Actions

جمہوریت

From IQBAL

Revision as of 23:36, 19 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’جمہوری نظام حکومت نہ صرف مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کی رُوح سے ہم آہنگ ہے بلکہ دنیا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’جمہوری نظام حکومت نہ صرف مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کی رُوح سے ہم آہنگ ہے بلکہ دنیائے اسلام کے موجودہ حالات ومسائل کے پیش نظر یہ اشد ضروری ہے‘‘۔ ( چھٹا خطبہ) (۲)’’ فی الحا ل ہر مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائی میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنی نگاہ اپنی ذات پر مرتکز کردینی چاہیے یہاں تک کہ وہ سب اس قدر طاقتور ہوجائیں کہ جمہوری سلطنتوں کے ایک زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘۔ ( ایضاً) (۳)’’ اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘۔ (ایضاً) (۴)’’ آجکل کے مسلمانوں کو اپنے مقام ومرتبے کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے۔علاوہ ازیں اُنھیں اُس روحانی جمہوریت کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے جواسلام کی غایت اُولیٰ ہے‘‘۔ (ایضاً) علامہ اقبالؒ کو ہمیشہ سے ملت اسلامیہ کے مسائل سے گہری دلچسپی رہی ہے۔اُنھوں نے مسلمانوں کے زوال کے مختلف اسباب اور اُن کی اخلاقی اور سماجی بیماریوں کا سراغ لگا کر اُنھیں رفع کرنے کے لیے مخلصانہ مشورے بھی دئیے۔ اس لیے اُنھیں بجا طور پر’’نباض ملت‘‘ اور’’حکیم الامت‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔وہ ایک وسیع المطالعہ اور دور اندیش مفکر تھے جنہوں نے مشرق اور مغرب کے علو م کا بنظر غائر مطالعہ کرکے اپنے نظریات کی ٹھوس حقائق اور قرآنی تعلیمات پر عمارت استوار کی تھی۔ان چار اقوال میں اُنھوں نے جمہوری نظام حکومت کے قیام، مسلم ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما‘مضبوط اور آزاد مسلم ممالک کے اتحاد اور اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں نت نئے سماجی مسائل کے حل کی ضرورت واہمیت کو بیان کیا ہے۔ہم یہاں ان اہم اُمور پر بڑے اختصار کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔

اس بات کی یہاں شروع ہی میں وضاحت کردینی چاہیے کہ اسلامی طرز جمہوریت اور مغربی نظام جمہوریت میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔مغربی جمہوریت میں خدا کی حاکمیت کی بجائے انسانی حاکمیت اور وحی والہام کی رہنمائی کی بجائے محض انسانی عقل کی رہنمائی کو قبول کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مغربی جمہوریت میں اکثریت کی رائے کوا قلیت کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے خواہ اقلیتی گروہ کے حامی حق و صداقت کے مسلک پر گامزن ہی کیوں نہ ہوں۔اس کے برعکس اسلام میں دین حق وباطل کامعیار کثرت اور تعداد نہیں بلکہ حق ہے۔اگر کوئی مغربی ملک جمہوری فیصلے کے مطابق قوم پرستی اور وطینت کی آڑ میں کسی کمزور ملک کا استحصال کرتا رہے تو اس ملک کے اکثر باشندے اس استحصال کوعین جمہوریت خیال کریں گے ۔اس کے برعکس اسلام کسی قسم کے استحصال کی اجازت نہیں دیتا۔جمہوریت میں جمہور کی بہتری اور جمہور کے اتفاق رائے کو ہر صورت میں اس ملوکیت اور آمریت پر ترجیح حاصل ہے جس کے پردے میں ایک فرد واحد دوسروں کے جائز مفادات اور بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے۔اجتماعی مشاورت کا اُصول بھی اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔یاد رہے کہ علامہ اقبالؒ اسلام کے بنیادی اُصولوں کی ر وشنی میں سماجی زندگی کی تشکیل نو کے حامی تھے اور وہ’’روحانی جمہوریت‘‘کی تکمیل کو اسلام کی غایت اولیٰ تصور کرتے تھے۔مغربی جمہوریت پر اُنھوں نے جو تنقید کی ہے اس کی چند جھلکیاں قابل غور ہیں۔وہ اپنی طویل اور بصیرت افروز نظم’’خضر راہ‘‘ میں مغرب کی ملوکانہ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے استبدادی اور پرزور ہتھکنڈوں کی یوں قلعی کھولتے ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد  جمہوری قبا   میں  پائے کوب     تو سمجھتا   ہے  یہ  آزادی کی  ہے  نیلم  پری
   مجلس آئین و اصلاح  و  رعایات  و  حقوق     طبِّ مغرب   میں مزے میٹھے اثر خواب آوری     
گرمئی گفتارِ  اعضائے   مجالس   الاماں     یہ بھی  اک سرمایہ داروں کی ہے  جنگ زر گری

وہ اپنی ایک مختصر فارسی نظم بہ عنوان’’جمہوریت‘‘ میں مغربی جمہوریت کی مذمت اور ہادی اعظم ﷺ کی قیادت کی ستائش میں کیا خوب کہتے ہیں:۔ متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو     کہ از  مغز‘ دوصد خر‘ فکر انسانے نمی آید

(پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۳۰۵) مغربی جمہوریت کے اُصول کثرت رائے پر کتنی عمدہ تنقید کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ’’دو سو گدھے مل کر بھی انسانی فکر کی تخلیق نہیں کرسکتے۔کہاں ایک پختہ کار اور عظیم شخصیت کے انسانیت ساز افکار اور کہاں دو سو گدھوں کا بیکار مغز؟ اب فرنگی جمہوریت کے عالمی استبداد اور کمزور قوموں کے استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔

وائے  بر  دستورِ  جمہورِ فرنگ     مردہ ترشد مردہ از صورِ فرنگ
حُقہ  بازاں  چوں سپہر گرد گرد     از  اُمم   برتختہ خود  چیدہ نرد 
شاطراں ایں گنج  ور آں رنج بر    ہر زماں اندر کمین  یک  دگر

(جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۶۶۰) یہ تو مغربی جمہوری نظام کا حال ہے اب ذرا علامہ اقبالؒ کی زبان سے اشتراکی جمہوریت کی عوام فریبی اور استحصال پسندی کی حقیقت بھی سن لیں۔وہ اشتراکی جمہوریت کو بھی مغربی جمہوریت کی طرح امپیریلزم کی دوسری شکل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔

     ؎زمام کار اگر مزدور کے ہاتھووں میں پھر کیا؟   طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیںپرویزی

مغربی جمہوری نظام حکومت اور اشتراکی جمہوریت کی بجائے علامہ اقبالؒ نے روحانی جمہوریت کو ’’اسلام کی غایت اولیٰ‘‘ کہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریت اور اسلامی نظام حکومت کے بارے میں اُن کے نظریات کا خلاصہ کیا ہے۔وہ نئی تہذیب کے استحصال اور آدم کشی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے شریعت اسلامیہ کے چند اہم پہلوئوںکو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

شیوہ تہذیب نو آدم دری است پردہ آدم دری سوداگری است تاتہ و بالا نہ گر دو ایں نظام دانش وتہذیب ودیں سودائے خام آدمی اندر جہاں خیر و شیر کم شناسہ نفع خود را از ضرور کس نداند زشت وخوبِ کار چیست جادہ ہموار و ناہموار چیت

شرع   بر  خیز د ازِ اعماق  حیات      روشن   از   نورش   ظلام کائنات
گرجہاں  داند  حرامش را حرام      تا قیامت  پختہ   ماند  ایں  نظام

(جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۸۲۶ ) فرد را شرع است مرقات یقیں پختہ تراز وے مقامات یقیں

ملت  از آئین  حق گیرد نظام        از  نظام  محکمے  خیزد  دوام

(رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۱۲۶)

تو ہمی دانی کہ آئین  تو  چیست        زیر گردوں  سرِّ تمکین   تو  چیست؟
آں کتاب  زندہ  ‘قرآن حکیم        حکمت ا و  لایزال  است وقدیم
 نسخہ   اسرارِ  تکویں   حیات         بے ثبات  از  قوتش گیرد  ثبات  

(رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص ۱۲۱) اس لحاظ سے علامہ اقبالؒ کی رائے میں قرآنی تعلیمات ہی میںمسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا رازمخفی ہے۔وہ مغربی جمہوریت کی جگہ اسلام کے بنیادی اُصولوں پر مبنی روحانی جمہوریت کے قائل تھے۔ علامہ اقبالؒ آمریت اور ملوکیت کے سخت مخالف تھے اس لیے وہ اسلامی نظام حکومت کی عدم موجودگی میں جمہوریت کو آمرانہ اور ملوکانہ طرزحکومت پر ترجیح دینے کے لیے مجبور تھے۔وہ دلی طور پر تو اسلامی نظام حیات کے قیام کے علم بردار تھے تاہم وہ وقتی طور پر جمہوریت کے حامی بن گئے تھے جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:’’اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘۔ خلافت راشدہ کے فوراًبعد ہی بادشاہت کا نظام قائم کردیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شورائی نظام کو بدل کر شخصی مشاورت کو پروان چڑھایا گیا۔مسلمان بادشاہ اس طرح ہر قسم کی پابندی سے بے نیاز ہوکر من مانی کرنے لگے تھے۔کہنے کو تو مسلمان خلیفہ تھے مگر دراصل وہ خلافت کے پردے میں بادشاہت کیاکرتے تھے۔ اس ملوکانہ نظام نے اُنھیں خودغرضی کے تحت ایک دوسرے سے متصادم کردیا۔اس طرح مسلمان حکومتیں آپس میں ہی لڑنے لگیں اور رفتہ رفتہ مسلمان زوال پذیر ہوتے گئے۔ دور جدید میں مغربی طاقتیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کرکے مسلمان ممالک پر قابض ہوگئیں اور اُنھوں نے ملت اسلامیہ کے اتحاد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو اپنا دست نگر بنانے کے للیے مسلم ممالک کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ مسلم اتحاد ختم ہوتے ہی مسلم ممالک مختلف علاقوں اور قومیتوںمیں بٹ گئے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل دو اشعار اسی اندوہناک حقیقت کے مظہر ہیں۔وہ اپنی نظم’’خضر راہ‘‘ میں عیسائی طاقتوں کے عروج اور مسلم ممالک کے زوال وانتشار کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں: لے گئے تثیلت کے فرزند میراث خلیلؑ خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی     ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز

(بانگ درا،کلیات اقبال،ص۲۶۴) دنیائے اسلام کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر علامہؒ جمہوری نظام حکومت کو اسلامی تعلیمات کی روح سے ہم آہنگ کرنے کے خواہاں تھے۔اُن کے روحانی اضطراب اور اسلام دوستی کو ان الفاظ سے اخذ کیا جاسکتا ہے :’’آجکل کے مسلمانوں کو اپنے مقام رفیع کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے‘‘ ۔وہ بادشا ہوں کی بیجا حمایت کی بجائے عوام الناس کی ذہنی بیداری اور فلاح وبہبود کے خواہش مند تھے ۔اس لیے وہ عوام کی بیداری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں: نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش قصّہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں!ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک (بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۲۶۳) جہاں تک موجودہ زمانے کے مسلمان ممالک اور خلافت کا تعلق ہے، علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے اتحاد ومرکزیت کے زبردست حامی تھے مگر وہ اس کے عملی حل کے بارے میں فی الحال زیادہ پراُمید نہ تھے۔اُن کی رائے یہ تھی کہ مسلمان ممالک اپنی ملی وحدت کھونے کے بعد مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور وہ آسانی سے ایک مرکز پر جمع نہیں ہوسکتے۔ترکوں نے اجتہاد سے کام لے کر وہاں پارلیمانی نظام کو جاری کیا تھا اوراُن کا خیال تھا کہ موجودہ عہد میں پرانی طرز کی جمہوریت قابل عمل نہیں رہی۔علامہ اقبالؒ کو اُن کے خیال سے کافی حد تک اتفاق تھا۔مرکزیت پانے سے پہلے وہ مسلمان ممالک کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پہلے اپنے من کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مضبوط بنالیں تاکہ بعد میں یہ سب مستحکم مسلمان ملک زندہ خاندان کی شکل اختیار کرسکیں۔ اس ملی استحکام کے لیے وہ ذاتی اجتہاد کی بجائے اجماع اُمت کے قائل تھے۔اُنکی یہ دیرنیہ خواہش تھی کہ مسلمان ممالک موجودہ حالات اور مسائل کے تسلی بخش حل کے لیے اسلامی آئین کے چار منابع(قرآن پاک،احادیث مبارکہ، قیاس اور اجماع) کو مدنظر رکھیں اور اسلام کے بنیادی اُصولوں اور حدود کے اندر رہ کر اجتہاد اور اجماع سے کام لیں۔