Actions

خلوص

From IQBAL

Revision as of 21:07, 14 June 2018 by Zahra Naeem (talk | contribs)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

اقبال کی زندگی سراپا خلوص تھی اور ان خطوط میں اس کی لفظی و عملی شہادت کثرت سے موجود ہے۔ وہ دوستوں کے دکھ درد میں ان کا شریک اور ان کی امداد و اعانت پر کمر بستہ ہے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی مروت کے لیے بھی دلی اور دائمی احسان مندی اس کا خاصہ ہے۔ عطیہ بیگم اس امر پر اظہار تاسف کرتی ہیں کہ شمالی ہندوستان میں اقبال کو عوام میںوہ عقیدت اور قدر و منزلت حاصل نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں: ’’لو گ ریاکاری سے عقیدت رکھتے ہیں اور اسی کا احترام کرتے ہیں۔ میں ایک بے ریا زندگی بسر کرتاہوں اور منافقت سے کوسوں دور ہوں۔ اگر ریاکاری و منافقت ہی میرے لیے وجہ حصول احترام و عقیدت ہو سکتی ہے تو خدا کرے میں اس دنیا سے ایسا بے تعلق اور بیگانہ ہو جائوں کہ میرے لیے بھی ایک آنکھ اشک بار اور ایک بھی زباں نوحہ خواں نہ ہو‘‘۔ لیکن اقبال کی زبان حقیقت ترجمان پر حق ضرور جاری ہو جایا کرتاتھا چنانچہ ۱۹۰۹ء میں عطیہ بیگم کو ہی ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میںطوفان بپا کیے ہوئے ہیں عوام پر ظاہر ہو جائیں تو مجھے یقین واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہو گی۔ دنیا میرے گناہوں پر پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوئوں کا خراج عقیدت پیش کرے گی‘‘۔ اقبال کے قلب با صفا اور زبان بے ریا سے نکلے ہوئے یہ کلمات کتنے سچے ثابت ہوئے اور اس کی وفات پر ایک دنیا نے اسے آہوں اور آنسوئوں کا خراج عقیدت پیش کیا اور آج: زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک کوہ کو میں نے بتایا راز الوندی! (اقبال) مہاراجہ سر کشن پرشاد سے بہت عرصہ اقبال کی خط و کتابت رہی۔ اقبال کی نیاز مندی اور حفظ مراتب کی شان ابتدا سے انتہا تک یکساں رہی۔ اقبال کے جاننے والے حیران ہیں کہ آخر اس ہندو رئیس میں کیا خوبی تھی کہ جو اقبال ا س کا گرویدہ ہو گیا۔ حضرت علامہ کے ایک ندیم خاص نے تو ایک پرائیویٹ گفتگو میں یہاںتک فرمایا کہ اقبال نے کبھی مہاراجہ سے تعلقات کا اشارتہً بھی ذکر نہیں فرمایا تھا۔ لیجیے اقبال کی زبانی اس رابطہ کی نوعیت ملاحظہ فرما لیجیے۔ مارچ ۱۹۱۷ء میں مہاراجہ بہادر کو لکھتے ہیں: ’’مجھے خلوص سرکار سے ہے اس کا راز معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں سرکار کی قبائے امارت سے میرے دل کو مسرت ہے۔ مگر میری نگاہ اسے سے پرے جاتی ہے۔ اور اس چیز پر جا ٹھہرتی ہے جو اس قبا میں پوشیدہ ہے۔ الحمد اللہ یہ خلوص کسی غرض کا پردہ دار نہیں اورنہ انشاء اللہ ہو گا۔ انسانی قلب کے لیے اس سے بڑھ کر زبوں بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا خلوص پروردہ اغراض و مقاصد ہو جائے انشاء اللہ العزیز اقبال کو آپ حاضر و غائب اپنا مخلص پائیں گے۔ اللہ نے اس کو نگاہ بلند اور دل غیور عطا کیا ہے۔ جو خدمت کا طالب نہیں اور احباب کی خدمت کو ہمیشہ حاضر ہے‘‘۔ اسی خط میں لکھتے ہیں: ’’انہیں باتوں سے اقبال آ پ کا گرویدہ ہے۔ امارت عزت آبرو‘ جاہ و حشم عام ہے مگر دل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر امیر کے پہلو میں نہیں ہوتا‘‘۔ اس سے ایک پہلے خط میں مہاراجہ کو لکھتے ہیں: ’’الحمد اللہ کہ آئینہ دل گر د غرض سے پاک ہے۔ اقبال کا شعار ہمیشہ محبت و خلوص ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ اغراض کا شائبہ خلوص کو مسموم کر دیتا ہے۔ اور خلوص وہ چیز ہے کہ اس کو محفوظ و بے لوث رکھنا بندہ درگاہ کی زندگی کا مقصود اعلیٰ و اسنیٰ ہے‘‘۔ اسی خلوص و بے ریائی کا نتیجہ تھاکہ یہ ہندو مہاراجہ جس کی حیثیئت کتنے ہی ہندو والیان ریاست سے بڑھ کر تھی اقبال کو اپنی بیٹیوں کے رشتے کی تلاش کی دوستانہ فرمائش کرتا ہے اور اقبال اس دوستانہ اعتماد کا پورا پورا عملی احترام کرتے ہیں۔ اقبال نامہ کی دونوں جلدوں میں جا بجا ایسے شواہد موجود ہیں کہ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیںلکھی کہ جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔ تہجد

قبول تنقید و اصلاح

اقبال نے شاعری سے ہمیشہ بیزاری کا اظہار کیا لیکن اسے اپنے خیالت کی اشاعت کا ای مقبول ذریعہ سمجھتے ہوئے اختیار کیے رکھا۔ شاعر فطرتاً حساس ہوتے ہیں۔ مصنف مصور شاعر اور ہر صاحب فن کے لیے اس کے کمال ہنر کی داد سب سے بڑی مسرت اور اس کے فن پر تنقید اس کے لیے انتہائے اذیت کا موجب ہوا کرتی ہے اور شاعر حضرات بالخصوص: نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد ک مصداق ہوا کرتے ہیں اقبال ایک طبع سلیم لے کر پید اہوئے تھے۔ تنقید و اصلاح کلام کے بارے میں بھی ان کا رویہ سلامتی انکساری حصول علم اور استفادہ ہی کا رہا اور اپنے کلام پر اعتراضات کو انہوںنے خندہ پیشانی اور دلی شکریہ سے قبول فرمایا۔ ۱۹۰۳ء میں مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی کو اپنے اشعار پر تنقید موصول ہونے پر لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ آج مجھے اپنے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی داد مل گئی۔ آپ کا تہ دل سے مشکور ہوں۔ آپ لوگ نہ ہوں تو واللہ ہم شعر کہنا ترک کر دیں۔ اگرچہ جلسہ میںہر طرف سے لوگ حسب معمول ان کی تعریف کرتے تھے۔ مگر جو مزا مجھے آپ کی داد سے ملا ہے اسے میرا دل ہی جانتا ہے۔ آ پ کا خط حفاظت سے صندوق میں بند کر دیا ہے نظر ثانی کے وقت آپ کی تنقیدوں سے فائدہ اٹھائوں گا‘‘۔ مولوی سید سلیمان ندوی کو جن کے علم و فضل اور خدمات دینی کا اقبال کو مخلصانہ اعتراف و احترام تھا لکھتے ہیں: ’’معارف میں ابھی آپ کا ریویو مثنوی رموز بے خودی نظر سے گزرا… آپ نے جو کچھ فرمایا وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے صحت الفاظ و محاورات کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہو گا لیکن آپ نے ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ کرتے تو آپ کا ریویو میرے لیے مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط ملط الفاظ اور محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے مجھے ا ن سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے‘‘۔ ایک دوسرے خط میں اپنی لغزشوں پر آگاہی کے لیے تقاضا کرتے ہیں: ’’رموز بے خودی کی لغزشوں سے آغاہ کرنے کا آپ نے وعد ہ کیا تھا۔ اب تو ایک ماہ سے بہت زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ امید ہے ک توجہ فرمائی جائے تاکہ میں دوسرے ایڈیشن میں آپ کے ارشادات سے مستفید ہو سکوں‘‘۔ اس تقاضے کے جواب میں جوطویل الفاظ و محاورات اور بعض اشعار کی نوعیت کے متعلق موصول ہوئی اس پر سید صاحب موصوف کو اپنے الفاظ کی بنا پر لکھتے ہیں: ’’مثالیں اساتذہ موجود ہیں مگرا س خیا ل سے آ پ کا وقت ضائع ہو گا نظر انداز کرتا ہوں البتہ اگر آ پ اجازت دیں تو لکھوں گا‘‘۔ اور پھر کس قدر انکسار اور طالب علمانہ جستجو ارو احترام کے اندازمیں لکھا: ’’محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میں نے غلط مثالیں تو نہیں انتخاب کیں‘‘۔ اجازت موصول ہونے پر اعتراضات کے جواب میں مثالوں میں اساتذہ کے اشعار بطور سند پیش کیے محض ایک مثال پیش کرتا ہوں خیال ہے کہ سید صاحب کا ذوق شعر اس شعر کو پڑھ کر ایک مرتبہ تو وجد میں آ ہی گیا ہو گا۔ علامہ نے عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ سے متعلق مثنوی میںلکھا تھا:

کور ذوقاں داستانہا ساختند

وسعت ادراک او نشاختند

اقبال سید صاحب کو لکھتے ہیں کہ کور ذوق کی نسبت آپ کا ارشاد تھا کہ بے مزہ ترکیب ہے۔ اس کے جواب میں یہ سند پیش کرتے ہیں:

چہ غم زیں عروس سخن رابتہ

کہ بر کور ذوقاں شود جلوہ گر (ظہوری)

محمد احمد خاں صاحب نے دو ایک اشعار کی معانی کی وضاحت چاہی اورلکھا کہ ان کے دوستوں کو:

قید دستور سے بالا ہے مگر دل میرا

فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا

کے مصرع دوم بالخصوص لفظ ’’نازل‘‘ پر اعتراض ہے جس کے معنے اوپر سے نیچے آنے کے لیں لہٰذا فرش سے عرش پر نازل ہونا صحیح نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دوسرے دو اشعار کے متعلق تو جواب لکھا لیکن اس اعتراض کے متعلق لکھا کہ تیسرے سوال کا جواب ذوق سلیم سے پوچھیے نہ مجھ سے نہ منطق سے نہ کسی ماہر زبان سے۔ آل احمد سرور معلم شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی نے اپنے چند شکوک تحریر فرمائے ہیں۔ انہیںلکھتے ہیں: ’’میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگر آپ پور ے غو ر و توجہ سے یہ مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ بھی انہی نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں۔ اس صورت میں غالباً آپ کے شکوک تمام رفع ہو جائیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کا Viewمجھ سے مختلف ہو یا آپ کود دین اسلام کے حقائق ہی کو ناقص تصور کریں۔ اس دوسری صورت میں دوستانہ بحث ہو سکتی ہے۔ جس کا نتیجہ معلوم نہیں کیا ہو آپ کے خط سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بھی بالاستعیاب مطالعہ نہیں کیا۔ اگر میرا خیا ل صحیح ہے تو میں آپ کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں اور آپ بھی اس کی طرف توجہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خود بخود آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔ ‘‘ ایک عقیدت منداقبال کی ایک پرانی نظم پر کسی تنقید کی طرف توجہ دلاتے ہیں تواغلاط کتابت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نقاد کی نظر سے نظم کے حقیقی اسقام البتہ پوشیدہ رہے۔ شعر محاورہ اور بندش ی درستی اور چستی کا نام نہیں۔ میرا ادبی نصب العین نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے‘‘۔ ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے ہمیشہ تنقید کا خیر مقدم کیا۔ اور اعتراض کو سمجھنے اور جواب کے سمجھانے میں عالی حوصلگی سے کام لیا ہے۔ ایک مرتبہ جب کسی نااہل نے علامہ اقبال کے کلام میں اصلاح کی جرات کی تو علامہ اقبال نے اپنے انداز خاص میں ان کے ارشادات عالیہ کا جواب لکھا۔ بابو عبدالمجید صاحب کو ۱۹۰۴ ء میں لکھتے ہیں : ’’یہ کوئی صاحب چھوٹے شملہ سے میری غزل کی اصلاح کر کے ارسال کرتے ہیں۔ میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کیجیے اور عرض کیجیے کہ بہتر ہو اگر آپ امیر و داغ کی اصلاح کیا کریں۔ مجھ گمنام کی اصلاح کرنے سے آپ کی شہرت نہ ہو گی۔ میرے بے گناہ اشعار کو جو حضرت نے تیغ قلم سے مجروح کیا ہے اس کا صلہ انہیں خدا سے ملے… امید ہے کہ وہ برانہ سمجھیں گے۔ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکا ہو جاتاہے‘‘۔ اشعار کو تیغ قلم سے مجروح کرنے کی ترکیب سے مجھے حضرت علامہ کے استاد گرامی مولوی میر حسن صاحب کا ایک لطیفہ یاد آ گیا جو دوران ملازمت مرے کالج میں انہوںنے مجھ سے بیان فرمایا تھا۔ سیالکوٹ کے ایک مشہور شاعر جو اپنے آپ کو اقبال کا حریف سمجھتے تھے۔ اور آبائی پیشہ کے لحاظ سے قصا ب تھے مولوی کی خدمت میں ایک غزل لے کر حاضر ہوئے اور ملاحظہ کی فرمائش کی۔ مولوی صاحب نے غزل دیکھی اور خاموش رہے ۔ شاعر کا دل داد کے لیے گدگدا رہا تھا۔ مولوی صاحب نے پوچھا کہ اپنی رائے گرامی بھی فرمائیے کیا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ میرے دوست! کیا کہوں آپ نے شاعری کا جھٹکا کر دیا ہے! تحفہ کلام و داد سخن

مصنفین کی حوصلہ افزائی و رہنمائی

اقبال نامہ کی دونوں جلدوں کا صفحہ صفحہ اس پر شاہد ہے کہ علامہ مرحوم ایک علم دوست اور علم پرور بزر گ تھے اور یہی ان کا محبوب مشغلہ تھا اگر انہیں فارغ البالی نصیب ہوتی تو وہ ملت کی خدمات علمی و عینی کی انجام دہی میں اس عہد میں بے مثال ہوتے۔ اس پر بھی جو کچھ انہوں نے کیا ان کے حالات کے پیش نظر حد درجہ اہم اور ان کے ذوق افتاد طبیعت کا پتہ دیتا ہے۔ اقبال نے ۱۹۰۰ء میں علم الاقتصاد کے نا م سے اردو میں اکنامکس پر سب سے پہلے کتاب تیار کی اور مجھے اس مضمون میں معلم کی حیثیت سے اور اس مضمون کو اپنی زبان میں منتقل کر دینے کی اہمیت کے پیش نظر اس کتاب کے دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ جب لاہور سے احباب نے اس کتاب کے مہیا کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کر دی تو میں نے کتب خانہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جستجو شروع ککی۔ کتاب مل گئی اور میں نے بعد مطالعہ اسے کتب محفوظ میں داخل کرا دیا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت علامہ کی قابلیت اور خدمت اردو کی صلاحیت کا جو اندازہ مجھے ہوا وہ ان حضرات کو ہرگز نہیں ہو سکتا جنہیں ا س کے دیکھنے کا موقع ملا۔ اگرچہ اس میں اولیت کا شرف علامہ ہی کو حاصل تھا۔ اور انہوںنے جو راہ ہموار کی تھی اس پر گامزن ہونا چنداں مشکل نہ تھا۔ تاہم جب ۱۹۱۷ء میں علی گڑھ سے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب شائع ہوئی تو اقبال نے جو داد مصنف کو دی وہ اقبال کی دیدہ وری حوصلہ علم دوستی اور عظمت کی سرمایہ دار ہے۔ مصنف کو لکھتے ہیں: ’’آپ کی تصنیف اردو زبان پر ایک احسان عظیم ہے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اردو زبان میں علم الاقتصد پر یہ پہلی کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل‘‘۔ مولوی غلام قادر صاحب فصیح مصنف تاریخ اسلام کو لکھتے ہیں: ’’خود مجھ پر جو اثر اس کے مطالعہ سے ہوا ہے اس کا اظہار میں اس سے بہتر الفاظ میں نہیں کر سکتا کہ بسا اوقات دوران مطالعہ میں چشم پر آب ہو جاتاہوں۔ اس کا اثر میرے دل پر کئی کئی دن رہتا ہے‘‘۔ ظہور الدین مہجور کو لکھتے ہیں: ’’مجھے یہ معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے والے ہیںَ میں کئی سالوں سے اس کے لکھنے کی تحریک کر رہا ہوں مگر افسوس ہے کہ کسی نے توجہ نہ کی۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر میں فارسی شعر گوئی کی تاریخ لکھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بار آور ثابت ہو گی۔ اگر کبھی خود کشمیر میں یونیورسٹی بن گئی تو فارسی زبان کے نصاب میں اس کا کورس ہونا ضروری ہے‘‘۔ اللہ اللہ اس بزرگ کے خمیر میں علم اور عشق ملت کو کس طرح سمو دیا گیا ہے! محمد اکرام صاحب کو غالب نامہ کے موصول ہونے پر لکھتے ہیں: ’’بلاشبہ آپ نے غالب پر ایک نہایت عمدہ تصنیف پیش کی ہے اگرچہ مجھے آپ کے چند نتائج سے اتفاق نہیں۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ حضرت غالب کو اردو نظم میں بیدل کی تقلید میں ناکامی ہوئی‘‘۔ ایک دوسرے خط میں انہیں لکھتے ہیں: ’’ہسپانیہ پر نظم یوں تو تمام تر پرسوز ہے لیکن طارق سے متعلق اشعار بالخصوص دلگداز ہیں میں اسے محفوظ رکھوں گا اور کوشش کروں گا کہ یہ اشعار اردو میں منتقل ہو سکیں۔ میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا ہوں۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی گئی جو کسی وقت شائع ہو گی۔ الحمرا ء کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی‘‘۔ سید سلیمان کی تصنیف عمر خیام پر انہیں لکھتے ہیں: ’’جو کچھ آپ نے لکھ دیا ہے اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا‘‘۔ مولوی سراج الدین پال کے نام ان کے خطوط ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیؤے کہ صرف خواجہ حافظ پر ای مضمون کی ترغیب کے لیے کتنی مرتبہ انہیں لکھا ہے اور کس قدر حوالہ جات انہیں میہیا کیے ہیں اور کس طرح ان کی رہنمائی کی ہے۔ اسی طرح جو بات نہیں جانتے تھے یا جس کی وضاحت چاہتے تھے یا جس کے ایسے پہلو جو نظر انداز کر دیے گئے تھے۔ اسی طرح جو بات نہیں جانتے تھے یا جس کی وضاحت چاہتے تھے یا جس کے ایسے پہلو جو نظر انداز کر دیے گئے ہیں جاننا چاہتے تھے دوسروں سے پوچھتے تھے۔ جو دوسروں کو بتا سکتے تھے خوشی سے بتاتے تھے۔ اس سلسلہ میں صرف ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ حافظ محمد فضل الرحمن انصاری کو ۱۹۳۷ء میں لکھتے ہیں: ’’جہاں تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے فرانس جرمنی‘ انگلستان اور اٹلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اور حقائق حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتا ہے۔ ان حالات میں آ پ کے بلندمقاصد پر نظر رکھتے ہوئے بلاتامل کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لیے یورپ جانا بے سود ہے: میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں! مصر جائیے عربی زبان میں مہارت پیدا کیجیے۔ اسلامی علوم اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ تصوف‘ فقہ ‘ تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ پھر اگر ذہن خداداد ہے تو اور دل میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے