Actions

Difference between revisions of "خودی"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ نفس انسانی کے دو پہلو ہیںفعال پہلو اور قدر آشنا پہلو،اپنے فعال پہلو کے لحاظ سے انس...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(One intermediate revision by one other user not shown)
(No difference)

Latest revision as of 01:02, 20 July 2018

(۱)’’ نفس انسانی کے دو پہلو ہیںفعال پہلو اور قدر آشنا پہلو،اپنے فعال پہلو کے لحاظ سے انسانی (خودی) کا مکانی دنیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) خودی(نفس انسانی) کا موضوع علامہ اقبالؒ کے نظام افکار کا محور ومرکز اور اُن کی شاعری کی جان ہے۔اُنھوں نے اس دقیق،اہم اور دلچسپ موضوع کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرنے کی ہر ممکن سعی ہے۔اس امر کی وضاحت کے لیے اُنھوں نے اپنے خودی آمیز خیالات کو شعر کے حسین اور وجد آور قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ بے اختیار اُنکی مہارت فن اور عظمت فکر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔اس لحاظ سے اُنھوںنے اپنی شاعری کو اپنے مخصوص نظریات کی تشریح وتبلیغ کا موثر ذریعہ بنایا ہے۔فلسفیانہ موشگافیوں سے ناواقف قارئین بھی اُنکے اشعار کی چاشنی اور جاذبیت سے مسحور ہونے لگتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس اقتباس میں خودی کے دو بنیادی پہلوئوں اور زمان ومکان کے ساتھ اُن کے باہمی ربط کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے جس کی یہاں قدرے وضاحت کی جاتی ہے۔درج ذیل اُمور کا مطالعہ قابل توجہ ہے: (الف) نفس انسانی(خودی) کے دو پہلو ہیں۔فعال پہلو(efficient self) اور قدر آشنا پہلو(appreciative self )۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کی رائے میں خودی کا خارجی پہلو فعال ہونے کی حیثیت سے عالم خلق یا مظاہر کائنات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔اس کے برعکس اس کا قدر آشنا پہلو ہماری باطنی کیفیات، ذہنی واردات اور روحانی تجربات کا ترجمان ہوتا ہے۔اس نقطہ نظر سے ہماری ذات کا ایک باطن ہوتا ہے اور ایک ظاہر۔ (ب)خودی (نفس انسانی یا انسانی ذات) کا فعال پہلو( خارجی پہلو) مادی اور مکانی دنیا سے گہرا رابطہ رکھتا ہے کیونکہ خارجی اشیاء اور ظاہری واقعات ہی سے اس کی فعالیت(سرگرمی) کا پتہ چلتا ہے۔کائنات کا ظاہری گوشہ کثرت‘تعداد‘ مقدار‘تقسیم پذیری‘ تجزیہ‘تقدم وتاخر‘ تنوع واختلاف اور زمان غیر حقیقی کا ترجما ن ہوتا ہے جبکہ اس کے باطن میں ایسا نہیں ہوتا۔ (ج)خودی کا خارجی پہلو زمان ومکان کاپابند ہوکر کثرت اشیا کو جنم دیتا ہے۔چونکہ کائنات میںحرکت وتغیر کا اُصول کارفر ماہوتا ہے۔ اس لیے تبدیلی اور حرکت کو وقت کے بغیر محسوس نہیںکیا جاسکتا۔زندگی تغیر پر اور تغیر وقت پر منحصر ہیں۔ اس سے وقت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے نزدیک یہ حکانیت آمیز وقت خارجی‘ظاہری‘محدود اور ماضی‘حال اور مستقبل میں تقسیم ہوکر تقدم وتاخر کا باعث بن جاتا ہے۔وہ انسان کی شعوری زندگی کو وقت پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس قسم کی زندگی کو غیر حقیقی کہتے ہیں۔وہ مکانی وقت کی مختلف حالتوں کو سفر حیات کے مختلف مراحل سمجھتے ہیں اور برگساں کاحوالہ دیتے ہوئے اس کے بارے میں یوںرقم طراز ہیں:۔ "Existence in spatialized time is spurious existence" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.47)

جب ہم دنیا  کے معاملات اور مختلف دھندوں میں بری طرح پھنس جاتے ہیں تو اس وقت قدر آشنا خودی کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہماری پوری توجہ بیرونی اشیا پر مرتکز ہوتی ہے۔ جب ہم فرصت اور تنہائی میں مراقبہ میں چلے جاتے ہیں تو بیرونی دنیا سے ہم وقتی طور پر لاتعلق ہوکر اپنی باطنی کیفیات اور روحانی واردات کے عمیق تر مرکز میں پہنچ جاتے ہیں۔ایسے لمحات میں ہم سراغِ زندگی پالیتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ :   ؎   اپنے من میںڈوب کر پاجا سراغ زندگی۔  علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ باطن میں غوطہ زن ہوکر ہماری تمام شعوری کیفیات آپس میں یک رنگ اور متحد ہوجایا کرتی ہیں اور باطنی حرکت وتغیر کا سلسلہ ناقابل تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی ملاخطہ ہوں۔وہ فرماتے ہیں:۔

اے اسیرِ دوش و فردا در نگر در دل خود عالمِ دیگر نگر

وقت  را مثل مکاںِ گسترد ئہ       امتیاز دوش وفردا کردئہ

( کلیات اقبال،ص ۷۱،۷۲) (۲) خودی اپنے قدر آشنا پہلو کے اعتبار سے وہ ’’آن واحد‘‘ہے جسے خودی کا فعال پہلومکانی عالم کے ساتھ گہرے تعلق کی بناء پر لاتعداد ’’آنات‘‘ میں بدل دیتا ہے۔ یہ’’آنات‘‘ دھاگے میں پروے ہوئے تسبیح کے دانوں کی مانندمسلسل ہوتے ہیں۔(دوسرا خطبہ) اس سے قبل علامہ اقبالؒ ہمیں بتاچکے ہیں کہ خودی(نفس انسانی) کے دو اہم پہلو خارجی(فعال)پہلو اور باطنی( قدر آشنا)پہلو ہیں۔خودی کا خارجی پہلو بیرونی دنیا کے واقعات وکیفیات کی ترجماتی کرتا ہے جبکہ ا سکا اندرونی پہلو ہماری باطنی کیفیات اور قلبی واردات کا عکاس ہوتا ہے۔اس اقتباس میں بھی خودی اور زمان ومکان سے بحث کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:۔ (الف)خودی کے اندرونی پہلو(آن واحد) کو خودی کا ظاہری پہلو لاتعداد’’آنات‘‘ میں بدل دیتا ہے۔خودی دو طرح کے زمان سے رابطہ قائم رکھتی ہے۔ایک زمان باطنی اور دوسرا زمان خارجی ۔زمانِ باطنی مکانیت کی آمیزش سے پاک ہوتا ہے۔اس حقیقی زمان کو شب وروز،مہ وسال اور ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔اس کے برعکس زمان ظاہری مکانی، تقسیم پذیر اور غیر حقیقی ہوتا ہے۔’’آن واحد‘‘ میں بیرونی وقت کے لاتعداد آنات ولمحات تسبیح میں پروئے ہوئے موتی کے دانوں کی مانند مسلسل ومتحد ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ زمان خارجی کو مکانی اور غیر خالص کہتے ہیں مگر وہ زمان باطنی کو حکانیت سے پاک ہونے کے سبب زمان خالص قرار دیتے ہیں۔ (ب)خارجی وقت مختلف لمحات اور نقاط پر پھیلا ہوتا ہے۔ہم اسے ثانیہ، دقیقہ اور ساعت پر مبنی خیال کرتے ہیں ۔چونکہ یہ وقت مکانیت پر منحصر ہوتا ہے اس لیے یہ مرورِوقت غیر خالص وقت تصور کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس باطنی وقت ایسا نہیںہوتا۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں قرآن حکیم نے اپنی دو آیات(۶۰؍۲۵،۵۰؍۵۴) میں وقت کی دو قسموں…وقت مسلسل اور وقت غیر مسلسل… کی طرف اشارہ کیا ہے۔باطنی وقت مسلسل ہوتا ہے اس لیے اسے تقسیم نہیں کیا جاتا۔ خارجی وقت کو ہم تقسیم کرسکتے ہیں اس لیے یہ غیر مسلسل بن جاتا ہے۔ (ج)علامہ اقبالؒ انسانی وقت کو مرورِ زمان اور خدائی وقت کو مرورِ خالص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدائی زمان کا ایک دن انسانی زمان کے ہزاروں سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ہمارے ہزاروں سال پر پھیلا ہوا خدائی تخلیق کا عمل اتنا تیزہوتا ہے جتنا چشم زدن میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے۔ علامہ اقبالؒ کے اپنے الفاظ میں انسانی اور خدائی زمان کا فرق ملاخطہ ہو:۔ "---one Divine day, in the terminology of the Quran, as of the 0ld Testament, is equal to 1,ooo years. From another point of view the process of creation, lasting through thousands of years, is a single indivisible act, 'swift as the twinkling of an eye" (The Reconsturstion of Religious thought in Islam,p.48) قرآن حکیم میں خدا تعالیٰ کی مشیت اور اس کے فوری عمل تخلیق کو’’کُن فیکون‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہماری ذات کا خارجی پہلو چونکہ بیرونی حالات سے متعلق ہوتا ہے بنا بریں ہم اس مرورِ خالص کو اپنی زبان میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔علامہ اقبالؒ لہروں کی حرکت کی تیزی کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ اگرچہ لہروں کی تیز حرکت کو شمار نہیں کیا جاسکتا تاہم ہمارا ذہنی عمل ان کے تسلسل کو مرورِ وقت میں تبدیل کردیتا ہے۔ (د)’’ وقت کی بحث کے دوران مفکر قرآن علامہ اقبالؒ تقدیر کو ایسا وقت قرار دیتے ہیں جو علت ومعلول اور تقدم وتاخر سے آزاد اور غیر منقسم ہوتا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ حالات ضمیر روزگار میں ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ خودبخود معرض شہود میں آتے رہتے ہیں۔ اس مثالی وقت کے بارے میں اُنکی رائے کس قدر حقیقت آشنا ہے۔وہ فرماتے ہیں:۔ "It is time regarded as an organic whole that the Quran describes as 'Taqdir' or the destiny. It is time freed from the net of causal sequence (The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.48)

خارجی اور باطنی زمان کے عقلی تصور اور وجدانی کیفیت کے فرق کے متعلق اُن کے یہ اشعار خاصے خیال افروز ہیں:

حقیقت را چو ماصد پارہ کردیم تمیز ثابت و سیّارہ کردیم

خرد در لامکاں طرحِ مکان بست     چوزنا رے زماں را بریساں بست
   زماں  راِد ر  ضمیر خود   ندیدیم     مہ  و  سال و شب وروز آفریدیم   

(کلیات اقبال،ص ۵۴۷) (۳)’’جہاں نفسی زندگی موجود نہیں ہوتی وہاں وقت نہیں ہوتا اور جہاں وقت کا وجود نہیں ہوتا وہاں حرکت محال ہے‘‘ (تیسرا خطبہ)

اس عبارت میں علامہ اقبال ؒ نے نفسی زندگی کو وقت اور حرکت وتغیر پر فوقیت دیتے ہوئے اُسے کائنات کی روحانی بنیاد قرار دیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ’’نفس ‘‘سے کیا مراد ہے اور نفسی زندگی کا مفہوم کیا ہے؟’’نفس‘‘عربی لفظ ہے جس کے ویسے تو کئی معنی ہیں لیکن زیادہ معروف معانی یہ ہیں۔ نرم و ہلکی ہوا،دل، روح اور انسانی ذات۔قرآن حکیم نے کہا ہے کہ یہ روح یا انسانی ذات خدا کے عالم امر سے تعلق رکھتی ہے اور یہ خدائی توانائی کا کرشمہ ہے۔دو قرآنی آیات کا حوالہ اس کی مزید وضاحت کرسکے گا۔تخلیق انسان کے بارے میں ارشاد خداندوی ہے:’’نفع فیہ منِ روحہ‘‘(السجدہ ۳۲:۹)(خدا تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح میں سے پھونک ماری)۔ دوسری آیت مبارکہ میں کہا گیا ہے کہ’’ نفخت فیہ من روحی‘‘(الحج۱۵:۲۹)( میں نے انسان میں اپنی روح سے کچھ پھونکا)۔ اس خدائی پھونک سے مراد انسانی طاقتوں اور قوتوں کی عطائے ایزدی ہے۔خدا نے انسان کو جو آزادی عطا کی ہے اس کا اس کی مادی اور طبعی دنیا اور اس کے قوانین سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ تو عالم امر سے گہرا رابطہ رکھتی ہے۔اس لحاظ سے انسانی ذات مادہ کی پیدا وار نہیں اور نہ ہی یہ جسم کی فنا کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے۔
  علامہ اقبالؒ نے اس اقتباس میں نفسی زندگی کو وقت اور حرکت کائنات کی اصل قرار دیا ہے۔قرآن حکیم کی رُو سے خدا ہر وقت کائنات میں اپنی خلاقی صفت کی بدولت نئے نئے واقعات وحادثات کی تخلیق کرتا رہتا ہے۔اس لحاظ سے اس طبعی دنیا میں ہر روز حرکت اور تغیر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ان خارجی واقعات کے قوانین اور حقیقی اسباب عالم امر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں وحدت،تسلسل زمان اور جدت آفرینی انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ عالم امر کا معانی اور عالم خلق کا صورتوں اور خارجی اشکال پر دارومدار ہوتا ہے۔معانی اور باطنی حقائق نادیدنی ہوتے ہیں جبکہ خار جی اور مادی حقائق کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور محسوسات کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں۔ ہماری عقل محدود باطنی حقائق سے بے خبر ہوکر خارجی مظاہر میں علّت ومعلول کے اُصولوں کی جستجو کرتی ہے اور وہ حقیقت مطلقہ(خدا) کے خارجی مظاہر کو زمان ومکان میں تقسیم کرکے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔اشاعرہ نے نے ارسطو کے نظریہ جمود کائنات کی تردید کرتے ہوئے نظریہ جواہر پر مبنی حرکی اور تغیر پذیر تصورکائنات پیش کیا تھا جسے علامہ موصوف نے بہت سراہا ہے مگر اُنھیں اشاعرہ کے تصور روح سے سخت اختلاف ہے جس کی رُو سے روح مادیت کی شکل  بن جاتی ہے۔وہ مادی تصور زندگی کوردّ کرتے ہوئے روحانی نظریہ حیات کا یہاں پرچار کررہے ہیں۔اشاعرہ نے مکانیت آمیز وقت کو مکان کے تحت بنادیا تھا جو علامہ اقبالؒ کی تنقید کا ہدف بن جاتا ہے۔اُنکے مندرجہ ذیل اقوال اس موضوع کے اہم گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔اُن کا خلاصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:۔

(1)"Motion is inconceive able without time. And since time comes from psychic life, the latter is more fundamental than motion" (The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.70) (2)"The 'Nafs' is the pure act, the body is only the act bcome visible and hence measurable"

(The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.71)

(3)"The instant is the more fundamental of the two; but the point is inseparable from the instant as being a necessary mode of its manifestation. The point is not a thing, Reality is therefore, essentially spirit.

(The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.71)
 علامہ اقبالؒ کا استدلال یہ ہے کہ کائناتی تبدیلیوں کا احساس وقت کے بغیر ناممکن ہے اور وقت کو نفسی زندگی جنم دیتی ہے ۔اس لیے نفس(خودی) ،روح،(انسانی ذات) ہی حقیقت کائنات ہے۔چونکہ نفس غیر مادی چیز ہے اس لیے کائنات کی اساس بھی روحانی ہے۔روح کو اس طبعی دنیا میں اپنے اعمال ومظاہر کے لیے جسم کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے جسم اس کا خارجی پہلو ہے جو ہمیں مادی دکھائی دیتا ہے۔ نفس مادہ نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے اور عمل مجرد اور غیر مادی امر ہوتا ہے۔ اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ لمحہ نقطے سے زیادہ بنیادی اور اہم ہے۔دوسرے الفاظ میں وہ وقت کو مکان سے بالاتر اور زیادہ اساسی تصور کرتے ہیں۔ مکان حرکت وتغیر کا ذریعہ بنتا ہے اور وقت اپنی نمود مکانی پیمانوں میں کیاکرتا ہے۔ مکان مادی ہے لیکن وقت غیر مادی اور نفسی۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں جب ہم اپنے من کی گہرائی میں ڈوب کر بیرونی مظاہر کو بھول جاتے ہیں تو ہمارا رابطہ خدا کی ذات کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔اس وقت ہمیں باطنی حقائق،قلبی واردات اور روحانی تجربات کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور ساتھ ہی اسرار کائنات بھی منکشف ہونے لگتے ہیں۔ اس نفسی زندگی کا وقت حقیقی‘باطنی اور غیر منقسم دکھائی دیتا ہے۔     ؎  حقیقت لازوال و لامکاں است

(۴)’’ خودی اپنا اظہار ذہنی کیفیات کی وحدت میں کرتی ہے۔ یہ ذہنی کیفیات ایک دوسرے سے الگ تھلگ موجود نہیں ہوتیں۔ ان باہم دیگر مربوط کیفیات وحادثات کی وحدت خاص قسم کی وحدت ہے۔ یہ بنیادی طورپر اشیا کی وحدت سے مختلف ہے کیونکہ مادی شے کے اجزا ایک دوسرے سے جدا ہوکر بھی موجود رہ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ذہنی وحدت ہر لحاظ سے بے مثال ہے‘‘ ۔ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا قول سے خودی کے چند اہم پہلوئوں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔اُنھوں نے اس ضمن میں ذہنی وحدت اور مادی اشیا کی وحدت کے فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ان اُمور کی تشریح وتعبیر کے لیے یہاں ضروری باتیں درج کی جارہی ہیں۔ (ا) خودی اپنا اظہار ذہنی کیفیات کی خاص وحدت کے ذریعے کرتی ہے۔انسانی ذات یا خودی ہمارے گوناگوں احساسات،خیالات، باطنی کیفیات اور اُن کے خارجی مظاہر یعنی اعمال وافعال پر محیط ہوتی ہے۔ہر انسان کی ذات محضوص اور منفرد جذبات واحساسات کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے خودی کی انفرادیت کا سراغ ہاتھ آتا ہے۔کیا یہ لازمی ہے کہ ہر انسان کے میلانات اور احساسات ونظریات دوسرے انسانوں کے احساسات سے مشابہ ہوں؟ اس وقت میری سوچ لازمی طور پر آپ کی سوچ نہیں ہوسکتی کیونکہ میری ذات اور ہے اور آپ کی شخصیت مجھ سے الگ ہے۔دوسری ضروری بات یہ ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے خیالات اور باطنی کیفیات کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ہماری ذات(خودی) کی اساس ہماری اندرونی کیفیات اور ذہنی واردات پر استوار ہوتی ہے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری یہ ذہنی کیفیات الگ نہیں ہوتیں بلکہ وہ آپس میں اس طرح متحد اور مربوط ہوتی ہیں کہ اُنھیں منقسم نہیں کیاجاسکتا۔ مشہور امریکی ماہر نفسیات ولیم جیمس نے اسے مسلسل تغیرات کی شعوری رو اور’’جوئے خیال ‘‘ کا نام دیا تھا جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے:۔ "William James conceives consciousness as 'a stream of thought'--a conscious flow of changes with a felt continuity" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.102)

  علامہ اقبالؒ اس نظریے پر تبصرہ کرتے ہوئے خود اپنی رائے کا یوںاظہار کرتے ہیں۔

"Consciousness is something single,presupposed in all mental life, and not bits of consciousness mutually reporting to one another" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.102)

علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی خودی کی نوعیت کی کسی قدر صراحت کرتے ہیں۔

نقطہ نورے کہ نامِ اُوخودی است زیر خاک ما شرارِ زندگی است (کلیات اقبال،ص۱۸) جوہر نور یست اندر خاک ِتو یک شعاعش جلوئہ ادراکِ تو واحد است و برنمے تابد دُوئی من زتابِ اُومن ہستم، توُ توئی (کلیات اقبال، ص۸۷) (ب) خودی ہماری ذات کی باطنی کیفیات اور تمام خیالات کو ایک مرکزی نقطہ نوری پر لا کر متحد ومربوط بنادیتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ہماری مخفی طاقتوں کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔علامہ اقبالؒ خودی کی اس بے مثال ذہنی وحدت کو مادی چیزوں کی وحدت سے مختلف خیال کرتے ہیں۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ مادی شے کے اجزا ایک دوسرے سے جدا ہوکر بھی موجود رہ سکتے ہیں مگر ذہنی وحدت اس تقسیم کو قبول نہیں کرتی۔ذہنی کیفیات آپس میں اس طرح مربوط ہیں کہ ہم اُنھیں جدا نہیں کرسکتے۔مادی شے ایک مکان(space) سے وابستہ ہوتی ہے لیکن خودی اس طرح مکان سے وابستہ نہیں ہوتی۔علامہ اقبالؒ اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں:۔ "we cannot say that one of my beliefs is situated on the right or left of my other belief. Nor is it possible to say that my appreciation of the beauty of the Taj varies with my distance from Agra" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99) تاج محل کے حسن وجمال سے متعلق ہمارا جذبہ تحسین محض آگرہ تک محدود نہیں بلکہ یہ کسی دوسری جگہ بھی موجود رہتا ہے۔تاج محل کی عمارت تو صرف آگرہ میں محدود ہے کیونکہ یہ ہمارے احساس اور خیال کی طرح حرکت کرکے کہیں اور نہیں جاسکتی۔علامہ اقبالؒ جسم میں خیال کی اس بے مکانی اور غیر زمانی سیر وحرکت کو ان الفاظ میں بیان کرکے مادی اور ذہنی کیفیات کے فرق کو مزید واضح کرتے ہیں: ؎ خیال اندرِ کفِ خاکے چسان است؟ کہ سیرش بے مکاں و بے زمان است (کلیات اقبال، ص۵۵۴) (۵)’’خودی ایک سے زیادہ مکانی نظامات کا تصور کرسکتی ہے لیکن جسم کے لیے صرف ایک ہی مقام ہوسکتا ہے۔ اس لیے خودی اس طرح وابستہ مکاں نہیں جس طرح کہ جسم پابند مقام ہوتا ہے‘‘۔ (چوتھا خطبہ)

 اس عبارت میں بھی علامہ اقبالؒ خودی اور جسم کے اختلاف مکانی پر اظہار خیال کرتے ہیں۔اُن کی رائے میں خودی ایک سے زیادہ مکانی نظامات کی حامل ہوسکتی ہے جبکہ جسم صرف ایک ہی مقام سے وابستہ ہوسکتا ہے۔خودی اور نفس انسانی کا عالم’’امر‘‘ سے تعلق ہوتا ہے جہاں وحدت کارفرما ہوتی ہے۔علاوہ ازیں عالم’’امر‘‘ میں ترکیب‘ تعدّد‘ اور زمان ومکان کے وہ پیمانے نہیں جنہیں ہماری عقل نے اپنی سمجھ کے لیے تراش رکھا ہے۔اس کے برعکس جسم کا عالم ’’خلق‘‘ اور عالم مادی پر دارومدار ہوتا ہے جہاں اشیا میں ترکیب اور تعدد کا عنصر شامل ہوتا ہے۔آئیے ذرا ان دونوں کے اختلافی اُمور کا جائزہ لیں۔اس اقتباس کے اہم نکات یہ ہیں:

(ا)خودی ایک سے زیادہ مکانی نظامات کا تصور کرسکتی ہے۔خودی( نفس انسانی) کا تعلق عالم ’’امر‘‘ یا عالم معنی سے ہے۔ وہاں ذہنی کیفیات اور قلبی واردات میں ناقابل تقسیم وحدت موجود ہوتی ہے۔خودی کا باطنی پہلو قدر آشنا ہونے کی حیثیت سے حقیقت مطلقہ کے قرب کی لذت سے فیض یاب ہوسکتا ہے۔وہاں صورتوں اور جہات کا وجود نہیں ہوتا۔علامہ اقبالؒ کے روحانی مرشد مولانا رومؒ اس عالم’’امر‘‘ کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں: ؎ بے جہت داں عالم امرو صفات عالم خلق است حسِ ہا و جہات

خودی کا باطنی پہلو محسوسات اور جہات سے آزاد ہوتا ہے۔عالم محسوسات میں اشیاء صرف ایک ہی مکان سے وابستہ ہوتی ہیں مگر خودی حواس کی زد سے باہر ہونے کے سبب ایک مکان میں محدود نہیں ہوتی ۔اس بارے میں علامہ اقبال ؒنے یہ دلائل پیش کئے ہیں:

"My thought of space is not spatially related to space" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99)

 (ب)’’ اُنھوں نے تاج محل کی مکانیت اور جذبہ تحسین کی لامکانیت کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ تاج محل ایک ہی جگہ موجود ہے مگر ہمارا احساس جمال دوسرے مقام پر بھی قائم رہ سکتا ہے۔اس ضمن میںاُنھوں نے بیداری اور خواب کی مثال سے بھی اس بات کی طرف مبہم اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے:

"The space of waking consciousness and dream-space have no mutual relation. They do not interfere with or overlap each other" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99)

      کیا یہ ایک مسلمہ حقیقت نہیں کہ بیداری شعور کی حالت میں ہم ایک وقت میں ایک ہی جگہ ہوتے ہیں مگر خواب میں ہمارا شعور ایک ہی جگہ موجود نہیں ہوتااور ہماری روح ہماری خواب گاہ ہی سے وابستہ نہیں ہوتی بلکہ وہ آسمانوں اور دیگرمقامات کی بھی سیر کیا کرتی ہے؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارا جسم پابند مقام ہوتا ہے مگر ہماری روح آزاد ہوتی ہے۔ علامہ اقبالؒ فلسفی اور سائنس دان سے اس فرق کا سبب دریافت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ؎  درونم  جلوئہ  افکار ایں  چیست        برون  من ہمہ اسرار ایں چیت؟
  بفرما   اے  حکیمِ  نکتہ پرداز!        بدن آسودہ،جاں سّیارا ایں چیت

(کلیات اقبال،ص۲۳۶) (ج)’’ خودی اور مادی اشیاء کا وقت بھی مختلف ہوتا ہے۔خودی اور مکان کی بحث کے دوران علامہ اقبالؒ خودی اور زمان کا بھی تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طبعی اور ذہنی کیفیات کا وقت سے گہرا تعلق ہوتا ہے مگر طبعی واقعہ اور ذہنی واقعہ کا وقت مختلف ہوتا ہے۔ طبعی واقعہ خارجی دنیا اور حکانیت آمیز وقت میں پیش آتا ہے۔ اس لیے یہ خارجی وقت ماضی‘ حال اور مستقبل میں تقسیم ہوتا ہے۔اس کے برعکس ذہنی واقعہ مسلسل وقت میں رونما ہوتا ہے اور مسلسل وقت یا مرورِ خالص ناقابل تقسیم ہوتا ہے۔اس میں ماضی حال سے اور حال مستقبل سے متصل ہوتاہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ خودفرماتے ہیں: "True time-duration belongs to the ego alone" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99) خودی کی زد میں محض ایک مکان نہیں ہوتا بلکہ یہ تو افلاک پر محیط ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ: ؎ زمین وآسمان وکرسی وعرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی (کلیات اقبال،ص ۳۷۵) (۶) اگرچہ ذہنی اور طبیعی واقعات وقت میں رونما ہوتے ہیں تاہم خودی کا زمان اساسی طور پر طبیعی واقعات کے وقت سے مختلف ہوتا ہے‘‘

( چوتھا خطبہ)
  قرآنی تعلیمات کے مطابق خدا اس کائنات کو بناکر بیکار نہیں بیٹھ گیا بلکہ وہ اب بھی اپنی خلاقی صفت اور دیگر صفات حسنہ کی بدولت ہر روز نئے نئے واقعات وحادثات کی تخلیق میں مصروف ہے۔ہم خدا کی ذات کو تو نہیں دیکھ سکتے البتہ ہم اس کے پیدا کردہ خارجی مظاہر فطرت کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ کرکے اس کی صفات کا اندازہ کرسکتے ہیں۔خدا نے اس لیے ہمیں بار باراپنی پیدا کردہ اشیائے کائنات کے مطالعے کاحکم دیا ہے۔ اس لحاظ سے کائنات کی آفرنیش ہمارے لیے بصیرت افروز اور تسخیر فطرت کا سبب بن جاتی ہے۔قرآنی نظریے کے مطابق یہ کائنات حرکی‘ ارتقا پذیر اور تغیر آشنا ہے۔ یہ اُصول تغیرو تنوع خدا کی قدرت کاملہ کا آئینہ دار ہے۔ یہ تغیر وتبدل ظاہری کائنات ہی میں جاری وساری نہیں بلکہ اس کا اثر ہمارے باطن میں بھی نظر آتا ہے۔ قرآن حکیم نے آفاق کے علاوہ انفس میں بھی اپنی نشانیوں کو ظاہر کیا ہے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خارجی واقعات اور ذہنی کیفیات وقلبی واردات خدا کی ظاہری اور باطنی نشانیوں پر دلالت کرتے ہیں۔ ان ظاہری اور باطنی تبدیلیوں کا احساس وقت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں کا وقت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
اس اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ ذہنی واردات اور طبعی واقعات کو وقت سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔وقت ایک ایسا فکری پیمانہ ہے جس سے ہم واقعات وحادثات کو ناپتے  ہیں۔حقیقی وقت کا تعلق تو صرف ہمارے باطن سے ہے جس میں امروز وفردا اور شب وروز کی تقسیم نہیں ہوتی۔ وہاں تو وحدت ہی وحدت اور ہماری نفسی کیفیات کا گہرا اربتاط موجود ہوتا ہے۔ خارجی حالات کی شکل اختیار کرکے یہ ہمیں منقسم اور غیر مسلسل دکھائی دیتا ہے۔خارج میں مرورِ وقت ہے مگر باطن میں مرورِ خالص۔علامہ اقبالؒ نے ایک صوفی شاعر عراقی کے تصورِ زمان کا ذکر کرتے ہوئے مختلف اشیا کے مختلف اوقات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔کیثف اور ٹھوس اشیا اور اجسام کا وقت لطیف اشیا کے وقت سے مختلف ہوتا ہے۔ اشیا کی طرح زمان کے بھی کئی مراتب ہیں۔غیر مادی اشیا کا وقت مادی اشیاء کے وقت سے زیادہ اہم قرار پایا ہے۔ آخر میں زمان ایزدی کا مرحلہ آتا ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال ؒنے لکھا ہے :

"Divine time--time which is absolutely free from the quality of passage, and consequently does not admit of divisibility, sequence, and change" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.74)

خودی(نفس انسانی) اپنے اندر خدائی صفات کا رنگ پیدا کرکے زمان حقیقی کی مالک بن جاتی ہے۔ اس لیے خودی کا یہ وقت بنیادی طور پر طبعی واقعات کے خارجی وقت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ اس حقیقی زمان کی اہمیت کی یوں مدح سرائی کرتے ہیں:

"To exist in real time is not to be bound by the fetters of serial time, but to create it from moment to moment and to be absolutely free and original in creation" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.50)

  جب ہم اپنے من میں غوطہ لگاتے ہیں تو اس وقت ہم پر اس حقیقی زمان کی بے چگونی‘ بے جہتی اور عدم تقسیم کا احساس ہوتا ہے۔

(۷)’’کسی چیزکے لیے میری خواہش بنیادی طور پر میری خواہش ہے۔اس خواہش کی تکمیل سے مجھے ہی خوشی حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح اگر میرے دانت میں درد ہو تو ممکن ہے کہ اس سلسلے میں دندان ساز میرے ساتھ اظہارہمدردی کرے لیکن اسے میری تکلیف کا احساس نہیں ہوسکتا۔ قصہ کوتاہ میری خوشیاں’تکلیفیں اور خواہشات مکمل طور پر میری اپنی ہیں۔ یہ تمام چیزیں میری ذاتی خودی کا جزو لاینفک ہیں۔ میرے احساسات محبت ونفرت‘میرے فیصلے اور عزائم صرف میری ذات سے متعلق ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) (۸)’’ آپ میرا ادراک اُس شے کی طرح نہیں کرسکتے جو زمان ومکان کی پابند ہے۔آپ میری ذات کا ادراک اور اس کی تعبیر صرف میرے فیصلوں ‘عزائم اور میرے مقاصد کی روشنی میں کرسکتے ہیں‘‘ (چوتھاخطبہ) ان دو اقتباسات میں انسانی ذات کی انفرادی پسند اور اس کی غیر مادی حقیقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان دو بنیادی اُمور کی وضاحت کے ضمن میں مندرجہ ذیل نکات خاص اہمیت کے حامل ہیں:۔ (الف ) ہر انسانی ذات دوسری انسانی ذات سے مختلف اور منفرد ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خدا ہر لمحہ اپنی تخلیقی جلوہ گری کو ہستی کے نئے نئے پیکروں میں پیش کرکے اپنی تازہ آفرینی اور عدم تکرار کا ثبوت بہم پہنچاتارہتا ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ خدا کے قانون مکافات کی رُو سے ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار قرار دیا جائے گا ۔ اس کے لیے یہ لازمی تھا کہ اسے اختیار وا رادہ کی طاقت دینے کے ساتھ ساتھ الگ ذات کا مالک بھی بنادیا جائے۔ہرانسانی ذات کا تشخص اور اسکی انفرادیت کا انحصار اس کی مخصوص ذاتی خواہشات، تکالیف، احساسات وجذبات، افکار و نظریات،عزائم، مقاصد، فیصلہ جات، اعمال اور میلانات پر ہوتا ہے۔ میری کسی خاص خواہش کی تکمیل صرف میری ذات سے بنیادی،حقیقی اور گہرا تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے انسان بھی میری اس خوشی میں شریک ہوسکتے ہیں لیکن ان کے احساس راحت اور میرے احساسِ مسرت کی شدت میں یکسانیت نہیں ہوسکتی۔یہی حال میرے ذاتی غموں کا ہوگا۔ یہ چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ میری ذاتی خواہشات صرف میری ہیں اورمیرے احساسات، جذبات اور خیالات ہی میری ذات(خودی )کی تشکیل‘تعمیر اور تخریب کا باعث ہوں گے۔علامہ اقبالؒ نے مندرجہ ذیل اشعار میں خودی کی انفرادیت اور خلوت پسندی کے متعلقہ گوشوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔وہ انائے مطلق کے بارے میں کہتے ہیں: پسند اس کو تکرار کی خو نہیں کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں من وتو سے ہے انجمن آفریں مگر عین محفل میں خلوت نشیں ( کلیات اقبال، ص ۴۱۸)

واحد  استِ  و   برنمی   تابد  دوئی        من زتابِ اومن ، ستم تو  توئی
خویش دار  وخویش بازو  خویش ساز        تاز ہا  می  پرورد   اندر  نیاز

(کلیات اقبال،ص ۸۷)

اگر میں روزانہ ورزش کروں تو اس سے میری صحت پر اچھا اثرپڑے گا نہ کہ آپ کی صحت پر۔ من وتو کی یہ تمیز خودی کی انفرادیت اور خلوت پسندی کی واضح دلیل ہے۔علامہ اقبالؒ کا یہ بیان بھی خودی کی انفرادیت کا غماز ہے۔وہ فرماتے ہیں:۔

"The nature of the ego is such that, in spite of its capacity to respond to other egos, it is self-centred and possesses a private circuit of individuality excluding all egos other than itself. In this alone consists its reality as an ego" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) )ب) علامہ اقبالؒ نے خودی(انسانی ذات) کو مادی اشیا کی طرح زمان ومکان کا پابند قرار نہیں دیا۔ خودی اور مادی شے کے زمان ومکان یکساں نہیں ہوتے۔ اُنکی رائے میں کسی انسانی ذات کا فہم اور تغیر کسی کے ذاتی عزائم،مقاصد، فیصلہ جات،احساسات،جذبات اور افکار واعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر انسان کی ذاتی پسند اور ناپسند دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے ایک پر دوسرے کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مادی شے کو پابہ گل اور مجبور محض خیال کرتے ہیں مگر وہ انسانی اختیار وارادہ اور آزادی انتخاب کے زبردست قائل ہیں۔اسی بنا پر اُنھوں نے یہ کہا کہ انسانی ذات کا پابند زمان ومکان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔وہ انسا ن کی آزادی عمل اور اختیار کا راگ الاپتے ہوئے کہتے ہیں: "God himself cannot feel, judge, and choose for me when more than one course of action are open to me" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) انسانی قوت عمل کی ایک جھلک ملاخطہ ہو:

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں     انسان کی ہر قوت سرگرمِ تقاضا ہے

(کلیات اقبال،ص ۱۷۹) (۹)’’جب میںکسی جگہ یا شخص کو پہچانتا ہوں تو یہ میری شناخت میرے گذشتہ تجربات کی ترجمان ہوتی ہے۔ ا سکا تعلق میری ذات سے ہوتا ہے نہ کہ کسی اور خودی کے گذشتہ تجربات سے ہم اپنی اپنی کیفیات کے اس بے مثال باہمی ربطہ کو لفظ’’ میں‘‘ یا’’انا‘‘ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں اور یہاں سے نفسیات کا ایک اہم مسئلہ ظہور پذیر ہونے لگتا ہے۔اس ’’میں‘‘ یا ’’انا‘‘ کی نوعیت کیا ہے؟‘‘ (چوتھا خطبہ) (۱۰)’’ میری شخصیت کوئی شے نہیںبلکہ یہ ایک عمل ہے۔میر ی باطنی کیفیات اُن اعمال کا ایک وسیع سلسلہ ہیں جو ایک دوسرے پر دلالت کرتے اور ایک رہنما مقصد کی وحدت کی بنا پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔میری تمام حقیقت میرے ہدایت کوش طرزِعمل میں پوشیدہ ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ کی رائے میں کسی جگہ یا شخص کے بارے میں ہماری شناخت ذاتی نوعیت اور ہمارے گذشتہ تجربات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس شناخت کا تعلق کسی اور ذات کی بجائے صرف ہماری ذات سے ہوتا ہے۔ہمارا یہ اندازِ شناخت ہماری ذات کی انفرادیت پر دلالت کرتا ہے اس لیے دوسروں کی شناخت ہماری ذات کی شناخت قرار نہیں دی جاسکتی۔وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم اپنی تمام کیفیات کے اس بے نظیر باہمی ربط اوراتحاد کو لفظ’’انا‘‘(میں) کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تمام ذہنی کیفیات میری ذات کی بنیاد اور شناخت کا کام دیتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس’’میں‘‘یا ’انا‘‘ کی نوعیت کیا ہے؟امام غزالیؒ کی رائے میں خودی ایک سادہ،ناقابل تقسیم اور غیر تغیر پذیر روحانی جوہر کا نام ہے جو ہماری تمام ذہنی حالتوں کے مجموعے سے مختلف اور مرورِ زماں سے غیر متاثر ہوتا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ’’ ہمارا شعوری تجربہ وحدت آمیز ہے اور ہماری ذہنی حالتیں اس روحانی جوہر کی صفات ہیں‘‘۔علامہ اقبالؒ امام غزالیؒ کے اس تصورِ نفس(نظریہ خودی) کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہیں کیونکہ اگر ہم ان تجربات کو روحانی جوہر کی صفات سمجھیں تو ہم اس کا پتہ نہیں لگا سکتے کہ یہ صفات نفس میں پوشیدہ کیسے ہیں اور یہ مختلف اوقات میں ایک ہی جسم پر تصرف کیونکر کرتی ہیں۔وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نفس کی عدم تقسیم کا نظریہ روح کی بقا کو ثابت نہیں کرتا ۔ علامہ موصوف کے خیال میں شعوری تجربے سے ہمیں خودی کی اصلیت معلوم نہیں ہوسکتی جیسا کہ وہ خو د فرماتے ہیں:۔ "Our conscious experience can give us clue to the ego regarded as a soul-substance; for by hypothesis the soul-substance does not reveal itself in experience" (The Reconstrurction of Religious Thought in Islam,p.101)

اس شعوری تجربے پر تنقید کے باوجود علامہ اقبالؒ اسے ہی خودی کے سراغ کا راستہ قرار دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں:

"Yet the interpretation of our conscious experience is the only road by which we can reach the ego, if at all" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.101-102)

خودی کی ماہیت سے متعلق مشہور امریکی نفسیات دان ولیم جیمس نے شعور کو ’’جوئے خیال‘‘ قرار دیا تھا جس میں احساس کے تسلسل کے ساتھ تغیرات کیشعوری رو ہوتی ہے۔ اس کے خیال میں خودی ذاتی زندگی کے احساسات پر مشتمل ہونے کے سبب نظام فکر کا حصہ ہے جس میں ہر غائب اورموجودہ خیال کا ارتعاش علم اور حافظے پر منحصر ناقابل تقسیم وحدت کا حامل ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ ولیم جیمس کے اس تصور کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح غائب خیال علم کے حصول اور یاداشت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ علامہ موصوف کا ذاتی نظریہ شعور یہ ہے:

"consciousness is something single, presupposed in all mental life, and not bits of consciousess mutually reporting to one another" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72)

اگر ہم اپنی تمام ذہنی کیفیات کو متغیر اور غائب تصور کریں تو پھرہم کسی ثبات کے بغیر پائیدار تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھ سکیں گے۔قرآن کے ابدی قوانین اثبات اور ضرورت اجتہاد تغیر کے آئینہ دار ہیں۔ محض ثبات اور محض تبدیلی انتہا پسندی کیغماز ہیں۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ بدلتی ہوئی ذہنی کیفیات کے ساتھ ساتھ نفس انسانی(خودی) کے عنصرثبات کے بھی حامی ہیں۔اگر خودی میں یہ ثبات نہ رہے تو پھر ہم انسانوں اور چیزوں کی شناخت کیسے کرسکیں گے۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے:

"My recognition of you is possible only if I persist unchanged between the original perception and the present act of memory" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.100)

   مادی شے اور انسانی شخصیت میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ انسان شعور‘عمل اور مقصد آفرینی کا حامل ہے۔انسانی ذات (خودی) محض خارج ہی نہیں بلکہ یہ باطن کی بھی حامل ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری باطنی کیفیات کی وحدت‘یک رنگی اور مقصد کوشی ہی ہماری خودی سے عبار ت ہیں۔باہر تو تبدیلی ہی تبدیلی ہے مگر باطن میں تغیر کے ساتھ ساتھ ثبات بھی ہے۔ہماری حیات کا تانا بانا ہمارے وحدت پرور مقاصد سے تیار ہوتا ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:

"My whole reality lies in my directive attitude." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.103)

اس تمام بحث کو اُن کے ایک مصرعے میں یوں پیش کیا گیا ہے: 
؎ جہانِ ہرکسے اندر دلِ اُوست

(۱۱)’’ اگر ہم خودی کو روحانی جوہر خیال کریں تو پھر ہمارا شعوری تجربہ ہمیں اس کی صحیح نوعیت کا سراغ نہیں دے سکتا۔اس کے باوجود ہمارے شعوری تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) (۱۲)’’ولیم جمیزکی رائے میں خودی ہمارے ذاتی احساسات وجذبات پر مشتمل ہونے کی حیثیت سے ہمارے نظام فکر ہی کاحصہ ہے۔علاوہ ازیں گذشتہ اور موجودہ خیال کا ارتعاش ایک ایسی ناقابل تقسیم وحدت ہے جس میں علم اور حافظہ دونوں شامل ہوتے ہیں۔ولیم جمیز کا یہ تصور انتہائی ذہانت وفطانیت پر مبنی ہے لیکن میرے ناقص خیال میں اس کا یہ نظریہ اس شعور کی صحیح طور پر عکاسی نہیں کرتا جسے ہم اپنے اندر پاتے ہیں۔دراصل شعور وحدت اور ذہنی کیفیات کی بنیاد ہے… اس لییولیم جمیز کا مذکورہ بالا تصور خودی کی ماہیت کا کھوج نہیں لگاتا ۔علاوہ ازیں یہ ہمارے مدرکات کے اضافی طور پر مستقل عنصر کو کلیتہً نظر انداز کردیتا ہے‘‘۔

 اس سے پہلے خودی اور شعور کی بحث کے ضمن میں امام غزالیؒ اور امریکی ماہر نفسیات ولیم جمیز کے افکار ونظریات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے تاہم قند مکرر کے طور پر اس اہم اور دقیق موضوع کے لازمی اور بنیادی اُمور کا یہاں خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

(ا) امام غزالیؒ نے خودی(نفس انسانی) کی تعریف کرتے ہوئے اسے روحانی جوہر کہا تھا جو سادہ‘ ناقابل تقسیم اور ساکن ہوتاہے۔علاوہ ازیں اُنھوں نے اسے شعوری تجربے کی وحدت کانام بھی دیا ہے۔علامہ اقبال ؒ کی رائے میں اگرچہ شعور ہماری خودی کی نوعیت کا سراغ نہیں دیتا تاہم شعوری تجربے کی بنا پر ہی ہم خودی کی منزل تک جاسکتے ہیں۔ شاعر مشرق ؒ خودی کی نوعیت کو معلوم کرنے کے لیے عقلی طریق کار کی اہمیت وافادیت کے بھی قائل ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ وہ اسے محض ’’چراغ راہ‘‘ خیال کرتے ہیں۔عقل وعشق،فکر وذکر، فلسفہ و ایمان کا یہ فرق دیکھئے۔وہ فرماتے ہیں: گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ را ہ ہے منزل نہیں ہے

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں      ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

(کلیات اقبال،ص ۳۳۹) (ب) ولیم جمیز کے نزدیک ہماری ذات(خودی) ذاتی احساسات وجذبات کی حامل ہونے کے باوجود ہمارے نظام فکر ہی کا حصہ ہے۔ اس کے تصور میں موجودہ خیال اور گذرے ہوئے خیال میں وحدت موجود ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ اس کے تصور شعور کو بھی اطمینان بخش خیال نہیںکرتے کیونکہ اس میں ہمارے مدرکات کے مستقل عنصر کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ہماری ذہنی حالتوں کی تبدیلی کے باوجود ہماری ذات میں ایک ایسا مستقل عنصر ضرور موجود ہوتا ہے جو ان تمام حالتوں کا شیرازہ بند اور ناظم ہے۔وہ ہمارے انتشار فکر وعمل کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ہماری خودی(ذات) کا یہ مستقل عنصر تمام ذہنی کیفیات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنیکی قوت رکھتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ خود فرماتے ہیں: "Inner experience is the ego at work.We appreciate the ego itself in the act of perceiving, judging, and willing." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) )ج) علامہ اقبالؒ کے خیال میں شعور ہماری تمام ذہنی کیفیات کی بنیاد اور قوت ناظمہ ہے۔ وہ اسے’’نقطہ نورے‘‘ اور ہمارے جسم خاکی کے نیچے’’شرار زندگی‘‘ بھی کہتے ہیں۔نور کا یہ نقطہ ہمارے جسم کے خاکی شبستان میں روشنی پھیلانے کے علاوہ’’شرارہ حیات‘‘ بھی ہے۔ یہ’’ رازِ درون حیات‘‘ بھی ہے اور ’’بیداری کائنات‘‘ بھی۔ یہ’’میں‘‘ اور’’ توُ‘‘ کی ظاہری تمیز کے علاوہ من وتوُ سے پاک بھی ہے۔انسانی خودی چونکہ خدائی خودی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اپنے مرکز حقیقی سے ظاہری دوری کے باوجود بہت قریب ہے ۔ہر سینہ اسرارِ معانی اور رموزِ خودی کا گنجیہ ہوتا ہے۔بیرونی دنیا کی طرح ہمارے من کی دنیا میں بھی جذبات واحساسات کی رونق اور جذبات وخیالات کی ہنگامہ آرائی کی کیفیت موجود ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ : ؎ نہاں در سینئہ ماعالمے ہست جذبات وافکار کی ان تمام کیفیات کی باگ ڈور ہماری ذات کے مستقل عنصر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اس لحاظ سے خودی ہماری شخصیت کی گوناگوں حالتوں کی تبدیلی کے باوجود ثبات کی مالک رہتی ہے۔ (۱۳)’’ خودی کی زندگی دراصل ایک قسم کی کشمکش ہے جو خودی اور ماحول کی باہمی آویزش کی بنا پر معرض وجود میں آتی ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ) قدرت نے اس جہان رنگ وبو میں محض صلح و آشتی اور خیر کی طاقتوں ہی کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس نے اس کی ہنگامہ خیزی اور ترقی کے لیے یہاں جنگ وجدل اور شر کی قوتوں کو بھی تخلیق کیا ہے۔اگر نیکی کو اپنی ترقی کی راہ میں گوناگوں مشکلات ‘موانعات اور بدی سے واسطہ نہ پڑے تو اس کی اہمیت کیسے دوبالا ہوگی اور اسے منزل شناسی کیسے نصیب ہوگی؟ آدمؑ اور ابلیس کی باہمی معرکہ آرائی دراصل معرکہ خیر وشر کا دوسرا نام ہے۔دنیا میں نیکی کو عام کرنے والوں کو ہمیشہ بدی کے حامیوں کے ساتھ نبرد آزمائی کی آزمائش کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ازل سے لے کر اب تک یہی چپقلش جاری ہے: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز چراغ مصطفوی ؐ سے شرارِ بولبیی

علامہ اقبالؒ نے اس عبارت میں خودی اور ناساز گار ماحول کی باہمی آویزش کی طرف بڑا بلیغ اشارہ کیا ہے۔اُنکی رائے میں خودی(انسانی ذات) کی زندگی ایک قسم کی کشمکش ہے جو خودی اور ماحول کی باہمی آویزش کی بنا پر پیش آتی ہے۔خودی کو ترقی کی راہ میں دو قسم کی بڑی رکاوٹوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔اندرونی رکاوٹیں اور بیرونی رکاوٹیں۔نفس مطمنّہ کے عظیم مرتبے تک پہنچنے سے قبل اسے نفس امّارہ اور نفس لّوامہ کی کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح بیرونی طور پر اسے تسخیر کائنات اور تسخیر مکان وزمان سے پہلے نا سازگار ماحول اور حوصلہ شکن واقعات سے پنجہ آزما ہونا پڑتا ہے۔مفکر اسلام کی اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :۔

(الف)خودی ماحول اور ماحول خودی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کشمکش میں خودی کی شرکت اس کی ہدایت و توانائی کی مظہر ہوتی ہے اور وہ اپنے تجربات کی بدولت تشکیل پاتی ہے اور نطم وضبط کی حامل بن جاتی ہے۔اس بات کے ثبوت میں علامہ اقبالؒ نے ایک قرآنی آیت(۸۷:۱۷) کا حوالہ دیا ہے جس میںروح کو’’امر ربی‘‘کہا گیا ہے۔اس کی اصل عبارت یہ ہے: ’’یسئلو نک عنِ الرّوح قلِ الرّوح من امر ربیٰ وما او تیتم منِ العلم الا قلیلا‘‘ (بنی اسرایل ۱۷:۸۵)

(ترجمہ:اے نبیؐ! لوگ !آپ سے روح کے باے میں پوچھتے ہیں۔آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار کے امر(حکم) سے ہے اور تمھیں قلیل علم دیا گیا ہے)۔

(ب)علامہ اقبال نے روح(خودی) کو ’’امر ربی‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلق کا مطلب آفرنیش اور امر کا مفہوم ہدایت ہے۔’’روح(نفس۔خودی) کی اصلیت ہدایت کوشی بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ "As the Quran says: To Him belong creation and direction. The verse means that the essential nature of the soul is directive as it proceeds from the directive energy of God; though we do not know how divine'Amr'functions as ego-unities" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p103)

اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ خودی کی تعمیر وتشکیل اور ماحول کے درمیان گہرا ربط ہے۔ خودی کو اپنے استحکام اور ارتقا کے لیے ماحول سے پنجہ آزمائی کے ذریعے ضروری تجربات حاصل کرنے ہوں گے۔ علامہ موصوف خدا کو انسانی خودی کا منبع قرار دیتے ہیں۔وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ خودی مادی شے کی مانند نہیں بلکہ یہ عمل ہے اور تبدیلیوں کے باوجود خودی اپنی وحدت‘ انفرادیت اور خصوصیات کو ترک نہیں کرتی۔جفاطلبی سے خودی کی مخفی صلاحتیں بیدار ہوا کرتی ہیں۔بقول حضرت علامہ اقبالؒ:۔

کشت انساں را عدو باشد سحاب ممکنا تش را برانگیزد زخواب (کلیات اقبال‘ص ۵۳) (۱۴)’’ خودی کی نمایاں صفت اختیار ہے۔اس کے برعکس جسمانی اعمال اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں‘‘ ( چوتھا خطبہ) (۱۵)’’ فطرت کے ادراک اور تسخیر کی بنا پر خودی کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔خودی کی سرگرمی میں ہدایت کاری اور مقصد کوشی کا جو عنصر پایا جاتا ہے اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ خودی ایک آزاد شخصی تعلیل ہے اور وہ’’انائے مطلق‘‘کی آزادی میں شریک ہے‘‘ (ایضاً) (۱۶)’’ اسلام روز مّرہ نما ز کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے تاکہ ہماری خودی اختیارات وحیات کے آخری سرچشمے کا قرب و اتصال حاصل کرے۔اس کااصل مقصد یہ ہے کہ خودی کو نیند اور کسب معاش کے میکانکی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ نماز حقیقت میں خودی کا میکانیت یعنی جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے‘‘ (ایضاً)

جسم اور روح کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒنے ہمیں بتایا ہے کہ اگرچہ روح جسم سے بالا تر ہے تاہم اُسے اپنے مقاصد اور اعمال کی تکمیل اور ماحول سے نبرد آزمائی کے ذریعے تجربات حاصل کرنے کے لیے جسم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے جسم اور روح کے درمیان جدائی درست نہیں ہے۔قرآن حکیم ہمیں دنیوی اور دینی حسنات کے حصول کی تاکید کرتا ہے۔ نیز وہ مادہ وروح دونوں کو ہماری متوازن زندگی کے لیے لازم قرار دیتا ہے۔علامہ موصوف جسم اور روح دونوں کو اعمال وحادثات کا نظام خیال کرتے ہوئے انکے ظاہری فرق کے باوجود ان کے باہمی قرب اور ربط کی اہمیت کے قائل ہیں۔وہ دونوں کے ایک واضح اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی ارادہ واختیار کی حامل ہے جبکہ جسمانی اعمال اس خصوصیت کے مالک نہیں۔ روح یا خودی کی روحانی نوعیت اور جسم وروح کے باہمی ربط کے بارے میں اُن کا یہ قول بہت اہم ہے۔وہ کہتے ہیں:

"The system of experiences we call soul or ego is also a system of acts. The body is accumulated action or habit of the soul; and as such undetachable from it." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.106)

روح وبدن سے متعلق اُن کے مندرجہ ذیل اشعار ہماری خاص توجہ کے طالب ہیں:
دما   دم  رواں  ہے   یمِ زندگی       ہر اک  شے  سے  پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی  ہے  بدن کی نمود       کہ شعلے  میں پوشیدہ ہے موج دُود
گراں گرچہ ہے صبحت آب وگل        خوش  آئی  اسے محنت آب  و گل

(کلیات اقبال،ص ۴۱۷) خودی کے جبر واختیار کی بحث کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے تین اہم مکاتب فکر کا ذکر کیا ہے۔میکانیت پرست خودی کو بھی میکانکی اُصولوں پر قیاس کرکے اسے علت ومعلول کا پابند قرار دیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ علت ومعلول تو خودی نے خود پیدا کئے ہیں تاکہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو پابند قوانین تصور کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل میں سہولت اور خود اعتمادی محسوس کرے۔ دوسر امکتب فکر خودی کو بھی اشیائے کائنات کی طرح مجبور سمجھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ خودی کو ارادہ واختیار اور آزادی انتخاب کی مالک تصور کرتے ہوئے نظریہ جبریت کو بھی ردّ کردیتے ہیں۔وہ نئی جرمن نفسیات کے ’’تصور بصیرت‘‘ کی روشنی میں خودی کے انتخاب عمل،مستقبل بینی اور مقصد کوشی کی حمایت کرتے ہیں۔جب خودی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے اپنی آزادی عمل،شخصی ذمہ داری‘خود اعتمادی اور تسخیر کائنات کی خواہش کا احساس ہوتا ہے۔ جب خودی کو اپنی طاقت تسخیر کائنات کا پتہ چلتا ہے تو وہ کائنات کو زیرکرنے کے درپے ہوجاتی ہے اور اس طرح زمان ومکان کے اشہب کی سوار بن جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ خودی کی اس طاقت کے احساس اور جذبہ تسخیر کائنات کو سراہتے ہیں:۔ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار       اسی مقام  سے آدم ہے  ظّل سجانی

( کلیات اقبال،ص ۴۹۴)

کائنات کو مسخر کرکے انسان اپنے عظیم مقام‘تخلیقی سرگرمی اور آزای انتخاب کو ظاہر کرتا ہے۔اس بات کے ثبوت میں علامہ اقبالؒ نے دو قرآنی آیات( ۲۸:۱۸، ۷:۱۷) کا حوالہ دیاہے۔
خودی کو نیند اور کسب معاش کے میکانکی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور جبر سے آزادی کی طرف لانے کے لیے اسلام نے نماز پنجگانہ کا حکم دیا ہے تاکہ ہماری خودی روزانہ انائے مطلق یعنی خدا سے رابطہ قائم رکھے اور اپنے اندر موجود ایزدی توانائی کو برقرار رکھ سکے۔سچ بھی یہی ہے کہ جب ہم اپنے خارجی،مادی اور میکانکی ماحول کو بھول کر خدا کی بارگاہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ حاضر ہوتے تو اس وقت ہماری باطنی کیفیت میں خد اکی موجودگی اور قرب کا گہرا احساس ہوتا ہے جو ہماری خودی کو زوال پذیر نہیں ہونے دیتا۔اگر نماز استحکام خودی کا باعث نہ بنے تو پھر ہمیں یہی کہا جائے گا:

یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے، یہ سجود تری خودی کے نگبہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں (کلیات اقبال‘ص ۴۹۶) (۱۷)’’ مذہبی زندگی کا نقطہ عروج خودی کا انکشاف ہے۔ خودی جب حقیقت کاملہ کے ساتھ اپنا رابطہ استوار کرتی ہے۔اس وقت اُسے اپنی یکتائی‘مابعد الطبیعیاتی مرتبے اور ارتقا کے امکانات کا پتہ چلتا ہے۔انکشاف ذات کا پتہ دینے والا تجربہ صرف دنیا ساز اور دنیا سوز عمل کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے ۔اس صورت میں یہ لازمانی تجربہ اپنے آپ کو زمانے کی رو میں پھیلا کر موثر طور پر تاریخ کے سامنے بے نقاب ہوسکتا ہے‘‘

(ساتواں خطبہ)

 اس عبارت میں علامہ اقبالؒ نے مذہبی واردات اور باطنی تجربات،خودی اور انکشاف ذات پر منحصر اعمال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان اہم اُمور کی تشریح درج ذیل ہے:

(الف)مذہبی زندگی کا منتہائے مقصود خودی کا انکشاف ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں مذہبی تجربہ فکری تجربے اور سائنسی تجربے سے زیادہ عمیق اور اہم ہوتا ہے۔اس لحاظ سے مذہب کو فلسفہ اور سائنس پر برتری حاصل ہونی چاہیے۔ حقائق کا تعلق صرف عالم محسوسات سے نہیں بلکہ محسوسات سے ماوراء بھی حقائق موجود ہوتے ہیں جنہیں عقل اور سائنس مادی نقطہ نگاہ اور میکانکی انداز سے نہیں پاسکتے۔زندگی صرف علت ومعلول کی حکمرانی نہیں۔ علامہ موصوف مذہبی طریق انکشاف ہی کو سب سے زیادہ سنجیدہ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ "Religion----is the only serious way of handling reality. As a from of higher experience. It is corrective of our concepts of philosophical the ology" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.184) (ب) خودی کے دو اہم پہلو ہیں: فعال پہلو اور قدر آشنا پہلو۔خودی کے فعال پہلو کا خارجی‘مادی ‘ظاہری اور دیدنی دنیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے جبکہ اس کا قدر آشنا پہلو باطنی دنیا‘ قلبی واردات اور روحانی تجربات سے متعلق ہوتا ہے۔خودی جب محسوسات سے ماورا باطنی تجربات کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اس وقت اس کا حقیقت مطلقہ(خدا )کے ساتھ گہرا رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔ایسی حالت میں اسے اپنی انفرادیت، مقام رفیع اور ترقی کے امکانات کی خبر ہوتی ہے۔ شاعر مشرق اس امر کے قائل ہیں کہ عقلی اور سائنسی طریق کے علاوہ دیگر ذرائع بھی انکشاف حقائق میں مدد دیتے ہیں۔اُنکا کہنا ہے کہ ہر دور اور ہر قوم میں ایسے غیر حّسی اور باطنی تجربات کا ثبوت ملتا ہے جو مذہبی تجربات کی حقانیت اور آفاقیت کا آئینہ دار ہے۔اُن کی یہ رائے ملاخطہ ہو:

"The Ultimate Reality-reveals its symbols both within and without"

(The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.15) (ج) خودی کو جب اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے تو یہ لازمانی تجربہ دنیا میں عظیم تاریخ ساز انقلاب کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔خودی اپنی خلوت سے باہر آکر اپنی انقلاب خیز جلوت کی مظہر بن جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ اپنے ایک مطبوعہ مضمون بعنوان’’اضافیت کی روشنی میں خودی‘‘ مطبوعہ رسالہ کریسنٹ لاہور ‘۱۹۲۵ء میں تحریر کرتے ہیں کہ اس انقلاب آفریں عظیم عمل کی کیا اہمیت ہے:۔ "In great action alone the self of man becomes united with God without losing its own identity and transcends the limits of space and time. Action is the highest form of contemplation" (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.115) اس ساری بحث سے متعلق شاعر مشرق کے یہ اشعار دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے:۔ تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر

( کلیات اقبال،ص ۳۵۱)
خویش را چوں از خودی محکم کنی    تو اگر خواہی جہاں برہم کنی    

(کلیات اقبال،ص۵۳)

                   کمال ذاتِ شے موجود بودن    برائے شاہدے مشہود بودن                        
(کلیات اقبال،ص۵۴۴)