Actions

زبان اردو کی تاریخ

From IQBAL

Revision as of 14:46, 9 July 2018 by Armisha Shahid (talk | contribs) (Created page with " قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب میں اب قطعے قطعے کی زبان کہیں کچھ کچھ اور کہیں بالکل اختلاف ر...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب میں اب قطعے قطعے کی زبان کہیں کچھ کچھ اور کہیں بالکل اختلاف رکھتی ہے اوریہی حال اوراضلاع ہند میں ہے۔ اسی طرح اس عہد میں بھی اختلاف ہو گا اور اس عہد کی نامی زبانیں وہ ہوں گی جن کی نشانی تامل‘ اوڑیا اورتیلگو وغیرہ اضلاع دکن اور مشرق میں اب تک یادگار موجود ہیں۔ بلکہ اس حالت میں بھی ان کی شاعری اور انشاء پرداز ی کہتی ہے کہ یہ گٹھلی کسی لذیذ میوے کی ہے اور سنسکرت سے اسے لگائو تک نہیں۔ فتح یابوں نے ہندو کش کے پہاڑ سے اتر کر پہلے تو پنجاب ہی میں ڈیرے ڈالے ہوں گے پھر جوں جوں بڑھتے گئے ہوں گے اصلی باشندے کچھ تو لڑتے مرتے دائیں بائیں جنگلوں میں گود اور پہاڑوں کے دامن میں گھستے گئے ہوں گے کچھ بھاگے ہوں گے وہ دکن اور مشرق کو ہٹتے گئے ہوں گے کچھ فتح یابوں کی غلامی اور خدمت گاری میں کام آئے ہوں گے اور وہی شودر کہلائے ہوں گے ۔ چنانچہ ابھی تک ان کی صورتیں کہے دیتی ہیں کہ یہ کسی اوربدن کی ہڈی ہیں۔ مدت درا زتک ایران بھائیوں کے کاروبار ہندوستانی بھائیوں کے ساتھ ساتھ لے جلے رہے ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ ایران کی تاریخ قدیم میں مہ آباد اور اس کے زمانے کی تقسیم برہما کے زمانے اور اس کے رسوم و قواعد کے مطابقت دکھاتی ہے اور چاروں برنوں کا برابر پتہ لگتاہے۔ یہاں بدھ نے انہیں توڑا اور وہاں زرتشت کے مذہب نے اسے جلال کر خاک کر دیا۔ مگر ہندوئوں نے بدھ کے بعد پھر اپنے حال کو سنبھال لیا۔ ایرانی اپنی بدحالی کو نہ سنبھال سکے۔ چاروں برنوں کی تقسیم اور ان کا الگ تھلگ رہنا دور کے دیکھنے والوں کو غرور کے لباس میں نظر آیا۔ مگر حق پوچھو تو یہ کچھ بری بات نہ تھی۔ اسی کی برکت ہے کہ آج تک چارو ں سلسلے صاف الگ الگ چلے آتے ہیں۔ جو ہندو ہو گا ماں باپ دونوں کی طرف سے خالص ہو گا۔ اور برابر اپنی قوم کا پتا بتا سکے گا۔ جو دوغلا ہو گا اسا کا سلسلہ الگ ہو جائے گا۔ اگر یہ قیدیں اس سختی سے ساتھ ہ ہوتیں تو تمام نسلیں خلط ملط ہوجاتیں۔ نجیب الطرفین آدمی چاہتے توڈھونڈنے سے نہ ملت۔فتحیابوں کی ان سخت قیدوں نے آپس کی بندشوں میں عجیب طرح کے پھندے ڈالے۔ چنانچہ سب نسلوں کی حفاظت کا پورا بندوبست کر چکے تو خیال ہوا کہ شودروں کے ساتھ آٹھ پہر بات چیت رہنے سہنے اور لین دین کرنے میں بزرگوں کی زبان دوغلی ہو جائے گی اس واسطے کہاکہ ہماری زبان زبان الٰہی ہے۔ اور الٰہی عہد سے اسی طرح چلی آتی ہے۔ چنانچہ اس کے قواعد او راصول باندھے اور ایسے جانچ کر باندھے‘ جن میں نقطے کا فرق نہیں آ سکتا۔ اس پاکیزگی نے غیر لفظ کو اپنے دامن میں ناپاک دھبا سمجھا اور سوا برہمن کے دوسرے کی زبان بلکہ کان تک گزرنا بھی ناجائز ہوا۔ اس سخت قانون نے یہ بڑا فائدہ دیا کہ زبان ہمیشہ اپنی اصلیت اور بزرگوں کی یادگار کا خالص نمونہ نمایاں کرتی رہے گی۔ برخلاف ایرانی بھائیوں ے ان کے پاس زبانی سند بھی نہ رہی۔ اسی بنیاد پر فتحیابوں کی بلند نظری نے اس کا نام سنسکرت رکھا۔ جس کے معنی آراستہ پیراستہ منقیٰ منزہ صفا مقدس جو چاہے سمجھ لو۔ ان کے قواعد زبان بھی ایسے ہی مقدس ہوئے کہ بزرگان دین ہی اسے پڑھائیں تو پڑھائیں بلکہ اس طرح پکار کر پڑھناا بھی گناہ ہوا کہ شودر کے کان میں آواز پڑے اس زبان کا نا مدیو بانی ہوا۔ یعنی زبان الٰہی زبان شاہی دید کے سنہ ترتیب جس سے اس عہد کی زبان کا پتہ چلے گا۔ ۱۴ سو برق قبل سنہ عیسوی خیال کرتے ہیں۔ اس وقت ان فتح یابوں کی باتیں اس ملک اورملک والوں کے ساتھ ایسی سمجھ لو جیسے ہندوستان میں پہلے پہلے مسلمانوں کی حالتیں ان کے سنسکرت زبان کے مخرج اور تلفظ یہاں کے لوگوں میںآ کر کچھ اور ہو گئے ہوں گے۔ اس لیے گھروں اور بازاروں میں باتیں کرنے کو قطعے قطعے میں پراکرت زبانیں جو خود بخود پیدا ہو گئی ہوں گی۔ جیسے اسلام کے بعد اردو چنانچہ ماگدھی (پالی) سورسینی‘ مہاراشٹری وغیرہ قدیمی پراکرتیں اب بھی اپنی قدامت کا پتا بتاتی ہیں۔ ان کی سیاہی میں سینکڑوں لفظ سنسکرت کے چمکتے نظر آتے ہیں۔ مگر بگڑے ہوئے ہیں۔ دیکھا! پرکت کے معنی ہیں طبیعت اور جو طبیعت سے نکلے چنانچہ ہیم چند لغات سنسکرت کا جامع بھی یہی کہتا ہے۔ اس کے علاوہ سنسکرت مہذب اور مقدس اور پراکرت غیر مہذب لوگوں کو کہتے ہیں۔ پس ایسی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فہمیدہ لوگ ہیں۔ ہر بات کو خوب سمجھتے تھے اور جو کچھ انہوںنے کیا سمجھ کر کیا۔ راجہ بھوج کے عہد کی ناستک پستکیں کہتی ہیں کہ ان عہدوں میں علمی کتابی اور مادری زبان تو سنسکرت تھی مگر چونکہ معاملہ خاص و عام سے پڑتا ہے اس لیے گفتگو میں پنڈتوں کو بھی پراکرت ہی بولنی پڑتی ہے۔ پراکرت صاف سنسکرت کی بیٹی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں ہزاروں لفظ سنسکرت کے ہیں اور ویسے ہی قاعدے صرف و نحو کے بھی ہیں۔ سنسکرت کی اتنی حفاظت ہوئی پھر بھی منو سمرتی دیدوں کی ترتیب سے کئی سو برس بعد لکھی گئی تھی اس میں اور وید کی زبان میں صاف فرق ہے اوراب اور بھی زیادہ ہو گیا۔ لیکن چونکہ سلطنت اور معتبر تصانیف پر مذہب کا چوکیدار بیٹھا تھا۔ اس لیے نقصان کا بہت خطرہ نہ تھا کہ دفعتاً ۵۴۳ برس قب عیسوی میں بدھ مذہب کے بانی شاک منی پیدا ہوئے۔ وہ مگدھ دیس سے اٹھے تھے ااس لیے وہیں اس کی پراکرت میں وعظ شروع کیا۔ کیونکہ زیادہ تر کام عوام سے تھا۔ عورت مرد سے لے کر بچے بوڑھے تک یہی اس دیس کی زبان تھی۔ ان کی آتش بیانی سے مذہب مذکور ایسا پھیلنا شروع ہوا جیسے بن میں آگ لگے۔ دیکھتے دیکھتے دھرم حکومت رسم و رواج دین آئین سب کو جلا کر خاک کر دیا اور مگدھ دیس کی پراکرت کل دربار اور کل دفتروں کی زبان ہو گئی اقبال کی یاوری نے عوم و فنون میں بھی ایسی ترقی دی کہ تھوڑے ہی دنوں یں عجیب و غریب کتابیں تصنیف ہو کر اسی زبان یمں علوم کے کتب خانے سج گئے اور فنون کے کارخانے جاری ہو گئے۔ کہیں کہیںکونے گوشے میں جہاں کے راجہ دید کو مانتے رہے۔ وہاں دیدوں کااثر رہا۔ باقی راج دربار اور علمی سرکار سب ماگدھی ہی ماگدھی ہو گئی ان کے حوصلے وسیع ہوکر دعوے پڑھے اور بآواز بلند کہہ دیا کہ ابتدائے عالم سے تمام زبانوں کو اصل ماگدھی ہے۔ برہمن اور کل انسان بات کرنے کے لائق بھی نہ تھے۔ اصل میں ان کی بھی اور قادر مطلق بدھ کی زبان یہی ہے۔ اس کی صرف و نحو کی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں۔ خدا کی قدرت دیکھو جو لونڈی تھی وہ رانی بن بیٹھی اوررانی منہ چھپا کر کونے میں بیٹھ گئی۔ زمانے نے اپنی عادت کے بموجب (تخمیناً ۱۵ سو برس بعد) بدھ مذہب کو بھی رخصت کیا اور اس کے ساتھ اس کی زبان بھی رخصت ہوئی۔ شنکر اچارج کی برکت سے برہمنوں کا ستارہ ڈوبا ہوا پھر ابھر کر چکا اور سنسکرت کی آب و تاب بھی شروع ہوئی۔ راجہ بکر ماجیت کے عہد می جو روشنی اس کی فصاحت نے پائی۔ آج تک لوگوں کی آنکھوں کا اجالا ہے ۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دربار سلطنت اور اعلیٰ درجے کے لوگوں کو سنسکرت سے بولنا اعتبار و افتخار کی سند تھا اور پراکرت عوام کی زبان تھی۔ کیونکہ اس عہد میں کالی داس ملک الشعراء نے شکنتلا کا ناٹک لکا ہے سبھا میں دیکھ لو بادشاہ امراء اور پنڈت سنسکرت بول رہا ہے۔ کوئی عام آدمی کچھ کہتا ہے تو کوئی پراکرت میں کہتا ہے۔ گیارہویں صدی عیسویں سے پہلے راجہ بھرت کے عہد میں برج ے قلعے کی وہ زبان تھی۔ جسے ہم آج کی برج بھاشا کی اصل کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت بھی ہر قطعے میں اپنی اپنی بولی عام لوگوں کی حاجت روائی کرتی تھی او رسنسکرت تصنیفات اور خواص کی زبانوں کے لیے برکت تھی کہ دفعتاً زمانے کے شعبدہ باز نے ای اوررنگ بدلا یعنی اسلا م کا قدم ہندوستان آیا ۔ اس نے پھر ملک و مذہب کو نیا انقلاب دیا اور اسی وقت سے زبان کا اثر زبن پر دوڑنا شروع ہو گیا۔ سنسکرت اور اصل فارسی ژند داستا کی زبان ایرین کے رشتے سے ایک دادا کی اولاد ہیں مگر زمانے کے اتفاق دیکھوکہ خدا جانے کے