جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
From IQBAL
شاعر
جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شراب لالہ گوں مے کدئہ بہار سے
مست مے خرام کا سن تو ذرا پیام تو
زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے
پھرتی ہے وادیوں میں کیا دخترخوش خرام ابر
کرتی ہے عشق بازیاں سبزئہ مرغزار سے
جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے
پست و بلند کرکے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے
شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری
اہل زمیں کو نسخہء زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
گلشن دہر میں اگر جوئے مے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو