موضوع اُن کی تقریباً تمام تصانیف‘ملفوظات‘ اور خطوط میں کسی نہ کسی رنگ میں ضرور بیان ہوا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسفہ زمان سے اُنھیں اپنی عمر کے تمام مراحل میں کس قدر گہری دلچسپی رہی ہے۔ اُنھوں نے وقت کے موضوع پر زیادہ تر’’اسرارِخودی‘‘اور اپنی مشہور زمانہ انگریزی تصنیف’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں اظہار خیال کیا ہے۔ اپنے خطبات میںاُنھوں نے زمان کے مختلف گوشوںپر مذہبی اور فلسفیانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے اور مشرق ومغرب کے نامور مفکرین اور اہل مذہب کے افکار کے بارے میں بھی اپنے محضوص خیالات کا اظہار کیاہے۔ یونانی فلاسفہ سے لے کر دور حاضر کے اہل فکر ودانش تک زمان کے موضوع پر جو کچھ لکھا گیا‘ وہ علامہ اقبالؒ کے زیر مطالعہ تھا۔وقت سے متعلق تمام اہم مفکرین کے خیالات ونظریات پر اُنھوں نے خالصتاً قرآنی،سائنسی،روحانی اور فکری طور پر اپنی رائے کو بیان کرنے کے بعد آخر یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ وقت کے راز کو نہیں سمجھ سکے۔اُن سے پہلے امام شافعیؒ ، اشاعرہ، یونانی فلاسفہ ، زینو، عراقی، ابن حزم، امام فخر الدین رازیؒ ، آئن سٹائن‘‘میک ٹیگرٹ، کنیٹر، برٹرنڈر رسل،برگساں اور ملا جلال الدین دوانی نے وقت کے موضوع کو چھیڑا تھا۔علامہ اقبالؒ نے اس ضمن میں قرآنی آیات اور احادیث نبویؐ سے بھی استشہاد کیا ہے۔اُن سے کئی صدیاں قبل عالم اسلام کے نامور مفسر قرآن امام فخر الدین رازیؒ نے بھی مختلف حکما کے افکارِ زمان کو موضوع بحث بنانے کے بعد جو کچھ کہا تھاوہ علامہ اقبالؒ نے اپنے قول کی تائید میں پیش کردیا ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے کہ فلسفہ زمان کی روشنی میں وقت کی ماہیت کو درست طورپر سمجھنا کوئی آسان بات نہیں۔اپنے عجز فہم کا اعتراف کرنے کے بعد اُنھوں نے امام فخر الدین رازیؒ کے عجز ادراک کو خود ان کے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:’’ جہاں تک وقت کی ماہیت و اصلیت کا تعلق ہے،میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہ کرسکا‘‘۔علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک فارسی نظم’’ نوائے وقت‘‘ میں وقت کی زبان سے اس کی حقیقت وماہیت کو یوں قلم بندکیا ہے:۔ خورشید بہ د ا مانم‘ انجم بہ گریبانم در من نگر ی ہیچم‘در خود نگری جانم

        من تیغِ  جہاں  سوزم‘  من  چشمہ حیوانم         

آسودہ و سیّارم‘ایں طر فہ تماشا بیں دربادئہ امروز م‘کیفیت فردا بیں

            من کسوتِ انسانم‘پیراہن یزدانم              
      آوارئہ آب وگل! دریاب مقام ِ دل   گنجیدہ بہ جامے بیں‘ایں قلزم بے ساحل

ازموج بلند تو سر برزدہ طوفانم

   زمان ومکان کے مسئلے کو علامہ اقبالؒ نے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا ہے۔آئیے ہم ذرا اس بات کا جائزہ لیں کہ زمان و مکان کا مسئلہ اُن کی رائے میں زندگی اور موت کا مسئلہ کیسے ہے۔ زمان ومکان کو اگر غیر حقیقی،غیر اہم اور غیر متحرک خیال کیا جائے تو وہ تصور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے زوال اور محکومیت کا باعث بنے گا۔جب ہم دنیا کو غیر حقیقی اور غیر ضروری سمجھیں گے تو ہم دینوی کامرانیوں،تسخیر کائنات،مشاہدہ فطرت اور بلندیوں کے حصول سے لازماً دُور رہیں گے۔ یہ راہبانہ نظریہ انجام کار ہماری غلامی، پسماندگی،ہمہ گیر انحطاط اور تقدیر پرستی کو جنم دے گا۔زمان ومکان کو اگر ہم حرکی اور ارتقا پذیرتصور نہ کریں تو ہم لامحالہ خود حرکت‘عمل‘ سعی اور آئندہ ترقی کے جذبات سے عاری ہوکر موت وجمود کو دعوت دیں گے۔فکر اقبالؒ سے وابستگی رکھنے والے حضرات سے یہ امر مخفی نہیںکہ علامہ اقبالؒ حرکت مسلسل، سعئی پیہم،عمل مدام اور ارتقا و عروج کے کتنے مّداح اور تسخیر کائنات کے نظریے کے کتنے عظیم مبلغ تھے۔اُن کی رائے میں نفی خودی کا  یہ انداز ہماری قومی زندگی کے انحطاط کا سبب تھا۔اس لیے وہ مسلمانوں کے اندر اثبات ِذات‘تعمیر خودی، ملّی استحکام، عشق رسول ﷺ خدا پرستی اور انقلاب آفرینی کے جذبات موجزن کرتے رہے۔اُنھوں نے ہر اس تصور کی شدید مذمت کی جو ضعف خودی،تقدیر پرستی اور کاہلی پر مبنی ہوتا ہے۔وہ تو مومن کی شان،تسخیر کائنات اور زمان ومکان کی فتح قرار دیتے تھے۔ وقت تلوار کی مانند ہر چیز کو تباہ وبرباد کردیتا ہے لیکن خودی شناس، بلند ہمت اور آزاد بندوں کو حیات جادواں سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں چند اشعار درج کئے جاتے ہیں جو وقت اور انسانی زندگی کے باہمی تعمیری یا تخریبی روابط پر روشنی ڈالتے ہیں:۔

؎ اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا! اے فروغ دیدئہ امکان بیا

 ( اسرارِ خودی، کلیات اقبال، ص۴۶)

؎ اگر امروزِ تو تصویرِ دوش است بخاک تُو شرارِ زندگی نیست (پیام مشرق، کلیات اقبال،ص۲۰۷)

علامہ اقبالؒ اپنی ایک معرکہ آرااور فکرا نگیز نظم’’مسجد قرطبہ‘‘  میں فرماتے ہیں:۔
سلسلہ  روز وشب  ،نقش گرِ حادثات      سلسلہ  روز  و  شب ،   اصل  حیات  و ممات
تجھ  کو  پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ      سلسلہ   روز   و   شب،     صیرفئی  کائنات
تو  ہو اگر کم عیار  ، میں ہوں اگر کم عیار       موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ      عشق ہے اصل ِحیات،  موت  ہے اس پر حرام

( بال جبریل،کلیات اقبال، ص۳۸۶۔۳۸۵)