Actions

خضر راہ

From IQBAL

Revision as of 06:57, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> '''٭تعارف اور پس منظر''' ’’خضر ِراہ‘‘ علامّہ اقبال نے انجمن حمایت ِاسلام لاہور کے...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)
  ٭تعارف اور پس منظر   
    

’’خضر ِراہ‘‘ علامّہ اقبال نے انجمن حمایت ِاسلام لاہور کے ۳۷ ویں سالانہ جلسے، منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ئ، میں ترنم سے پڑ ھ کر سنائی ۔ یہ جلسہ اسلامیہ ہائی سکو ل شیراں والا گیٹ میں منعقد ہوا تھا۔ چودھری محمد علی بتاتے ہیں: ’’ جلسے سے چند روز قبل ان کی طبیعت ناساز تھی، مگر عین جلسے کے دن ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ جلسے میں تشریف لائے۔ اگرچہ بوجہ نقاہت مسند پر بیٹھ کر نظم ’ خضر راہ ‘ سنائی لیکن آواز میں وہی سوزر اور لہجے میں وہی تاثیر تھی‘‘۔ ( سیارہ : اقبال نمبر۱۹۶۳ئ: ص۳۰) ’’خضرراہ‘‘ کو اقبال نے نہایت دردر انگیز لَے میں پڑ ھا تھا۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :’’ یہ نظم سننے کے لیے بے شمار آدمی جمع ہو گئے تھے… پورا مجمع بیس ہزار سے کم نہ ہوگا۔ بعض اشعار پر اقبال خودبھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ بیان کیا جاتاہے کہ اقبال پر جتنی رقت ’’ خضر راہ ‘‘ پڑ ھنے کے دوران میں طاری ہوئی ،اتنی کسی نظم کے دوران میں نہ ہوئی ‘‘۔ ( مطالب بانگِ درا: ص ۳۰۶) بعض دوسری نظموںکے برعکس ’’ خضرراہ‘‘پہلے سے شائع نہیں کی گئی۔ اقبال کے پاس نظم کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا، تاہم نظم کا زیادہ ترحصہ انھوں نے حافظے کی مدد سے زبانی سنایا۔ نظم کی ابتدائی شکل میں چھٹے بند کا چوتھا شعر: نوعِ انسانی کے لیے سب سے بڑی لعنت یہ ہے شاہ راہِ فطرت اللہ میں یہ ہے غارت گری بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اقبال نے اس شعر کو نظم سے حذف کر دیا۔ ’’صحرا نوردی‘‘ کے تحت تیسرا شعر ، ابتدائی صورت میں یوں تھا: ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ گداے بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ و میل ’’زندگی ‘‘ کے تحت آخری شعر( یہ گھڑی محشر کی ہے …) ’’ خضر راہ‘‘ کے ابتدائی متن میں موجود نہیں تھا۔یہ ایک اور نظم ’’ کلاہِ لالہ رنگ‘‘ کاآخری شعر تھا۔ بعد میں نظم کو متروک قرار دے کر یہ شعر ’’ خضر راہ ‘‘ میں شامل کر دیا گیا۔ ’’خضرراہ‘‘ اقبال نے ۱۹۲۲ء میں لکھی۔ اس زمانے میں دنیاے اسلام کی حالت بد سے بد تر ہو چکی تھی۔ جنگ ِ عظیم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تباہی و مصیبت کا پیغام لائی تھی۔ سلطنت ِ عثمانیہ بکھر گئی تھی، عرب دنیا مختلف ٹکڑ وں میں بٹ چکی تھی، جن پر استعماری طاقتوں کے کٹھ پتلی شاہ حسین اور اس کے بیٹے دادِ حکمرانی دے رہے تھے۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کے ذریعے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے لیے بنیاد فراہم کر دی تھی۔ ترکی کا اندرونی خلفشار بڑ ھ گیا تھا۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے انقرہ میں متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ براے نام خلافت چند دنو ں کی مہمان نظر آتی تھی۔ بیرونی دباؤ بھی کم نہ تھا۔

ادھر ہندستان میں مسلمانوں کی حالت بہت قابلِ رحم تھی کیونکہ بہت سے لوگ تحریک ہجرت کی بے نظمی او رراہ نمائوں کی بے تدبیری کا نتیجہ بھگت رہے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر کے الم ناک سانحے میں جنرل ڈائر کی وحشیانہ فائرنگ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے اور پنجاب میں مارشل لا نافذ ہو ا، اس سے ہندستانیوں کی مشکلا ت میں اور اضافہ ہوا۔