Actions

دُعا ونماز

From IQBAL

Revision as of 00:07, 20 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’دُعا کا حقیقی مقصد اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب دُعا کا عمل اجتماعیت کا حامل ہو۔تما م حق...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’دُعا کا حقیقی مقصد اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب دُعا کا عمل اجتماعیت کا حامل ہو۔تما م حقیقی عبادات کی رُوح اجتماعیت پر مبنی ہوتی ہے‘‘

( تیسرا خطبہ)

(۲)’’ اسلام روز مرہ نماز کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے تاکہ ہماری خودی اختیار وحیات کے آخری سرچشمے کا قرب واتصال حاصل کرلے…نماز حقیقت میںخودی کا میکانیت یعنی جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ)

اجتماعیت اسلامی تعلیمات کی ایک نمایاں خوبی ہے۔اسلام نے نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ کے ذریعے ہم پر اجتماعی زندگی کی اہمیت وافادیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اجتماعی نماز کو ہر لحاظ سے انفرادی نماز پر اور انفرادی عبادت پر اجتماعی عبادت کو ترجیح دے کر اسلام نے دراصل اجتماعی دعا کے تصور کو اجاگر کردیا ہے۔اسلام کے نقطہ نظر سے مسلمانوں کی فلاح وترقی کا راز اُن کی اس اجتماعی زندگی میں پوشیدہ ہے جو وہ قرآن حکیم اور اُسوہ رسول ؐ کے مطابق  بسرکرتے ہیں۔ پنجگانہ نماز،نماز جمعہ اور نماز عیدین اس اجتماعیت کی مظہر ہیں۔اسی طرح حج کے موقع پر دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے اور مختلف بولیاں بولنے والے مسلمان اکٹھے ہوکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ  جغرافیائی حدود، نسلی امتیازات، لونی اختلافات اور لساِنی فرق اسلامی مساوات ووحدت کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتے۔اس لحاظ سے ا سلام واقعی اجتماعیت کی شان رکھنے والا عالمگیر دین ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں دعا کے حقیقی مقصد کو دعا کے اجتماعی عمل سے وابستہ قرار دیا ہے کیونکہ وہ تمام حقیقی عبادات کی روح کو اجتماعیت پر منحصر خیال کرتے ہیں۔زیادہ تر قرآنی دعائوں میں صیغہ واحد متکلم کی بجائے صیغہ جمع متکلم استعمال کیا ہے مثلا’’ رّبنا اٰ تناِ فی الّدنیا حسنہً وّ فی الاٰ خرۃ حسنتہ‘‘ ( البقرہ ۲:۰۱ ۲)(اے ہمارے پالنے والے تو ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی عطا کر)۔ اسی طرح ہم کو مل کر خدا سے یہ دعا بھی مانگنے کا درس دیا گیا ہے: ’’ رّبنا افرِغ علینا صبراً وّ ثبت اقدامنا و انصر نا علی القومِ الکفرینِ‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۰) (اے ہمارے پرودگار!تو ہمارے دلوں میں صبر ڈال اور ثابت قدمی عطا کر اور کافروں سے مقابلہ میں ہماری مدد فرما )۔اسلام چونکہ انفرادی نجات ہی کا قائل نہیں بلکہ وہ اجتماعی نجات کا بھی علم بردار ہے اس لیے اس نے دعائوں کو بھی اجتماعی شکل دے دی ہے۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :’’ یُد اﷲِ علی الجما عہ ‘‘( اﷲ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے)۔ شاعر مشرق ؒ فرد کے لیے اجتماعی اور ملّی ربط کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا کہتے ہیں:۔ فرد تا اندر جماعت گم شود قطرئہ و سمت طلب قلزم شود فرد تنہا از مقاصد غافل است قُوتش آشفتگی را حائل است (رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۸۶)

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں       موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

( بانگ دراِ،کلیات اقبال،ص۱۹۰)

دُعا کی اہمیت سے باخبر ہونے والے اسے زندگی کی مشکلات اور خطرات کے موقع پر ایک ڈھال سمجھتے ہیں۔ کیا یہ ایک نفسیاتی حقیقت نہیں کہ انسان ہمیشہ دعا اور خدا کی امداد وعنایت کا محتاج ہوا کرتا ہے؟ یہ کائناتی نظام ہماری حسین تمنائوں اور دلی آرزوئوں کے مطابق تو نہیں چل رہا بلکہ اسے خدا اپنی مرضی اور عظیم تر پروگرام کے مطابق چلا رہا ہے کیونکہ وہی اس کا خالق‘رازق اور حقیقی مالک ہے۔جب ہمارے ارادے پورے نہیں ہوتے اور انتہائی کوشش کے باوجود بھی ہم اپنے مخصوص عزائم میں کامیاب نہیں ہوتے تو اُس وقت ہمیں شدید احساس ہوتا ہے کہ کوئی عظیم ترین ہستی ہمارے مقاصد کو ناکام بنارہی ہے۔ یہ احساس ہمیں خدا کی طرف رجوع کرنے اور اس کے ساتھ دعا کے ذریعے سچا رابطہ قائم کرنے پر اُبھارتا ہے۔اس طرح ہمیں خدا کی ہستی اور اس کی ہمہ گیر طاقت کی معرفت نصیب ہوتی ہے بقول حضرت علی ؓ  :’’ عرفُت ربی یفسخ العز ائم‘‘ (میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کی شکست کے ذریعے پہچانا)۔ کمزور انسانی سہارے ہمیں کامل اطمینان نہیں دے سکتے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:۔

؎تمام عمر سہاروں پہ آس رہتی ہے تما م عمر سہارے فریب دیتے ہیں دُعا کی معاشرتی اہمیت یہ ہے کہ جب سب انسان مل کر خدا سے دُعا مانگتے ہیں تو اُن کے جذبات میں شدت،ملی ہمدردی کے گہرے اثرات اور انقلاب خیز خیالات پیدا ہوکر اُنکی زندگیوں میں تعمیری تبدیلیاں رونما کردیتے ہیں۔مذہبی نقطہ نگاہ سے انسان دعا کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کرلیتا ہے۔اس طرح بقول علامہ اقبالؒ ’’ ہماری خودی اختیار وحیات کے سرچشمے کا قرب واتصال ‘‘حاصل کرتی ہے۔انسان خدا کے ساتھ گہرا رابطہ قائم کرکے روحانی سکون پانے کے علاوہ اپنے اندر عظیم طاقت کا بھی سراغ لگا لیتا ہے‘‘۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے:’’ نخن اقربُ اِلیہ ِ منٰ جبل الوریدِ‘‘( ق ۵۰:۱۶)(ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں)۔ مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا انسان جب خدا کے قرب اور اس کی معیت کو محسوس کرتا ہے تو اس کے اندر صبرو استقلال اور جفاکشی کاجذبہ بیدار ہوتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مایوسی کی بجائے بلند ہمتی کاحامل بن جاتا ہے۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مایوسی انسان کے دل ودماغ میں تاریکی، بے عملی اور سستی کو جنم دیتی ہے۔ اس کے برعکس دعا انسان کے باطن میں اُمید کی کرن،سعی وعمل اور خود اعتمادی کا باعث بن کر اس کی زندگی کو خوشگوار بنادیتی ہے۔نماز اصل میں دعا ہی ہے جس کے ذریعے ہم انائے مطلق(خدا) کی نزدیکی، معیت اور فضل وکرم کے طلب گار ہوتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں ۔اس لحاظ سے نماز اور دعاہمیں جبر سے نجات دلا کر باعمل بناتی ہیں۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں’’ نماز حقیقت میں خودی کامیکانیت یعنی جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے‘‘۔ عام طور پر مسلما ن دعا پر اتنا تکیہ کرتے ہیں کہ سعی وعمل کی لازمی شرط کو بالکل ہی نظر انداز کردیتے ہیں۔قرآنی تعلیمات اور رسول کریم ؐکے اُسوہ حسنہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سعی اور عمل کے بغیر تو کل اور دعا درست نتائج پیدا نہیں کرتے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربّانی ہے کہ: ’’یس الا نسان اِلا ماسعی‘‘(انجم ۵۳:۲۹)( انسان کو اس کی کوشش کا پھل ملا کرتا ہے)۔ اس قانون خداوندی کی رُو سے ہر انسان کو خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو، اس کی محنت کا ضرور صلہ ملتا ہے۔خدا نے اس کائنات کو چلانے کے لیے کچھ قوانین اور اُصول بنائے ہیں جو ہمہ گیر اور ابدی ہیں۔خدا مسلمانوں کے لیے اپنے قوانین نہیں توڑتا کیونکہ اُسکے قوانین سب انسانوں کی فلاح وہدایت کے ضامن ہیں۔ اگر کوئی بے عمل مسلمان یہ توقع کرے کہ سعی وعمل کے بغیر اُسے خوشگوار زندگی کی کامرانیاں نصیب ہوجائیں تو یہ احمقوںکی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔ دعا کی نتیجہ خیزی اور تاثر کے لیے محض زبانی جمع خرچ ہی کافی نہیں بلکہ کوشش اور صحیح عمل بھی ضروری ہیں جیسا کہ کسی صاحبِ بصیرت انسان نے کہا ہے:۔’’السعی منّیِ و الاِ تمامُ منِ اﷲِ‘‘(کوشش کرنا میرا کام ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا اﷲ کے اختیار میں ہے)۔کیا ہمارے ہادی اعظم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے محض دعائوں پر ہی بھروسا کیا تھا؟کیا اُنھوں نے جنگ بد راور دوسرے مواقع پر خود عمل کرکے نہیں دکھایا تھا؟ہمارے نیک مقاصد اور حسین آرزوئوں سے سعی وعمل کے بغیر خوشگوار اور انقلابی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔علامہ اقبالؒ نے ہمارے اس غلط طریق دُعا پر بڑے بلیغ انداز میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا:۔ تری دُعا ہے کہ ہوتیری آرزو پوری مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے (ارمغان حجاز،کلیات اقبال،ص ۶۲۸)