Actions

Difference between revisions of "خیر و شر"

From IQBAL

(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
Line 1: Line 1:
 +
<div dir="rtl">
 +
(۱)’’ وہ ہستی جس کی حرکات وسکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں‘نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔اس طرح نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘ 
 +
(تیسرا خطبہ)
 +
انسان کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیکی اور بدی کا مجموعہ ہے۔خیر اور شر میں عقیدہ ایمان کا لازمی جزو ہے۔ اگرچہ نیکی اور بدی کی اصل طاقتوں کا اصل خالق خدا تعالیٰ ہے تاہم اس نے انسانون کو نیک اور بد راہ اختیار کرنے کی آزادی عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے نوازا ہے۔جمادات‘ نباتات اور حیوانات خدا کے مقرر کردہ راستے پر چلنے اور اس کے قوانین کی اندھی تقلید کرنے پر مجبور ہیںلیکن انسان کو عقل‘ تدبر‘ تفکر اور شعور کی دولت دی گئی ہے تاکہ وہ ہدایت اور ضلالت کی راہ پر چلنے سے پہلے اچھائی اور برائی کے مخصوص نتائج کو جان لے۔اس لحاظ سے انسان کو خیر اور شر دونوں کا مرکب بنایا گیا ہے بقول سعدیؒ:۔
 +
؎آدمی زادہ طُرقہ معجون است      وز  فرشتہ  سرشتہ  و ز حیوان
 +
آدمی اگر چاہے تو وہ عقل اور آزادی انتخاب سے کام لے کر نیکی کرسکتا ہے اور بدی کی طاقتوں کو مغلوب کرسکتا ہے۔ اسی طرح ملائک سے بھی افضل بن جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ آزدی عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے بدی سے مغلوب ہوجائے تو وہ شیطان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ سورہ دہر میں قرآن حکیم نے انسان کی شر پسندی اور خیر پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:۔’’اّنا ھدیناہ  السبیل اِمّا  شاکرِاً واِمّا کفُوراً‘‘(الدھر۷۶:۳) (ہم  نے انسان کو صحیح راستہ دکھا دیا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ چاہے اسے اختیار کرے چاہے اس سے انکار کردے)۔ اﷲ تعالیٰ کسی کے عمل کوضائع نہیں کرتا خواہ وہ عمل اچھا ہو یا برا ہو‘ خوشگوار اور ناخوشگوار۔ زندگی کا زیادہ تر انحصار ہمارے اپنے ہی اچھے اور برے اعمال پر ہوتا ہے جیساکہ شاعر مشرقؒ نے کہا تھا:۔
 +
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
 +
علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا قول میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ نیکی کے کام کرنے کے لیے عمل کی آزادی اور خیرو شر کے انتخاب کی آزادی لازمی ہوا کرتی ہیں۔ اگر انسان کو بالکل مجبور خیال کیا جائے تو اس کی نیکی کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔ مشین بے جان اور بے شعور ہونے کی حیثیت سے صرف وہی کام کرتی ہے جو اس کے سپرد کیا جائے۔اگر انسانوں کو مجبور محض سمجھا جائے تو پھر عقل کا عطیہ، آسمانی کتب کا نزول،انبیائے کرام ؑ کی بعثت اور جزا وسزا بے کار ہوجاتے ہیں۔ انسان نائب خدا ہے اس لیے وہ مشین کی طرح مجبور محض ہوکر نیابت کا اہم فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا۔بہشت اور دوزخ میں ہمارے اعمال کے مطابق ہی ہمیں بھیجا جائے گا۔نیک اعمال کے بغیر جو بہشت ملے وہ علامہ اقبالؒ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔بہشت وہی قابل قدر اور قابل ستائش ہوتی ہے جو انسانی اعمال ہی کا لازمی نتیجہ ہو۔
 +
آں بہشے کہ خدائے بتو بخشد ہمہ‘ ہیچ    تاجزائے عمل تُست جناں‘ چیزے ہست
 +
(جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۶۳۵)
 +
انسان کو صاحب اختیار تصور کرکے علامہ اقبالؒ نے اسے سعی وعمل کی بدولت اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اسے اپنے اندر ایزدی صفات پیدا کرنے کی بار بار تلقین کی ہے۔اگر انسان باختیارہستی نہ ہوتا تو وہ اسے یہ بلند مقام پانے کا مشورہ دیتے ہوئے کبھی یہ نہ کہتے:۔
 +
؎  یزداں بہ کمند آور اے ہمّت مردانہ
  
 +
</div>

Latest revision as of 01:02, 20 July 2018

(۱)’’ وہ ہستی جس کی حرکات وسکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں‘نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔اس طرح نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) انسان کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیکی اور بدی کا مجموعہ ہے۔خیر اور شر میں عقیدہ ایمان کا لازمی جزو ہے۔ اگرچہ نیکی اور بدی کی اصل طاقتوں کا اصل خالق خدا تعالیٰ ہے تاہم اس نے انسانون کو نیک اور بد راہ اختیار کرنے کی آزادی عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے نوازا ہے۔جمادات‘ نباتات اور حیوانات خدا کے مقرر کردہ راستے پر چلنے اور اس کے قوانین کی اندھی تقلید کرنے پر مجبور ہیںلیکن انسان کو عقل‘ تدبر‘ تفکر اور شعور کی دولت دی گئی ہے تاکہ وہ ہدایت اور ضلالت کی راہ پر چلنے سے پہلے اچھائی اور برائی کے مخصوص نتائج کو جان لے۔اس لحاظ سے انسان کو خیر اور شر دونوں کا مرکب بنایا گیا ہے بقول سعدیؒ:۔ ؎آدمی زادہ طُرقہ معجون است وز فرشتہ سرشتہ و ز حیوان آدمی اگر چاہے تو وہ عقل اور آزادی انتخاب سے کام لے کر نیکی کرسکتا ہے اور بدی کی طاقتوں کو مغلوب کرسکتا ہے۔ اسی طرح ملائک سے بھی افضل بن جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ آزدی عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے بدی سے مغلوب ہوجائے تو وہ شیطان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ سورہ دہر میں قرآن حکیم نے انسان کی شر پسندی اور خیر پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:۔’’اّنا ھدیناہ السبیل اِمّا شاکرِاً واِمّا کفُوراً‘‘(الدھر۷۶:۳) (ہم نے انسان کو صحیح راستہ دکھا دیا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ چاہے اسے اختیار کرے چاہے اس سے انکار کردے)۔ اﷲ تعالیٰ کسی کے عمل کوضائع نہیں کرتا خواہ وہ عمل اچھا ہو یا برا ہو‘ خوشگوار اور ناخوشگوار۔ زندگی کا زیادہ تر انحصار ہمارے اپنے ہی اچھے اور برے اعمال پر ہوتا ہے جیساکہ شاعر مشرقؒ نے کہا تھا:۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی     یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا قول میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ نیکی کے کام کرنے کے لیے عمل کی آزادی اور خیرو شر کے انتخاب کی آزادی لازمی ہوا کرتی ہیں۔ اگر انسان کو بالکل مجبور خیال کیا جائے تو اس کی نیکی کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔ مشین بے جان اور بے شعور ہونے کی حیثیت سے صرف وہی کام کرتی ہے جو اس کے سپرد کیا جائے۔اگر انسانوں کو مجبور محض سمجھا جائے تو پھر عقل کا عطیہ، آسمانی کتب کا نزول،انبیائے کرام ؑ کی بعثت اور جزا وسزا بے کار ہوجاتے ہیں۔ انسان نائب خدا ہے اس لیے وہ مشین کی طرح مجبور محض ہوکر نیابت کا اہم فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا۔بہشت اور دوزخ میں ہمارے اعمال کے مطابق ہی ہمیں بھیجا جائے گا۔نیک اعمال کے بغیر جو بہشت ملے وہ علامہ اقبالؒ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔بہشت وہی قابل قدر اور قابل ستائش ہوتی ہے جو انسانی اعمال ہی کا لازمی نتیجہ ہو۔ آں بہشے کہ خدائے بتو بخشد ہمہ‘ ہیچ تاجزائے عمل تُست جناں‘ چیزے ہست (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۶۳۵)

انسان کو صاحب اختیار تصور کرکے علامہ اقبالؒ نے اسے سعی وعمل کی بدولت اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اسے اپنے اندر ایزدی صفات پیدا کرنے کی بار بار تلقین کی ہے۔اگر انسان باختیارہستی نہ ہوتا تو وہ اسے یہ بلند مقام پانے کا مشورہ دیتے ہوئے کبھی یہ نہ کہتے:۔

؎ یزداں بہ کمند آور اے ہمّت مردانہ