Actions

حسنِ بیان کے دیگر پہلو

From IQBAL

Revision as of 11:43, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> ہر بڑے شاعر کی طرح اقبالؔ کی ہر نظم میں ‘ خواہ اس کا موضوع کچھ ہو‘ جدید اور حسین پیرایۂ...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

ہر بڑے شاعر کی طرح اقبالؔ کی ہر نظم میں ‘ خواہ اس کا موضوع کچھ ہو‘ جدید اور حسین پیرایۂ بیان ملتا ہے۔ حسن بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں: الف: نادر تراکیب: ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں بہت سے ایسے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو اقبال نے اس نظم میں پہلی بار استعمال کی ہیں یا اگر انھیں پہلے برتا بھی ہے تو’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں انھیں ایک نئے انداز‘ نئی آب و تاب اور نرالے انداز سے پیش کیا ہے۔نادر تراکیب کی ایجاد میں غالبؔ کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ مگر ڈاکٹر یوسف حسین خاں کا خیال ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں زندگی کی نسبت جس قدر ترکیبیں اور تشبیہیں استعمال کی ہیں ‘ ان کی مثال فارسی اور اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ ( روحِ اقبال: ص ۱۳۹) ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی چند نادر اور نئی تراکیب ملاحظہ ہوں: جولاں گہِ اطلس‘ نطقِ اعرابی‘ کتابِ ملت بیضا‘ خونِ صد ہزار انجم‘ بال و پرِ روح الامیں‘ گماں آباد ہستی‘ محبت فاتح عالم‘ صید زبونِ شہر یاری‘ قبایانِ تتاری۔ ب: تشبیہات: جہاں تک تشبیہوں کا تعلق ہے ‘ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کہتے ہیں: ’’اقبال تشبیہوں کا بادشاہ ہے اور تشبیہ حسنِ کلام کا زیور ہے۔ اقبال مضمون کی طرفگی اور حسن کو اپنی تشبیہوں سے دوبالا کر دیتا ہے‘‘۔ چند مثالیں: ؎ گماں آباد ہستی میں یقین مردِ مسلماں کا بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی _______ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے ادھر نکلے ج: صنائع بدائع: ۱۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کوچاہیں پہلے پڑ ھیں ‘معنی میں کوئی فرق نہ آئے): ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی، کہ دے مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی، کہ دے ۲۔ صنعتِ تضمین: اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل ’’نورا تلخ ترمی زن چوں ذوقِ نغمہ کم یابی‘‘ ۳۔ صنعتِ تلمیح: مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا ؟ زورِ حیدرؓ ، فقرِ بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ ۴۔ صنعتِ مراعات النظیر: غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغِ چمن اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا ۵۔ صنعتِ اشتقاق: ( ایک ہی ماخذ اور ایک ہی اصل کے چند الفاظ کا استعمال): جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا د: محاکات: ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:’’ شاعر انہ تصویر کشی کے بے شمار اعلیٰ نمونے اقبال کے کلا م میں موجود ہیں۔ وہ لفظوں کے طلسم سے ایسی تصویر کھینچتا ہے اور تخیل کے وموقلم سے اس میں ایسی رنگ آمیزی کرتا ہے کہ حقیقت جیتی جاگتی شکل میں سامنے آجاتی ہے۔( روحِ اقبال: ص ۱۱۹)’’طلوعِ اسلام‘‘ میں محاکات کی خوب صورت مثالیں موجود ہیں۔ چندمثالیں ملاحظہ ہوں: گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوے نغمہ خواں ہو جا _______ ہوئے احرارِ ملت جادہ پیما کس تجمّل سے تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زندانی ’’طلوعِ اسلام‘‘ بانگِ دار کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفر د ہے کہ اس میں اقبال کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اور عام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفاہیم و معانی کے حامل ہیں۔ معروف نقاد کلیم الدین احمد کے الفاظ میں: ’’ اقبال کا مخصوص رنگ[ طلوعِ اسلام کے] ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔ خیالات کا فلسفیانہ عمق‘ ان کی صداقت بے پناہ‘ طرزِ ادا کی شان و شوکت… ہر شعر مؤثر ہے اور اس کا اثر جوش آور ہے۔ دلِ مردہ میں روحِ زندگی دوڑجاتی ہے اور ترقی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے‘خصوصاً نوجوان قارئین تو بے چین ہوجاتے ہیں‘‘۔